نہ نو من تیل ہوگا ،نہ رادھا ناچے گی

یہی ٹھہری جو شرطِ وصل ِ لیلیٰ
تو استعفیٰ مرا باحسرت و یاس !

اُترپردیش کی حکومت کو ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ وہ گوشت کی دُکانوں کے لائسنس جاری کرے اور مذبح بنائے۔ جہاں جانور ذبح ہوسکیں ۔ حکومت کے سامنے ایک راستہ تو یہ تھا کہ وہ کان دباکر بیٹھ جاتی۔ لیکن اس کے بعد پھر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں فریادی جاکر فریاد کرتے۔ ہندو حکومت نے وہ طریقہ اختیار کیا کہ رادھا کو نچانا ہے تو نومن تیل لاؤ۔ دُکان کھولنا ہے تو کم از کم دس لاکھ روپے کا انتظام کیا جائے اور گوشت کی دُکان کے بجائے تاج محل بنایا جائے۔ اخباروں میں وہ 32 پابندیاں آگئی ہیں اور آپ نے پڑھ لی ہوں گی انہیں لکھتے ہوئے شرم آرہی ہے کہ جس نے یہ پابندیاں لگائی ہیں وہ دماغی اعتبار سے کیا اس قابل ہے کہ اسے سرکار نوکر رکھے۔ اچھا تو یہ ہے کہ پہلے کسی دماغ کے اسپتال میں رکھ کر اس کا علاج کرایا جائے۔ سور کے گوشت کے علاوہ ہر قسم کے گوشت کا کاروبار مسلمان کرتے ہیں اور 19 مارچ 2017 ء سے پہلے تک سیکڑوں برس سے وہی کرتے آئے ہیں ۔ اسی میں وہ سو سال بھی ہیں جب ان انگریزوں کی حکومت رہی جن سے ہندوؤں نے کوٹ پتلون پہننا اور چھری کانٹے سے کھانا سیکھا اور غلام بن کر اتنی انگریزی پڑھی کہ اب نریندر مودی بھی گردن کو جھٹکے دے دے کر بولنے لگے۔

اس وقت پورے ہندوستان میں جتنے بھی گوشت کی مارکیٹیں ہیں وہ انگریزوں کی بنائی ہوئی ہیں۔ انہوں نے اس کا خیال رکھا ہے کہ کھانے کی تمام چیزیں آس پاس مل جائیں اسی لئے جہاں سبزی منڈی ہے، مسالوں کی اور گھی تیل کی دُکانیں ہیں وہیں چھوٹے اور بڑے گوشت کی مارکیٹ بنائی ہے تاکہ خریدنے والا مالک خود ہو یا کوئی ملازم اس کا وقت خراب نہ ہو۔ ہندو حکومت کی شرط یہ ہے کہ جہاں کھانے پینے کا سامان بکتا ہو وہاں سے گوشت کی دُکان اتنی دور ہو کہ اس کے چھواچھوت کے دھرم پر اثر نہ پڑے وہ بھنڈی اور گھوئیاں خریدنے جائے تو اس کی نظر سرخ رنگ کے تازہ تازہ گوشت پر نہ پڑے۔ وہ مذہبی مقام یعنی مندر سے 50 میٹر اور اس کے صدر دروازہ سے 100 میٹر دور ہو۔ اور یہ اس بھارت کا ذکر ہے جہاں 70 سال میں ہر فٹ پاتھ، ہر سڑک کے کنارے، ہر چھوٹے بڑے پارک، ہر پولیس اسٹیشن اور ہر سرکاری دفتر کے اندر اور باہر کچھ ہے یا نہیں ہے مندر ضرور ہے۔ اور اگر جگہ قسمت سے کسی کو اتنی مل گئی تو وہ ایک بڑے ہال کی برابر جگہ ہو گوشت کا کاروبار کرنے والے کی پوشاک کیسی ہو اس کے ناخن کتنے بڑے ہوں وہ دُکان میں کیسے بیٹھے کیسے کھڑا ہو اور اسے بھوک لگے تو کھانے کے لئے کسی بھوج نالیہ میں جائے، نیند آئے تو پانچ ستارہ ہوٹل میں جاکر آرام کرے۔ دُکان کا رقبہ کتنا ہو، اونچائی کتنی ہو، دروازے خودکار ہوں کالے شیشے لگے ہوں دُکان کے اندر واش بیسن ہوں جن میں گوشت دُھلے۔ جس کسی نے یہ قانون بنائے ہیں شاید اس نے زندگی میں کبھی گوشت نہیں خریدا۔ اس لئے کہ گوشت بیچنے والا گوشت کو دھوتا نہیں ہے اور ہاتھ کپڑے سے صاف کرتا ہے یہی اس کی شان ہے۔

ہمارا مشورہ ہے کہ اس میں چند نقاط اور بڑھا دیے جائیں کہ خوبصورت لڑکیاں نوکر رکھی جائیں جو خریداروں سے ہر زبان میں بات کرسکیں اور پکانے کی ترکیب بھی بتائیں اور حساب کتاب سب ان کے ہاتھ میں ہو) اور دُکان پر بورڈ لگا ہو جس پر لکھا ہو کہ کاہے کا گوشت ہے۔ جب بکرے کے علاوہ کسی جانور کے گوشت کی اجازت ہی نہیں ہے اور بھینس کو گئو رکشکوں نے خالہ اور اونٹ کو تاؤ بنا لیا ہے تو کس جانور کا گوشت دُکان پر بکے گا؟ حکومت نے جتنی پابندیاں لگائی ہیں اگر وہ پوری کرکے کوئی دُکان کھولے گا تو وہ ایک ہزار روپے کلو سے کم کوئی گوشت نہیں بیچ سکتا جسے صرف شوقین ہندو خرید سکتے ہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ علماء کرام سنجیدگی سے فیصلہ کریں کہ کیا اب بھی کم از کم اُترپردیش دارالحرب نہیں ہے؟ نیپال میں جب ہندو راجاؤں کی حکومت تھی تو وہاں جانور کاٹنا منع تھا۔ مقبول لاری صاحب کے پاس پورے نیپال کے جانوروں کی کھال کا ٹھیکہ تھا۔ ہم نے معلوم کیا تھا کہ جب ذبح نہیں ہوتے تو کھال کہاں سے آتی ہے؟ انہوں نے کہا تھا کہ مرتے بہت ہیں ۔ ان کی کھال ہمارے پاس آجاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب ہندوستان کا ایک صوبہ تو نیپال ہوگیا ہے عیدالاضحیٰ سے پہلے علماء کرام کو کوئی فیصلہ کردینا چاہیے۔ ندوہ تو ایسے معاملات سے دور دور رہتا ہے دیوبند کو جلد سے جلد دہلی میں ہر مسلک کے علماء کو بلاکر فیصلہ کرنا چاہیے کہ جس پر بھی قربانی فرض ہے وہ بکرے کی نہیں کرسکتا اور بڑے جانور کی قربانی سے خون خرابے کا خطرہ ہے تو۔۔۔جب فریج میں گائے کا گوشت ہندو باہر سے سونگھ لیتا ہے اور سامان کے تھیلے کو گائے کا گوشت کا تھیلا اور بھینس کے گوشت کو گائے کا گوشت بتاکر مارنے مرنے پر ہر جگہ اور ہر وقت آمادہ رہتا ہے تو بقرعید میں تو قربانی کے گوشت کی تقسیم ہر گھر سے ہوتی ہے اور بچے بچیاں لے جاتی ہیں ان کی جان کون خطرہ میں ڈالے گا؟ جس کے عزیز یورپ یا سعودی عرب میں ہیں وہ اپنی قربانی ہندوستان میں اپنے عزیزوں سے کراتا ہے۔ ہم خود لندن اور سعودی عرب میں رہنے والے عزیزوں کی طرف سے قربانی لکھنؤ یا سنبھل میں کراتے ہیں ۔ اب ہمیں اپنی اور اپنے ساتھ رہنے والے بچوں کی طرف سے قربانی کی فکر ہے کہ کیسے کریں گے؟ علماء کرام ہی فیصلہ کرکے اعلان کردیں کہ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے ؟ حکومت الگ ہے عدالت الگ ہے 70 برس سے اقتدار کی بھوک میں تڑپنے والی پارٹیاں ، سینائیں اقتدار کے نشہ میں چور ہیں اور حکومت کی ہمت نہیں ہے کہ ان کو لگام دے کیونکہ حکومت ان کی ہی وجہ سے ملی ہے۔ اور عدالت پولیس کی محتاج ہے اور پولیس باوردی ہندو سینا ہے۔ اس لئے بہت سنجیدگی سے فیصلہ کرکے مشترکہ اعلانیہ جاری ہونا چاہیے اور سب کو اس کی پابندی کرنا چاہے۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply