مغربی بنگال کی تشویشناک صورتِ حال /عبدالعزیز

2014ء میں سنگھ پریوار کی لوک سبھا میں غیر معمولی کامیابی سے پریوار والوں کے حوصلے بلند ہوگئے۔ ہر ریاست میں غلبہ کے لئے ہر طرح کا ہتھکنڈہ اپنانے لگے۔ دہلی اور بہار میں کامیابی نہیں ملی تو حوصلے کچھ پست ضرور ہوئے مگر اتر پردیش میں زبردست کامیابی سے ان کے حوصلے پھر بڑھ گئے۔ ’کانگریس مکت بھارت‘ کے فلسفے کو کامیاب کرنے کے لئے ہر جتن کرنے لگے۔ گئو دہشت گردی کے فلسفے کو ہر جگہ نافذ العمل بنانے لگے۔ لالو پرساد یادو پہلے سے ہی بھاجپا کے نشانے پر تھے لیکن جب سے لالو نے اپوزیشن کو متحد کرنے اور اتر پردیش میں سماج وادی اور بی ایس پی کے اتحاد کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دی تو بھاجپا کے سب سے بڑے دشمن بن گئے۔ محترمہ ممتا بنرجی وزیر اعلیٰ مغربی بنگال کو بہت دنوں سے بھاجپا اپنے فولڈ (Fold) میں لانے کی کوشش کرتی رہی۔ ممتا بنرجی کا رویہ بھی کچھ دنوں تک نرم رہا۔ راجیہ سبھا میں ترنمول کانگریس کے ایم پی مودی سرکار کے کام آتے رہے۔ لوک سبھا میں بھی چپ سادھے رہے لیکن نوٹ بندی کے بعد ممتا بنرجی کا رویہ بالکل بدل گیا۔ اس وقت سے لالو پرساد کے بعد ممتا بنرجی اور ان کی پارٹی بھاجپا یا گئو دہشت گردوں کے نشانے پر آگئی ہے۔

بہار میں نتیش کمار کو بھاجپا اپنا بنانے میں حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔ نتیش کمار بھی کسی وجہ سے بھاجپا کے ہمدرد بننے میں اپنی عافیت محسوس کر رہے ہیں، اس لئے مودی سرکار اپنے گئو دہشت گردوں کو بہار میں دہشت گردی یا فرقہ پرستی کے شعلے بھڑکانے کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔ صرف سی بی آئی کا استعمال کرکے لالو پرساد کی ناک میں دم کر رکھا ہے تاکہ وہ بھی خاموش ہوجائیں اور مودی سرکار کو برا بھلا نہ کہیں اور نہ ہی اپوزیشن کو متحد کرنے کی کوشش کریں۔ مغربی بنگال میں گئو دہشت گردوں کو اس وقت سے چھوٹ دے دی گئی ہے جب سے ممتا بنرجی سے بھاجپا یا نریندر مودی کو مایوسی ہوگئی کہ اب وہ ان کی بات نہیں سنیں گی اور نہ ہی ان کی مدد کریں گی۔ پہلے بھاجپا نے کئی چھوٹے چھوٹے فسادات مغربی بنگال میں کرائے جن میں مسلمانوں کا زبردست نقصان ہوا۔ تیلنی پاڑہ اور بارکپور کے کئی علاقے نئی ہٹی اور مارواڑی کل جو کلکتہ سے بذریعہ کار قریب دو ڈھائی گھنٹے کا راستہ ہے، اس وقت فساد ایک طرفہ ہوا تھا اور صرف مسلمانوں کا نقصان ہوا تھا، اس لئے بھاجپا نے کوئی بڑا ہنگامہ برپا نہیں کیا اورنہ کلکتہ سے دہلی تک آسمان کو سر پر اٹھایا۔ بھاجپا خاموش رہی۔ مغربی بنگال کی حکومت کو اقلیت کی تنظیموں کی طرف سے محترمہ ممتا بنرجی کو چتاؤنی دی گئی مگر نہ ممتا بنرجی کو فکر ہوئی اور نہ ہی ان کی پارٹی خواب غفلت سے بیدار ہوئی۔

تیلنی پاڑہ اور نئی ہٹی کے فسادات کی طرح تقریباً دس بارہ جگہوں میں فسادات کرانے میں بی جے پی کامیاب ہوئی تھی۔ ترنمول کانگریس کے کچھ ایم ایل اے اور کونسلروں نے بھی بھاجپا کی کوششوں میں ہاتھ بٹایا تھا۔ اقلیتی لیڈروں کی طرف سے ان کی نشان دہی بھی کرا دی گئی تھی مگر حکومت کے سر پر جوں تک نہیں رینگی۔ اس وقت جب دارجلنگ کی پہاڑیوں میں آگ کے شعلے بھڑکنے لگے اور بادوریا اور بشیر ہاٹ میں فرقہ پرستی کی ایسی آگ لگی کہ کئی دنوں تک اسے سرد کرنے میں حکومت کامیاب نہیں ہوئی تو حکومت کے بھی ہوش ٹھکانے آگئے اور ممتا بنرجی کو بھی فکر ستانے لگی۔ بھاجپا اگر چہ مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے میں اپنے منصوبے کے تحت کامیاب نہیں ہوئی۔ پھر بھی اب آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بادوریا جہاں یہ چنگاری ایک بارہویں کلاس کے سترہ سالہ لڑکے نے لگانے کی کوشش کی وہاں مسلمانوں کی آبادی 75فیصد ہے۔ بادوریا ایک بدھان سبھا ہے۔ میونسپلٹی ہے جو کلکتہ سے 30/35 کیلو میٹر دوری پر واقع ہے۔ یہاں کی حکومت کا بھاجپا کے سر پر ہاتھ نہیں ہے، اس لئے بھاجپا اپنے فرقہ وارانہ خاکے میں رنگ بھرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ اگر چہ بھاجپانے اپنی کوشش میں کسی قسم کی کمی نہیں کی ۔ ’فیس بک، واٹس اَیپ‘ کا بے دریغ استعمال کیا۔

آسام میں اٹھ سال پہلے ایک آدی باسی عورت پر ظلم ہوا تھا۔ وہاں کے قبائلی علاقے کے لوگوں نے اسے ننگا کرکے دوڑایا تھا، اس واقعہ کی تصویر کو بھاجپا نے ’فیس بک‘ میں Load کر دیا تھا۔ 2002ء کے گجرات فسادات کی کئی تصویروں کو فیس بک کے ذریعہ پھیلایا گیا۔ بھوجپوری فلم کے ایک ظالمانہ منظر کو واٹس ایپ اور فیس بک کے ذریعہ عام کرکے فساد کو بڑھانے کی سعی و جہد کی گئی۔ بھاجپا کی فیس بک کو جسے محترمہ ممتا بنرجی نے فیک بک (Fake Book) کہا ہے، اس کے ذریعہ بہت سے غلط بیانوں ، جھوٹ، لغو باتوں اور واقعات کا بھاجپا نے سہارا لیا۔ بادوریا کے لوگوں سے فون سے بات چیت کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ پولیس بھی شروع میں لاپرواہ اور بے دم (Careless and in active) رہی۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جو لوگ فساد کو بھڑکانے اور آگ لگانے میں حصہ لے رہے تھے وہ زیادہ تر حکمراں جماعت سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ بی جے پی کے ہمدردوں میں شامل تھے۔ پولیس ان پر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتی تھی۔ اگر پولیس بر وقت Active (سرگرم) ہوجاتی تو شاید حالات جلد قابو میں آجاتے۔

جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو ان کا بھی کردار کوئی اچھا نہیں تھا۔ بارہویں کلاس کے ایک طالب علم کی بیوقوفی اور نادانی کو سمجھ نہیں سکے۔ اگر اس نے کعبہ یا کسی بھی اسلامی شعار کی توہین فیس بک کے ذریعہ کی تھی تو اسے پولیس کے حوالے کرنے کی کوشش کرنی تھی اور لڑکے کے پیچھے کن لوگوں کا ہاتھ ہے اسے پتہ لگانے کی حتی المقدور سعی و جہد کرنی چاہیے تھی۔ پولیس نے اسے گرفتار جب کرلیا تو پھر مسلمانوں کو کسی قسم کا احتجاج یا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ ایسے لوگ جو سیاسی پارٹیوں میں رہتے ہیں وہ مرکز نگاہ بننے کے لئے آگے آتے ہیں اور انھیں نادان مسلمانوں کی حمایت مل جاتی ہے جس سے وہ مظاہرے کرتے ہیں ۔ اس میں غنڈے اور بدمعاش شامل ہوجاتے ہیں وہ کسی نہ کسی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ، جس کی وجہ سے بھاجپا جیسی فرقہ پرست پارٹی کو موقع مل جاتا ہے اور وہ آسانی سے آسمان سر پر اٹھالیتی ہے اور وہ ساری حرکتیں کرنے کی کوشش کرتی ہے جس سے فساد برپا ہوجائے اور حکومت کو Destablize کرنے میں انھیں کامیابی مل جائے۔

بھاجپا تو کئی مہینوں سے ممتا اور بنگال پر نظر جمائے ہوئے ہے کہ مغربی بنگال میں اتھل پتھل ہو تاکہ اسے مغربی بنگال میں اپنے مقصد کو بروئے کار لانے میں کامیاب ہوجائے۔اس وقت مسلم تنظیموں ، مسلم لیڈروں اور مسلم عوام کو ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہوگا۔ سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ بھاجپا پورے ملک میں مطلق العنانی کی حکومت کرنا چاہتا ہے۔ اپنے سوا کسی پارٹی کی حکومت کے حق میں نہیں ہے۔ اترا کھنڈ، اروناچل پردیش، گوا، منی پور جیسی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بھی وہ اپنے گورنروں کے ذریعہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس وقت مغربی بنگال کو اپنے قبضہ میں کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ پہلے ممتا بنرجی سے ساز باز کرکے مغربی بنگال کو اپنے کنٹرول میں کرنے کی کوشش کرتی رہی جب ممتا بنرجی کی سمجھ میں آگئی کہ بھاجپا تو انہی کے درپے ہے تو وہ بھی بھاجپا پر برسنے اور گرجنے لگیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ضرورت ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں مل جل کر مودی کی ڈکٹیٹر شپ اور سنگھ پریوار کی فرقہ پرستی کو ختم کرنے کی کوشش کریں ۔ مسلمان بھی اس وقت غیر فرقہ پرست پارٹیوں کی کھل کر حمایت کریں ۔ ضرورتاً احتجاج اور مظاہرے کریں جسے قابو میں رکھ سکیں۔ غنڈے اور بدمعاش کو اس میں کسی طرح بھی شریک نہ کریں ۔ معمولی قسم کی باتوں پر مشتعل نہ ہوں ۔ بھاجپا مسلمانوں کو مشتعل کرکے ہی فرقہ پرستی بڑھانے کا کام کر رہی ہے اور مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اگر مسلمانوں کا کوئی حصہ آج کے حالات کو نظر انداز کرکے کام کرتا ہے تو وہ مسلمانوں کا ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا بلکہ گئو دہشت گردوں کے حق میں ہوگا جو ملک و قوم کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply