مظلوم دنبہ اور ظالم پانڈے جی۔۔۔۔علی اختر

نام تو انکا کچھ اور ہے لیکن سبھی جان پہچان کے لوگ انہیں پانڈے جی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ لقب انہیں “منگل پانڈے ” یا ” چنکی پانڈے” سے نہیں بلکہ چائنا کے قومی حیوان “پانڈے” سے مشابہت پر دیا گیا ہے۔ ہم انکے حلیے کو زیادہ تفصیل سے بیان نہیں کریں گے کیونکہ یہ کالم یقینا ً وہ بھی پڑھیں گے اور نہ بھی پڑھیں تو راقم جانتا ہے کہ  انہیں پڑھوایا جائے گا اور راقم کا تقریبا ً روز ہی سامنا ہوتا ہے تو مختصر یہ کہ  موصوف بھاری بھرکم تن و توش کے مالک ہیں ۔ کمر کا گھیراؤ چھپن انچ ہے اور چمکدار سیاہ رنگت انکو دوسروں سے ممتاز بناتی ہے ۔ اگر کوئی  دور سے انہیں کرسی پر بیٹھے ہاتھ ہلا ہلا کر جو ش خطابت سے بات کرتا دیکھے تو ذہن میں کیوٹ سے پانڈے کا گمان ہوتا ہے۔

راقم سے دلی تعلق رکھتے ہیں سو ایک بڑی عید سے چند دن قبل آموجود ہوئے اور فرمایا ۔ ” قربانی کے لیئے ایک عدد جانور چاہیے ۔ بکرا منڈی چلو، ساتھ بھی ہو جائے گا اور واپسی میں واٹر پمپ کے ماموں  کے کباب الگ کھائیں گے۔”

راقم نے حیرت سے انکی جانب دیکھا۔ “خیریت تو ہے نا، آپ اور قربانی”۔

” ارے بس بچوں نے ضد پکڑی ہوئی ہے ۔ کہتے ہیں سب کے گھر جانور آرہے ہیں ، ہمیں بھی چاہیے ۔باقی معاملات تو تم جانتے ہی ہو” پانڈے جی نے معانی خیز مسکراہٹ کے ساتھ وضاحت کی۔

خیر مرتے کیا نہ کرتے انکی 70 سی سی ہیوی بائیک پر بکرا لینے روانہ ہوئے۔ منڈی میں چار گھنٹے خواری کے بعد بھی کوئی  جانور ایسا نہ تھا جو پانڈے جی کے معیار پر پورا اترتا۔ کسی کے سینگھ بڑے تھے، کسی کا رنگ انہیں نا پسند تھا۔ کوئی بہت ہلکا تھا۔ ایک بکرا تو صرف آواز کی وجہ سے بھی ریجیکٹ کیا گیا۔ غرض انہیں جیب میں موجود مبلغ دس ہزار میں وہ جانور چاہیے تھا جس میں بنی اسرائیل والے بچھڑے سے زیادہ خوبیاں موجود ہوں تو منڈی میں مٹر کشتی اور ماموں کے کباب کھا کر ہم خالی ہاتھ ناکام و نامراد گھر واپس پہنچے۔

گو دل میں یہ خیال موجود تھا کہ  پانڈے جی جیسے جھکی انسان کو جانور روز قیامت تک نہیں مل سکتا لیکن پھر بھی دوستی کے ناطے ہی پانڈے جی کو فون ملا کر خیریت دریافت کی اور راقم حیرت کے شدید جھٹکے کا شکار ہوا جب دوسری طرف سے اطلاع ملی کہ  جناب ایک  عدد دنبہ قربانی کے واسطے  خرید چکے ہیں۔

“سرکار کہاں سے خرید لیا دنبہ”
راقم نے حیرت سے پوچھا ۔

“بس کیا بتاؤں گلی سے گزر رہا تھاایک آدمی لے کر۔ ۔تین چار دانے ہی بچے تھے۔ سستے میں دے گیا”
دوسری جانب سے جواب ملا ۔

راقم روز گزشتہ کی جھک جھک دیکھ چکا تھا اور کامل ایمان رکھتا تھا کہ  پانڈے جی کے معیار پر پورا اترنے والا جانور کچھ بھی ہو لیکن اتنا ارزاں کبھی بھی نہیں ہو سکتا تھا جو انکے میسر بجٹ میں مل جائے تو ڈرتے ڈرتے دریافت کیا۔

“جناب کتنے میں ملا”

جواب سن کر راقم کو رونگھٹے کھڑے اور شوگر لو ہوتی محسوس ہوئی۔

“پورے چھ ہزار چھ سو میں”

یہ کہہ کر فون تو بند کر دیا گیا لیکن راقم کی متجسس طبیعت چھ ہزار چھ سو کے دنبہ میں اٹک گئی ۔ راقم کافی کمسن واقع ہوا تھا۔ گو بزرگوں کے قصوں میں چھ آنے کی بیس سیر گندم کی ہوشربا داستانیں سن چکا تھا لیکن یہ بھی جانتا تھا کہ فی زمانہ چھ ہزار چھ سو میں دنبہ تو کجا اسکی فوٹو اسٹیٹ بھی نہیں ملتی سو دفتر سے گھر آنے کے بجائے سیدھا پانڈے جی کے غریب خانے پر دستک دے ڈالی۔

کچھ دیر انتظار کے بعد انہوں نے دروازہ کھولا اور رسمی علیک سلیک سے فارغ ہوکے راقم براہ راست مدع پر آگیا ۔
دنبہ کے بارے میں دریافت کرنے پر پتا چلا کہ  موصوف چھت پر ہیں ۔
“تم یہیں ٹھہرو میں لے کر آتا ہوں ”

یہ کہہ کر پانڈے جی سیڑھیوں کی جانب چلے گئے اور راقم وہیں منتظر ۔۔ ۔ کہ اچانک جو سیڑھیو کی جانب دیکھا تو پانڈے جی کسی نومولود بچے کو کپڑے میں لپیٹے اترتے نظر آئے۔

“ارے پانڈے جی بھتیجے کو لانے کی کیا ضرورت تھی ”
راقم کے منہ سے اچانک نکلا۔

“میاں پہلے دیکھ تو لو اس میں کیا ہے”۔۔

یہ کہہ کر جو انہوں نے کپڑا ہٹایا تو گود میں چھوٹا سا معصوم صورت دنبہ لرزتا دکھائی دیا ۔ “اسے سردی لگ رہی تھی اس لیئے کپڑے میں لپیٹا ہوا تھا” پانڈے جی نے وضاحت پیش کی ، لیکن راقم اپنی عقابی نگاہ کے سبب پانڈے جی کے اس پر پھیرے جانے والے بڑے سے ہاتھ اور دنبہ کی کپکپاہٹ کے راست تناسب کو پہچان گیا اور سمجھ گیا کہ  یہ لرزہ سردی کے سبب نہیں خوف کے سبب ہے۔

“لیکن پانڈے جی! یہ کچھ زیادہ ہی چھوٹا نہیں ، میرا مطلب ہے دانت تو چیک کر لیے تھے آپ نے” راقم نے دنبہ کی جانب غور سے دیکھتے ہوئے کہا، اور جواب میں پانڈے جی کو مطمئن لیکن دنبہ کو جلدی جلدی اثبات میں سر ہلاتے محسوس کیا ۔
” میں تو چیک کر چکا تم بھی کر لو ” پانڈے جی کے آنکھیں دکھانے پر دنبہ نے زبردستی مسکرانے کے انداز میں دانت دکھا دیئے ، “ارے یہ تو کھیرا ہے ” راقم نے دانت دیکھتے ہی اندازہ لگا لیا۔

“ہاہاہا ” پانڈے جی نے قہقہہ لگایا۔ “تم جیسے شریعت سے ناواقف لوگوں پر حیرت ہوتی ہے مجھے،اگر دنبہ چھ ماہ کا ہو اور اتنا فربہ ہو کہ  نظر آنے  میں سال بھر کا لگتا ہو تو اسکی قربانی کی جا سکتی ہے” ۔ پانڈے جی نے وضاحت کی۔

” چلیں مان لیا یہ چھ ماہ کا ہے لیکن فربہ؟؟” راقم نے سوال کیا ۔

“ہاں وزن کیا تھا، پورے سات کلو سات سو گرام کا ہے – وہ کیا ہے نا یہ نسل ہی چھوٹی ہوتی ہے” پانڈے جی نے اپنے تئیں مجھے مطمئن کر دیا تھا ۔

راقم اس وقت تو گھر کی جانب چلا گیا لیکن مسلسل اس معصوم کی فکر اسے کھائے جاتی تھی سو اگلے دن نہ چاہتے ہوئے بھی پانڈے جی کے گھردنبہ کی عیادت کے لیئے پہنچ گیا۔

دیکھا تو موصوف مع دنبہ گلی میں موجود تھے۔ “ارے میاں اچانک کیسے” پانڈے جی مجھے اچانک دیکھ کر خوش ہوگئے۔ ” کچھ نہیں بس ایسے ہی چکر لگا لیا ۔ لیکن یہ کیا دنبہ کے بال تو گھنگریالے تھے ، یہ سیدھے کیسے ہو گئے ”
میں نے شفقت سے اس پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔

“ارے بس کچھ نہیں وہ بچوں نے نہلا دیا تھا ۔ میں نے کہا لگے ہاتھ تیل لگا کر باریک کنگھی بھی پھیر دو ۔ جوئیں ختم ہو جاتی ہیں اس سے ۔ اور ہاں کنگھی میں الجھ سلجھ کر اون بھی جمع ہو گئی  بہت ساری ” انہوں نے ایک طرف پڑے بالوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا” اب میں اس سے سویٹر بناؤں گا ۔
“وہ سب تو ٹھیک ہی کیا جناب لیکن یہ دنبہ کی کمر کو کیا ہوا” راقم نے اسکی کمر کی جانب دیکھ کر دریافت کیا جسکا خم کچھ زیادہ ہی واضح ہو گیا تھا ۔ جیسے کوئی  بھاری چیز گری ہو۔ “ارے وہ چھوٹا ضد کر رہا تھا کہ  اس پر سواری کرنی ہے میں نے سختی سے……”
“منع کر دیا ہوگا” راقم نے بات کاٹی ”
“ارے سختی سے کہا کہ  گلی سے باہر نہ جانا ۔ زمانہ بہت خراب ہے ۔ وہ کیا ہے نہ عید تو بچوں کی ہی ہوتی ہے نا ”
پانڈے جی بولے جا رہے تھے اور راقم کی توجہ برابر میں کھڑے پانڈے جی سے ملتے جلتے چالیس کلو کے “چھوٹے ” کی جانب تھی۔جو راقم کی توجہ پا کر چہکا
“انکل ابھی تو ہم اسے سرف سے بھی نہلائیں گے اور اس پر عید مبارک لکھیں گے اور بل فائٹنگ بھی کھیلیں گے ”
” بیٹا گھوڑے منگوا دیتا ہوں لگے ہاتھ بزکشی بھی کھیل لو”
راقم نے لقمہ دیا ۔
” ارے میاں کیسی بات کر رہے ہو ، بچوں کو کیا غلط سلط سکھارہے ہو” پانڈے جی ایکدم سیریس ہو گئے ” قربانی کا جانور ہے، ہم بہت پیار سے رکھتے ہیں ہمیشہ ، اسطرح نہیں ہوتا ہمارے یہاں ، ہاں نہیں تو۔۔۔۔”
وہ اپنی ہی دھن میں کہے جا رہے تھے اور راقم ٹکٹکی باندھے اس مظلوم کی جانب دیکھ رہا تھا ۔ دنبہ نے بے بسی سے راقم کی کلائی پر بندھی گھڑی کی جانب دیکھا اور راقم نے انگلیوں سے دو کا اشارہ کیا ، یہ دیکھ کر دنبہ نے آنکھیں بند کر لیں جیسے کہ رہا ہو یہ دو دن دو صدیوں کے برابر ہونگے۔

آج عید کا دن تھا۔ راقم کے کمزور دل میں ہمت نہ تھی لیکن پھر بھی کسی انجان قوت کے زیر اثر راقم پانڈے جی کی گھر دنبہ کا آخری دیدار کرنے پہنچا۔

پانڈے جی باہر گلی ہی میں کھڑے تھے ۔ راقم سے گرم جوشی سے عید ملے۔ “کیا بات ہے قصائی  نہیں  آیا اب تک ؟” راقم نے دریافت کیا ۔ “قصائی ۔۔۔ ہاہاہا۔ ” پانڈے جی نے قہقہہ لگایا ۔ ” ارے میاں دس سال کام کیا ہے یہ ۔ اونٹ کے کاری گر ہیں ہم ۔ ایک دفع سخی حسن کے چو راہے پر اونٹ نحر کیا ۔ صفائی  اس قدر تھی کے اونٹ کو پتا ہی نہ چلا کہ  کیا ہوا ہے ۔ وہ تو لوگوں کے اشارہ کرنے پر جب اس نے گردن جھکائی تو خبر ہوئی کہ  نحر کیا جا چکا ہے اور گر گیا ۔ لوگ نہ بتاتے تو خدا قسم شام تک کھڑا رہتا۔ اور تم ہم سے قصائی  کی باتیں کر رہے ہو ۔ شرم کرو ”

” لیکن چھری وغیرہ تو تیز ہے نا ۔ اگر نہیں ہے تو میں لے آتا ہوں ” راقم کو دنبہ کی فکر ہو رہی تھی۔

” چھری؟ وہ تو تم جیسے بچے چلاتے ہیں۔ ہمارے پر دادا جناب شہاب الدین بہادر یار جنگ آصف جاہ مرحوم دکن کی فوجوں کے سپاہ سالار تھے۔ انکی آخری نشانی انکی تلوار جو انہیں نظام دکن نے خود عطا فرمائی  تھی موجود ہے ، ہم ہر سال اسی سے قربانی کرتے چلے آئے ہیں ”

یہ کہہ کر انہوں نے ایک بار فٹ لمبی دو دھاری تلوار جھٹکے سےبے نیام کرلی ۔ پانڈے جی کی آنکھوں میں اترے خون اور ہاتھ میں موجود چمکتی تلوار دیکھ کر راقم خود بھی گھبرا گیا اور دو قدم پیچھے ہٹ کر دفائی یعنی بھاگنے کی پوزیشن لے لی ۔

“ارے ڈرو نہیں ڈرنا تو اسے چاہیے ” پانڈے جی نے دنبہ کی طرف اشارہ کیا۔ “دیکھو بجائے ڈرنے کے اور بھی موٹا ہو گیا ہے” ۔

“پانڈے جی وہ موٹا نہیں ہوا ۔ خوف سے بال کھڑے ہو گئے ہیں” راقم چیخا ۔ “جلدی پانڈے جی اسے ہارٹ اٹیک آنے والا ہے” راقم اسکی نازک حالت بھانپ چکا تھا ۔ اور اس سے پہلے کے دنبہ غش کھا کر گر پڑتا ۔ پانڈے جی زمین سے تین فٹ اونچا اچھل کر تکبیر کے فلک شگاف نعرے کے ساتھ تلوار کا کاری وار کر چکے تھے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

راقم بوجھل قدموں سے گھر کی جانب روانہ ہوا ۔ گلی سے مڑتے آخری نگاہ اس معصوم پر ڈالی جسکی کھال پانڈے جی نامی خونی درندہ بغیر کسی اوزار کے محض ہاتھوں کی مدد سے اتار رہا تھا۔ راقم نے ایک سرد آہ بھری اور چل دیا۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply