عثمان بزدار وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے۔۔۔۔عامر ہاشم خاکوانی

عثمان بزدار وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے۔ انہیں کسی بزرگ یا اپنی والدہ کی دعا لگی یا کوئی نیکی کام آئی کہ اتنا بڑا منصب انہیں ملا، جس کا کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ مروجہ سیاسی پیمانوں کے ساتھ وہ شائد صوبائی وزیر بھی نہ بن سکتے، عمران خان نے پنجاب جیسے صوبے کا وزیراعلیٰ بنا دیا جو وزیراعظم سے کچھ ہی کم اہمیت کا حامل عہدہ ہے۔
عثمان بزدار کے تقرر پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمارے سرائیکی وسیب کے بعض احباب اسے سنٹرل پنجاب کی جانب سے جنوبی پنجاب کے وزیراعلیٰ کے خلاف تعصب قرار دے رہے ہیں۔ ایسا کہنا غلط ہے۔ اس میں تعصب کا عنصر شامل نہیں، اسے خواہ مخواہ کی غلط اینگلنگ نہ دی جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ سرائیکی وسیب میں زیادہ بہتر اور اہل لوگ موجود تھے، جنہیں یہ ذمہ داری دی جاسکتی تھی، اس کے امکانات ہیں کہ تب تنقید اس طرح نہ ہوتی۔ حسنین دریشک کو اگر وزیراعلیٰ بنایا جاتا تو تنقید کا مارجن کم رہ جاتا۔ محمد خان لغاری جنہوں نے ڈی جی خان سے شہباز شریف کو ہرایا، وہ ایک نیٹ کلین نوجوان ہیں، انہیں یہ اعزاز دیا جا سکتا تھا۔ سبطین خان پر بھی تنقید نسبتاً کم ہوتی۔ سرائیکی وسیب سے ماضی میں فاروق لغاری کو صدر مملکت ، یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنایا گیا تو کسی نے ان پر تنقید نہیں کی۔ اب اگر شاہ محمود قریشی صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیت جاتے تو انہیں وزیراعلیٰ بنایا جا سکتا تھا، ان پر بھی نااہل یا ڈمی وزیراعلیٰ ہونے کی پھبتی تو نہ کسی جاتی۔ اس تنقید کو سرائیکی پنجابی ایشو نہ بنایا جائے، تنقید کرنے والے تعصب کی بنا پر ایسا نہیں کر رہے ۔
صاف بات تو یہ ہے کہ عمران خان کا انتخاب بظاہر زیادہ پرکشش اور متاثر کن نہیں لگ رہا۔ جس طرح خان صاحب نے وقت لیا اور سوچ بچار کی، اس سے لگتا تھا کہ وہ کوئی غیرمعمولی اعلان کریں گے۔ اپنی دانست میں انہوں نے ایسا کیا ہوگا، مگر وہ متاثر نہیں کر پائے۔ انہوں نے اپنے انتخاب کو سپورٹ کیا، اس کے ساتھ کھڑے ہوئے ، جس کے نتیجے میں بزدار صاحب وزیراعلیٰ بن گئے۔
اصل کام اب آگے ہے، عثمان بزدار دیسی سے ، سادہ آدمی لگے ہیں، ان کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ ملنسار، سادہ اور عوامی آدمی ہیں، جسے زمین پر بیٹھ جانے میں کوئی حرج محسوس نہین ہوتا۔ اب عثمان بزدار کو اپنا انتخاب درست ثابت کرنا ہے۔ وہ سادگی، دیانت داری سے کام کریں، اللوں تللوں سے گریز اور رسمی پروٹوکول، پرتعیش انداز سے دور رہیں۔ عمران خان مرکز میں سادگی کی مثال قائم کرنا چاہ رہے ہیں، لاہور میں اس کی پیروی ہونی چاہیے۔ انہیں ایڈوانٹیج ہے کہ مضبوط اور تجربہ کار افراد پر مشتمل صوبائی کابینہ بنائی جا رہی ہے، عثمان بزدار کو چاہیے کہ وہ وزیروں کے کام میں دخل دینے کے بجائے اپنی ذاتی طرزعمل سے اچھی مثالیں قائم کریں اور عوام ، پارٹی کارکنوں سے رابطہ رکھیں۔ تحریک انصاف کی اگلی انتخابی کارکردگی کا دارمدار پنجاب میں گڈ گورننس پر ہے۔ عثمان بزدار اپنے دیسی انداز سے بہت کچھ کر سکتے ہیں، دیانت، سادگی اور خلوص نیت ایسے ہتھیار ہیں، جنہیں اگر برتا جائے تو ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ تاریخ نے ایک بہت بڑا موقعہ ایک متوسط درجے کے سیاستدان کو دیا ہے، وہ چاہے تو پرفارم کر کے اس توقع پر پورا اتر سکتا ہے۔ ہماری نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply