میں ہجڑا ہوں۔۔۔۔اسامہ ریاض

وہ آوارہ تھا۔۔ ہر وقت گلیوں میں گھومتا  رہتا۔ کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ رات رات بھر گھر نہیں آتا تھا۔ کبھی کبھی شراب بھی پیتا تھا لیکن جب پیتا تب بےانتہا پیتا تھا۔ اگر دو گھڑی کسی کے ساتھ بات کرنے بیٹھ گیا ہے تو فلسفیانہ باتیں کرتا رہتا۔
شاید وہ پیدا ہی مختلف ہوا تھا۔ اُسے اِس زنگ آلودہ سماج سے نفرت تھی۔ عجیب و غریب سوال اُٹھاتا تھا۔ کئی ایک دفعہ اُسے کئی جگہوں سے پتھر بھی پڑ چکے تھے لیکن وہ اپنی دھن میں لگا رہتا تھا۔ اُسے سڑک پر پڑے ہوئے مزدروں سے محبت تھی۔ کبھی تو رات اُن کے ساتھ ہی فٹ پاتھ پر سو جاتا۔ اُسے جانوروں سے محبت تھی۔ ایک دفعہ بارش میں ایک بلی بھیگ رہی تھی اور اُسے کوئی جگہ نہیں مل رہی تھی۔ وہ بھاگا گیا۔ اُپنی شرٹ اُتاری، بلی کے اُوپر دی اور اُسے اٹھا کر اپنے ساتھ گھر لے آیا۔ گھر والے بھی اب اُس سے پریشان رہتے تھے۔
گھر میں سارا دن بےکار پڑا رہتا تھا یا پھر باہر آوارہ پھرتا رہتا۔ ابا جان نے آخر ایک دن تنگ آکر اُس سے دو ٹوک بات کی کہ یا تو کوئی کام دھندہ کرے  ورنہ نکل جائے یہاں سے اور جب تک کچھ بن نہیں جاتا تب تک یہاں واپس مت آئے۔
وہ چپ چاپ اُٹھا اور گھر سے نکل گیا۔ سورج ڈوب رہا تھا۔ شہر کی سٹرکوں سے تو وہ پہلے ہی آشنا تھا۔ چلتے چلتے وہ قبرستان والی ویران سڑک پر نکل آیا۔ وہاں اُسے سڑک کنارے ایک سات آٹھ سال کا بچہ روتے ہوئے ملا۔۔ وہ  جھٹ اُس کے پاس گیا اور رونے کا سبب پوچھنے لگا۔ وہ بچہ روتے روتے بولا ’’مجھے میرے گھر والوں نے گھر سے نکال دیا ہے۔ ‘‘
وہ ہلکا سا مسکرا دیا ’’مجھے بھی ‘‘۔ پھر وہ حیران ہو کر دوبارہ بچے سے مخاطب ہوا کہ تم کہیں راستہ تو نہیں بھول گئے کیونکہ اُسے لگا کہ بچہ ذہنی  مریض ہے ورنہ بھلا اتنے چھوٹے بچہ کو گھر سے کون نکالتا ہے۔ بچہ روتے روتے پھر بولا ’’ میں ہجڑا ہوں۔ اس لیے انہوں نے مجھے گھر سے نکال دیا۔‘‘ اُس کا دل چاہا کہ زمین پھٹ جائے ابھی۔ وہ اُن تین لفظوں کی شدت کو برداشت نہیں کر پایا اور بچے کو اُٹھا کر سینے سے لگا لیا اُور بولا ’’ نہیں نہیں۔ تم ہجڑے نہیں ہو۔ ہجڑا تو یہ سماج ہے۔ یہ معاشرہ زنگ آلودہ ہے۔ تم تو انسان ہو۔ا شرف المخلوقات ہو۔ تم بہت پیارے ہو۔ بس بس
اب رونا نہیں۔‘‘
اور بچے کو چپ کروا کر اُس کی انگلی پکڑ کر پھر شہر سے باہر کے راستے پر چل پڑا۔۔۔۔ کہتے ہیں اُس دن کے بعد کسی نے اُسے نہیں دیکھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply