صرف جذبات۔۔۔۔روبینہ فیصل

بات سادی اور سچی ہو تو اثر رکھتی ہے ۔ بات ہو یا انسان دونوں اگر بناوٹ میں ڈوبے ہوں تو کوفت ہو تی ہے اور صحیح مقام یعنی کہ دوسرے کا دل ، تک نہیں پہنچ پاتے ۔ عمران خان کی جیت کی تقریر نے دل میں آئے سب مستقبل کے وہموں کو اورماضی کے بھوتوں کو ایک دم سے پیچھے دھکیل دیا تھا ۔ انسان جذبات کے ہاتھوں سب سے بڑا خسارہ اٹھاتا ہے مگر کیا کیجئے جذبات کے نہ ہو نے سے شائد دنیا میں تنظیم اور سناٹا تو بہت ہو جائے مگر سکون یا بے ترتیبی میں چھپا خالصیت کا احساس ختم ہو جائے ۔ عمران کی جیت کا طریقہ بھی پتہ تھا اور راستہ بھی ۔۔ مایوسی اور وہم نے حقیقت پسندوں کو الیکشن سے پہلے تک گھیرے رکھا تھا۔ عمران کی اچھائیاں جیسے کہ پاکستان کے ساتھ انمٹ خلوص ،اس کی سادگی ،لگن ، اور غریبوں کے لئے احساس ۔۔۔ یہ سب باتیں ہمیں شروع سے ہی پتہ ہیں تو ان پر چوبیس گھنٹے کیا بات ہو تی رہے ۔ یہ نہ اس میں تبدیل ہو ئیں نہ ہمارے خیال میں کوئی فرق آیا ۔۔عمران کے چاہنے والوں کی ایک خوبی یہ ہے ، کم از کم بیرون ملک پاکستانیوں میں کہ جہاں اور جو بھی اس نے غلطی کی وہیں پر اپنے غم و غصے کا اظہا ر کہا ، مگر ساتھ میں ہی اس پر اعتماد نہ چھوڑا ۔ شائد یہی تنقید کے ساتھ نہ ٹوٹنے والا اعتماد ہی تھا جس نے آج پاکستان سے مایوسی کا بادل کچھ حد تک ہٹا یا ہے ۔ میں نے سوچا ، یہ جو خوشی کی لہر عمران کی جیت سے دل میں اٹھ رہی ہے ، اسے میں نے کسی خدشے کی نذر نہیں کرنا ، اسی لمحے کو منا لینا چاہیئے ۔۔۔ پچیس جولائی کو اسی لہر کو سب نے خوب جی بھر کے منایا ۔۔۔کبھی سوچا ہے آپ نے کہ ایسی خوشی دل کو آخری دفعہ کب نصیب ہو ئی تھی ؟
ا سی خلوص کی جھلک جب جیت کی تقریر میں دیکھی تو ٹورنٹو کا ذرہ ذرہ جھوم اٹھا ، پہلی دفعہ یوں ہوا کہ گورے کالے ، انڈین بھی ہمیں مبارک بادیں دینے لگے ۔۔ اس فخر اورخوشی کے احساس کا تو ہمارے فرشتوں کو بھی نہیں پتہ تھا ۔۔۔ ایک گورے نے کہا اب لگتا ہے کہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ اس پورے خطے کی قسمت بدل جائے گی ۔۔۔۔یہ تو بالکل ایسے ہی لگا جیسے عمران خان نے ورلڈ کپ اس قوم کو دلوا کر عزت سے سر اٹھانے کے قابل بنا دیا تھا ۔۔ اس کے بعد سے اب تک تو ہم ہر جگہ رینگ ہی رہے ہیں ۔
دھوکہ، انسان کو ملے تو وہ زمین پر رینگنے والا کیڑا بن جا تا ہے اور یہ ہماری قوم ہے جو ستر سال سے دھوکے کھا رہی تھی ، اور ان کی عزت نفس خاک میں مل چکی تھی ، اعتماد چکنا چور ہو چکا تھا اور وہ بھی رینگنے والے کیڑے کی مانند زمین پر رینگ رہی تھی ۔۔عمران نے پھر سے نڈھال لوگوں میں زندگی کی روح پھونکی ۔ مگر ایک بات کہنے کی گستاخی پھر سے کرو ں گی ۔۔ اب کہ مان ٹوٹا تو بہت برا ٹوٹے گا ۔۔ کیونکہ انسان جھوٹ کی دنیا میں جب جینا سیکھ جا تا ہے تو کوئی اسے مایوسی سے واپس لا کر کہے : اب میں ہو ں ۔۔ لاؤ اپنے سارے زخم مجھے سونپ دو ، اور میں وہ ہوں جو تمھیں کھڑا کر کے ہی دم لوں گا ، دنیا میں جینے کا ہنر سکھاؤں گا ۔۔ ۔۔ وہ قوم جو دھوکے اور جھوٹ میں جینے کا طریقہ سیکھ چکی تھی ، خان نے انہیں ایک یو ٹو پیا میں لا کھڑا ہے ۔۔ اور اب کے دیوار گری تو اٹھنے کا امکان نہیں ۔ صبح کا ستارہ بن کر عمران لوگوں کی تاریک زندگیوں میں آیا ہے ۔۔۔ مگر میری ایک نثری نظم ہے سن لیجئے :
انجام محبت
اس محبت نے اس کے پروں کو بہت طاقت بخش دی
وہ بہت اونچا اڑنے لگی
اس کی پرواز میں غرور آگیا
آنکھوں میں سرور آگیا
اور پھر ایک دن جب وہی محبت
پہلے اکتاہٹ اور حقارت میں بدل گئی
تو وہ آسمان سے زمین پر آگری
اس کی جون ، پرندے سے کیڑے میں بدل گئی
اعتماد ریزوں کی صورت بکھر گیا
اور اب وہ
زمین پر رینگتے ہو ئے خوفزدہ ہو کر
سر اٹھا اٹھا کر دیکھتی ہے
کہ پھر سے کوئی اسے پاؤں تلے کچل نہ دے
اور وہ پھر سے بے نام و نشان نہ ہو جائے (روبینہ فیصل)

Advertisements
julia rana solicitors london

یہی حال پوری پاکستانی قوم کا ہے ، عمران کی جیت ہو یا اس کی تقریر ،اس کی حلف برداری کی تقریب ہو یا قوم سے پہلا خطاب ۔۔ اس کے ایک ایک لفظ سے شہد اور خواب ٹپک رہے ہیں ۔ خوشی اندر سے پھوٹ رہی ہے ۔ ہماری نفسیات سے غم ختم ہو رہا ہے اور ہم بے دریغ خوشیاں منا رہے ہیں ۔
ہم ،ہر دن ایک نئے خواب کے ساتھ جاگتے ہیں ۔ عمران ہماری باتیں کر رہا ہے ، ہم سے باتیں کررہا ہے ، وہ ہمارا ہے ہم اس کے ہیں ، یہ خیال ہر متوالے کے دل میں جڑ پکرتا جا رہا ہے ۔ اس کے ہر فیصلے پر لبیک کہا جا رہا ہے ۔ ہم تصور ہی تصور میں دنیا کی ترقی یافتہ اور عزت دار قوموں کی فہرست میں خود کو اوپر اٹھتا دیکھ رہے ہیں ۔
جب وہ آنکھوں میں نمی بھر کے کہتا ہے کہ میرے لوگ دنیا کو خیرات دیا کریں گے تو سمجھدار سے سمجھدار بندہ بھی اندر سے ہل کے رہ جاتا ہے ۔ عمران نے سوئے جذبات کو جھنجوڑ کر جگا دیا ہے ۔۔۔ بہت عرصے تک سوئے رہنے والوں کو جگا کر ان کے خواب کی تعبیر انہیں نہ دی تو کیا ہو گا ؟میں یہ اس وقت سوچنا نہیں چاہتی ۔ میں اس وقت صرف خوش ہو نا چاہتی ہوں ۔ میں لوگوں کے پر امید اور خوابوں سے بھری آنکھوں کے منظر کو دل میں بسا کر زندگی کے یہ دن خوشی سے گزارنا چاہتی ہوں ۔۔۔ جب وہ یہ کہتا ہے کہ دیکھو یہ سب غم ہیں اور زندگی ہماری صعبتوں سے بھری پڑی ہے مگر تم فکر نہ کر نا تم بس میرا ساتھ دینا اور جب میں چوروں پر ہاتھ ڈال رہا ہو نگا تو وہ میرے خلاف پرو پیگنڈہ  کر یں گے تو تم مجھ سے اعتماد ختم نہ کر نا تو مجھے ایک دم سے لگتا ہے کہ اس سے زیادہ ذمہ داری تو میرے کندھوں پر آگئی ۔ ایسی بے اعتبار اور جھوٹی دنیا میں مجھے اس شخص پر ہر حال میں اعتبار کر نا ہے ۔ وہ وعدے نبھائے گا اور مجھے بس اس پر اعتبار کر تے جانا ہے ۔۔۔ جذباتی سطح پر پاکستان کی کہانی اس وقت صرف اس ایک موڑ پر کھڑی ہے ۔
پرواز میں اعتماد آجائے اور سر زمین سے اٹھ جائے اور خوشیاں منانے کا ڈھنگ آجائے تو کینڈا کے وڈ بائن مال میں بھی پاکستان اور جناح کا نام گونج سکتا ہے ۔ عائشہ یوسف،انجم علوی اور عامرہ علوی نے پاکستان کے تمام صوبوں کی ثقافتوں کو منانے کا سوچا ہو گا تو دن رات محنت بھی کی ہو گی ۔جس کے نتیجے میں مال کے بیچوں بیچ قائد اعظم کا مجسمہ مسکرا رہا تھا ، اور سائیڈز پر ہر صوبے کی نمائندگی والے مقامات نظر آرہے تھے ، لگن اور جذبہ ایک ایک چیز سے نظر آرہا تھا ، سوائے چند باتوں اور لوگوں کے۔۔۔ کہا نا کہ سادگی کی اپیل کائناتی ہو تی ہے، بناوٹ مجھے  کو فت میں مبتلا کرتی ہے ۔۔ کیینڈا کے لوگ خان کی تقریر کے بعد سادگی کی طرف چل نکلے ہیں مگر کون مائی کا لال نوکر شاہی کو سیدھے راستے پر لائے گا ؟ایسی مخلوق جو ہم سے مختلف لگتی ۔
شائدان باتوں کو نظر انداز کر کے عمران اور اپنے خواب کی تعبیر کا اثر یہاں کے پاکستان کے نمائندہ دفتروں میں دیکھنے کا انتظار کر نا ہو گا ۔۔۔۔ محبت کے ساتھ پاکستان کا جھنڈا ، اور نغمے مال کے اندر لوگوں کی تو جہ کا مرکز بنوانے والوں کو محض ورکر کہہ کر متعارف کروانے والوں کی عزت کون باشعور انسان کر سکتا ہے ؟
ندیم شاہ ، سحر ، ندیم علی ، روفی ، تنویر بدرڈاکٹر طلحہ ۔۔۔۔۔ میں کیا بتاؤں انہوں نے سٹیج پر پاکستانی پرانے گیت اور ملی نغمے گا کر لوگوں کے دلوں کو کیسا گرمایا ۔۔۔یہ سچی خوشی کے انمول لمحے ہمیں پاکستان میں اپنی صحیح معنوں میں نمائندگی کرتا ہمارا وزیر اعظم دے رہا ہے ۔ کاش اس کی سادگی ، ہمارے روایتیے افسروں کی پرکاری کو بھی کھا جائے ۔۔۔۔۔۔
یہ سب ہمارے لمحے ہیں ۔۔۔۔۔وزیرِ اعظم ہم سے ہے۔۔۔ کسی اپر کلاس کا ہمیں کمپلیکس میں ڈالتا کو ئی جاگیردارر
یا صنعت کار نہیں ۔۔ہماری امیدیں بہت پکی ہو چکی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ان کو توڑنے کی سزا موت سے کم کیا ہو گی ۔۔۔ہماری موت ! یا کسی کی بھی یا پھر سب کی۔۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply