گروپ کری ایٹنگ ان وٹس ایپ اینڈ فیسبکاں

موبائل فون جب سے اس دنیاء بے دین و ایماں میں جلوہ افروز ہوا ہے،اس نے شریفوں سمیت بدمعاشوں کی بھی نیندیں حرام کرکے رکھ دی ہیں۔اگر آپ غلطی سے فون میں فیس بک میسنجر یا وٹس ایپ ڈاؤن لوڈ کر بیٹھے ہیں تو یقین جانیے اب آپ کسی جوگے نہیں رہیں گے۔آپ کی ہڈی تو بے چین رہے گی ہی لیکن کچھ آپ سے بھی زیادہ بے چین ہڈیوں والے ایسے ہوں گے جو آپ کو بنا کوئی تعارف،سلام دعا منہ اٹھا کر کسی بھی گروپ میں ایڈ لیں گے۔۔اور آپ پَر بھی نہ مار سکیں گے۔گروپ میں ایڈے جانے کی خبر پڑھ کر آپ پر عجب بے بسی حملہ آور ہوگی،فوراً سے بیشتر متعلقہ شخص کو چار صلواتیں سنانے کا سوچیں گے ہی کہ ساتھ ہی خیال آئے گا چلو جو ہونا تھا ہو چکا،کیوں نہ ایک نظر گروپ میں من مرضی سے نظر بند ہوئے قیدیوں کی کرتوتوں پر ڈال لی جائے۔گروپ میں داخل ہوتے ہیں ہڑبونگ مچانے کا لفظی مطلب پورے شد و مد کے ساتھ سمجھ شریف میں آ جاتا ہے۔۔اور آپ تجربہ نہ ہونے کی بنا پر چند حسیناؤں یا ہینڈسمنات کے منہ لگنے کے بعد الٹے قدموں باہر نکل آتے ہیں۔

ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ آپ دوسروں کی فضولیات دیکھ دیکھ کر خود بھی ان لغویات میں مبتلہ ہوجاتے ہیں۔۔اور ایک ایسا گروپ بنانے کا سوچتے ہیں کہ جس میں ایڈ ہوتے ساتھ ہی لوگوں کی زندگیاں بدل جائیں گی۔۔اب غور و فکر شروع ہوتا ہے،خیال آتاہے کہ کیوں نہ شاعری کا گروپ بنایاجائے۔۔لیکن بھیانک قسم کے دل جلے،سیلف اینڈ ہوم میڈ شاعروں کی شاعری دماغ میں زبردستی گھس کر ہتھوڑے مارنے لگتی ہے اور آپ اپنے ہی خیال پر لا حول پڑھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پھر دماغ کی جلتی بتی میں ادبی گروپ بنانے کا خیال شبِ دیجور میں زلفِ یاراں کی مانند لہراتا ہے۔۔بلکہ کوڑے برساتا ہے کہ ادبی گروپس میں بے ادبوں کی لمبی قطار کو کون سنبھالے گا۔۔ کہ جو تحریر نہیں بلکہ تصویر دیکھ کر تعریف کے ڈونگرے برسانے پر یقین رکھتے ہیں اور کیا خوب،واہ،کیا کہنے۔۔ جیسے الفاظ ہر پل جن کی نوکِ زباں پر مچلتے دکھائی ہوتے ہیں۔

خواتین کا گروپ بنانے کا تصور بھی محال ہے کہ کمنٹس میں بھی ساس نندوں کے لتے لیے جا رہے ہوتے ہیں۔اسلامی گروپ بنانے کا خیال مزید جان لیوا ہوتا ہے کہ کئی بار ایسے گروپ میں ہمیں زبردستی ایڈا جا چکا تھا۔۔جہاں اوپر اسلامی پوسٹ اور نیچے کمنٹ میں ظالم عبرت کے نمونے دکھانے کے لیے سنی لیون کی تصویریں کالی کرکے سینڈ کردیتے ہیں۔ایسے میں آپ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے کہ بطور ایڈمن نشانہ آپ کا ہی تاکا جاتا ہے۔حالانکہ آپ صرف ایڈمن ہونے کے گناہ گار ہوتے ہیں۔ان بھیانک خیالات سے بچ بچا کر گروپ نہ بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے آپ شانت ہو جاتے ہیں۔اور سوچتے ہیں” عام آدمی کی ایک دن کی زندگی ایڈمن کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors

ابھی دل کو ذرا اطمینان ہوا ہی ہوتا ہے کہ پھر سے ایک للک اٹھتی ہے اور ہاتھ بے تابانہ موبائل تلاش کرنے لگتے ہیں۔۔۔۔۔(مقصد تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے)۔۔لیکن کیوں کہ آپ کو معلوم نہیں ہوتا کہ وٹس ایپ گروپ فیس بک گروپ سے بھی آگے کا کوئی عذاب ہے۔ سو آپ اس آگ میں بے خطر کودنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ گروپ بناکر ایک پوسٹ کرنے کی دیر ہوتی ہے کہ خوشامدی ٹولہ شہد کی مکھیوں کی مانند تبصرے کرنے ٹوٹ پڑتا ہے۔آپ ایک پھر بار دام میں آجاتے ہیں،اور صابن دانی جتنی سمجھ دانی مزید سکڑنے کے باعث جواب دینے سے قاسر رہتے ہوئے بس مسکرانے پر ہی اکتفاء کرتے ہیں۔پھر ہوتا یہ ہے کہ آدھی رات بجنے والی نوٹیفکیشن ٹون سر پر بم بن کر پھٹتی ہے اور ایک آپ دوبارہ یہ سوچتے ہوئے کہ “عام آدمی کی ایک دن کی زندگی ایڈمن کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے”۔۔بنا کسی کو مطلع کیے گروپ ڈیلیٹ کرکے چین کی نیند سو جاتے ہیں۔

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply