مافی مشکل۔۔۔۔ محمود چوہدری

حج  انسان کے ا للہ سے تعلق اور انسان سے انسان کے تعلق کا بہترین نمونہ ہے ۔ اس میں یا تو خدا سے دعاﺅں کی صورت میں باتیں ہوتی ہیں یا پھر اپنے ساتھی حجاج سے تعلق پیدا ہوتا ہے ۔ حج اخوت اور بھائی چارہ سیکھنے کی عملی تربیت ہے حاجیوں کا زیادہ قیام منیٰ میں ہوتا ہے ۔ وہاں ایثار،ہمدردی ، مدد، اخوت و بھائی چارے کا عجیب منظر ہوتا ہے۔ ہر حاجی دوسروں کی بڑھ چڑھ کر مدد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ایک دوسرے کو کھانا پیش کرنے کےلئے دوڑتے ہیں ۔ کوئی پانی کی بوتلیں لے آتا ہے توکوئی جوس کے ڈبے اور کوئی پھل لاکر اپنے دوسرے حاجی بھائیوں میں بانٹتا ہے۔ میں نے ایک دفعہ انکار کرنے کی کوشش کی تو میرے ساتھ بیٹھے خان صاحب نے کہا ”بھائی چارے کے جذبے کے تحت دی ہوئی چیز کا انکار نہیں کرتے۔ اس طرح دوسرے مسلمان بھائی کا دل ٹوٹ جاتا ہے“میں نے خان صاحب کی نصیحت پر عمل کرنا شروع کر دیا ۔ ایک بنگالی نمک پارے لایا تھا سب نے کھائے ، ایک بزرگ حبشی حلوہ خرید کر لائے میں نے کھا لیا۔ایک پنجابی چائے بنا کر لایا ۔سب نے پی لی ۔تھوڑی دیر بعد خان صاحب نے اپنی جیب سے نسوار کا پیکٹ نکال کر میری طرف کرنے کی کوشش کی تو میں نے کہا خان صاحب یہ میں اخوت میں بھی نہیں لوں گا چاہے مجھے آپ کا دل توڑ کر” دم“ ہی کیوں نہ دینا پڑجائے۔خان صاحب ہنسنا شروع ہو گئے ۔
میدان عرفات میں سارا دن حاجی اپنے رب سے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں وہاں سے مزدلفہ جانا ہوتا ہے ۔ ہمیں لے جانے کے لئے وزارت حج کی بس لیٹ ہوگئی۔کچھ حاجی وقت گزارنے کے لئے زمین پر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک دوسرے کو مزے مزے کے قصے سنا رہے تھے میں بھی ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ لیکن وہ پشتو میں بات کر رہے تھے آخر ایک خان صاحب کو میری حالت پر رحم آیا تو انہوں نے کہا یار بھائی کو سمجھ نہیں آئے گی اردو میں بات کرو تو انہوں نے اردو میں بات کرنا شروع کر دی۔ ان کا تعلق تبلیغی جماعت سے تھا اور وہ اسی کے واقعات سنا رہے تھے ۔ ایک کہنے لگا جب میں پہلی دفعہ تبلیغ پر گیا تو امیر محترم نے کہا کہ دعائے قنوت سناﺅ۔ میں نے غلط پڑھی انہوں نے کہا دوبارہ پڑھو۔ میں نے دوبارہ غلط پڑھی تومیں نے کہا اے امیر محترم میں جب کسی کے سامنے سناتا ہوں تونروس ہو جاتا ہوں لیکن جب اکیلے پڑھوں تو ٹھیک پڑھتا ہوں۔ اس پر سارے پٹھان ہنسنا شروع ہوگئے۔پھر دوسرا پٹھان گویا ہوا کہ میں جب تبلیغ پر گیا تو وہ ایک ایسی مسجد میں گئے جہاں کی انتظامیہ تبلیغی جماعت والوں کو پسند نہیں کرتی تھی کچھ لوگ آگئے اور ہمیں کہا کہ مسجد سے باہر نکلو۔پٹھان بولا میرا دماغ کا میٹر گھوم گیا میں نے غصہ میں اسے کہا کہ جا نہیں نکلتا۔ اتنی سے بات تھی کہ امیر محترم آگئے اور مجھے کہا ”نہیں خان غصہ نہیں۔ لڑائی نہیں“۔ کہتا ہے میں خاموش ہوگیا۔ تو دوسرے فریق کو موقع مل گیا اور انہوں نے کہا کہ تمہیں نکلنا ہو گا۔ اس نے آستین چڑھا لی میں بھی غصے میں آگیا میں نے بھی آستین چڑھا لی امیر صاحب پھر آئے اور کہا ”نہیں خان غصہ نہیں“۔ اس کے بعد اس شخص نے مجھے گالی دی میں آواز اٹھانے ہی لگا کہ امیر نے کہا ”نہیں خان غصہ نہیں “اس کے بعد اس شخص نے مجھے بازو سے پکڑکر باہر نکالنے کی کوشش کی میں اس کا ہاتھ پکڑنے والا ہی تھا کہ امیر صاحب کہنے لگے ”نہیں خان غصہ نہیں“۔ میں نے اس شخص کو توکچھ نہ کہا لیکن امیر صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”جناب آپ مجھے تبلیغ پر لائے ہیں یا کھوتی بنانے لائے ہیں“ اسکے بعد سب نے ایک زوردار قہقہہ لگایااور میری طرف اشار ہ کیا کہ اب آپ بھی کوئی واقعہ سنائیں میں نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہاکہ میں کبھی تبلیغی جماعت کے ساتھ نہیں گیا لیکن میرے بہت سے دوست ایسے ہیں جو تبلیغی جماعت کے ساتھ جاتے رہتے ہیں انہوں نے مجھے ایک واقعہ سنایا تھا ایک خان صاحب کے بارے میں جو آپ کے واقعہ سے ملتا جلتا ہے وہ تینوں بیک وقت بولے سناﺅ یار۔میں نے کہا واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک مسجد انتظامیہ نے تبلیغی جماعت والوں کو اپنی مسجد سے نکلنے کا کہا تو وہ نہیں نکلے۔ شام کو اس جماعت میں شامل ایک خان صاحب چائے تیار کر رہے تھے کہ مسجد انتظامیہ کچھ دیگر افراد کو لیکر آگئی اور جھگڑا شروع کر دیا۔ خان صاحب ان کی ساری بحث سے دور چائے بنانے میں مشغول تھے انتظامیہ کے ایک فرد نے ان کی چائے کی کیتلی اٹھائی اور اٹھا کر پھینک دی خان صاحب کو غصہ آگیا اور انہوں نے اس شخص کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا اس جماعت کا بھی امیر آیا اور خان صاحب کو روکنا شروع کر دیا۔ خان صاحب کہنے لگے امیر صاحب اب آپ پیچھے ہٹ جائیں اس نے میری چائے گرادی ہے اب جہاد فرض ہو گیا ہے۔سب ہنسنا شروع ہوگئے پھر ان سے دوستی گہری ہوگئی ۔
حاجیوں‌نے ملکر ایک ٹیکسی کرالی اب ٹیکسی تو کرالی لیکن عربی کسی کو نہیں آتی تھی۔ ٹیکسی والے کو بتانا تھا کہ سیدھے جاﺅ ۔ایک خان صاحب بہت لائق تھے۔ ڈرائیور کو ہاتھ کا اشارہ کر کے کہنے لگے ۔ ”یا اخی صراط مستقیم “۔۔اسی طرح کا ایک واقعہ مدینہ منورہ میں بھی پیش آیا ۔ ایک شخص کو پانی لینے بھیجا اس نے دوکاندار سے اشارے سے پوچھا پانی ملے گا کیا ؟ عربی دوکاندار نے جواب دیا ”مافی مشکلہ “ وہ منہ لٹکا کے واپس آگیا کہنے لگا دوکاندار کہتا ہے کہ بہت مشکل ہے حالانکہ عربی میں میں مافی مشکلہ کا مطلب ہوتا ہے نوپرابلم کوئی مشکل نہیں ہے ۔۔۔
ایک د ن نماز مغرب کے لئے میں‌ حرم میں گیا تو مسجد کی نچلی منزلیں بھیڑ کی وجہ سے بندتھی ۔ مسجد کے چھت پر جگہ ملی ۔ چھت سے بھی کعبہ کا نظارہ بہت حسین ہے ۔ نماز سے پہلے کچھ لوگ کھجوریں بانٹ رہے تھے ۔ کچھ جوڑے کعبہ شریف کی عمارت کے ساتھ تصاویر بنا رہے تھے ۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کعبہ کے ساتھ سیلفیاں اور تصاویر نہیں بنوانی چاہیے لیکن میں نے لوگوں کے چہرے پر اتنی گہری خوشی دیکھی ہے کہ میرا خیال ہے کہ ان تصاویر پر پابندی نہیں لگنی چاہیے کیونکہ انسان کی زندگی میں ایسے قیمتی لمحات بڑی قسمت سے آتے ہیں اور سب کو یہ موقع ملنا چاہیے کہ وہ ان لمحات کو کیمرہ کی آنکھ میں محفوظ کرلیں ۔نماز مغرب ختم ہوئی تو ایک بزرگ عالم نے سپیکر پر خطاب شروع کیا۔ مسجدا لحرام میں نمازوں کے وقفے کے دوارن علمائے کرام مختلف زبانوں میں وعظ وتبلیغ کرتے ہیں ۔ لوگ گروپس کی صورت میں اپنے اپنے پسندیدہ یا اپنی زبان کے لحاظ سے گفتگو کرنے والے علماءکے قریب بیٹھ جاتے ہیں۔ انہوں نے اردو میں خطاب شروع کیا تو میں بھی لوگوں کے گروہ میں جا کر بیٹھ گیا ۔ مولانا صاحب نے گفتگو شروع کی تو ان کی لڑکھڑاتی ہوئی آواز ان کی ادھیڑ عمری کی چغلی کھا رہی تھی ۔ ان کی تقریرکا اندازہ نہایت سادہ اور دلچسپ تھا۔ تقریر ختم ہوئی تو انہوں نے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا ۔ لوگوں نے انہیں سوال پرچیو ں پر لکھ کر دئیے ہوئے تھے ۔ وہ ہر سوال کے جواب میں مزاح کا ایسا پہلو نکالتے کہ سننے والے محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ پاتے ۔
ایک شخص نے سوال بھیجاتھا ۔ مولانا صاحب میں نے رمی کے دوران چھوٹے شیطان اور درمیانے شیطان کو تو کنکر یاں ماری تھیں لیکن بڑے شیطان کو کنکریاں نہیں ماریں ؟ مولانا صاحب نے سوال کا کاغذ ایک طرف رکھا اور کہنے لگے کیوں بیٹا بڑے شیطان سے کوئی تعلق داری نکل آئی تھی؟۔۔۔ ایک خاتون نے سوال بھیجا کہ میں حج کے بعد سر کے بال کٹوانا بھول گئی؟ مولاناصاحب فرمانے لگے یہ پہلی عورت ہے جو اپنے بال کٹوانا بھول گئی ورنہ عورتیں تو بڑے شوق سے بال کٹوانے جاتی ہیں۔۔ ایک شخص نے سوال بھیجا۔ مولانا صاحب عرفات اور منی کے حدود کے بارے میں مجھے شک ہے؟ مولانا صاحب فرمانے لگے کہ ویسے تو حکومت نے بڑے بڑے بورڈ لگائے ہوئے جن پر ان کی حدود واضح ہیں لیکن اگر آپ کو شک ہے تو حج سے فارغ ہونے کے بعد پاکستان سے کوئی پٹواری ساتھ لے آنا اور اپنی تسلی کر لینا ۔۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ مجھے شک ہے کہ میں نے صفا مروہ میں سات کی بجائے پانچ چکر لگائے ہیں؟مولانا صاحب نے فرمایا دوبارہ شروع سے چکر لگاﺅ۔۔کہنے لگے تاکہ تمہیں رگڑا لگے جب تمہیں رگڑا لگے گا تو چکر بھی پورے ہوجائیں گے اور شک بھی نکل جائے گا اس طرح مولانا صاحب ہر سوال کے جواب میں مزاح کی ایسی آمیزش کرتے کہ محفل گلزار ہوجاتی لیکن انہوں نے ایک سوال کا جواب ایسا دیا کہ میں ان کا فین ہو گیا میرا غالب گمان ہے کہ ایسا جواب کوئی عام مولوی نہیں دیتا۔ کسی شخص نے سوال بھیجا کہ میں اپنے گناہوں کی وجہ سے ہر وقت پریشان رہتا ہوں۔؟ مولاناصاحب فرمانے لگے کہ تم نے عرفات والے دن معافی مانگ تو لی ہے اورہمارے اللہ نے وعدہ کیاہوا کہ وہ اس دن معافی مانگنے والے کے سب گناہ معاف کر دے گا تو پھر پریشانی کی کیا وجہ ہے۔کیا تمہیں اللہ کے وعدے پر یقین نہیں ہے ۔۔۔۔۔بعد میں پتہ چلا کہ مولاناکا نام محمد الحجازی المکی ہے روایتی مولویوں کے بارے عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ ہر وقت ڈر ہی سناتے رہتے ہیں۔ ایسے میں اگر مولانا مکی حجازی جیسے لوگوں کا خطاب سننے کو مل جائے تو واقعی مہینوں یاد رہتا ہے

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply