• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • وزیر اعظم پاکستان کے نام سرزمین بے آئین سے پہلا خط۔۔۔ زیربحث علی انجم

وزیر اعظم پاکستان کے نام سرزمین بے آئین سے پہلا خط۔۔۔ زیربحث علی انجم

جنا ب عمران خان صاحب آپ کو پاکستان کا بائیسواں وزیر اعظم بننا مبارک ہو۔ آپ کو یہ بھی مبارک ہو کہ آپکی زندگی جہدوجہد مسلسل اور کامیابیوں کی ایک طویل داستان کا نام ہے۔آپ کو مبارک ہو کہ آپ نے مادر گرامی کے نام سے کینسر ہسپتال شروع کرکے نمل جیسے عالمی معیار کے یونیورسٹی کو کامیابیوں سے ہمکنار کرایا۔ کرکٹ کے میدان سے سیاسی دنگل میں کودنے تک کے سفر میں آپ نے جس ہمت اور حوصلے کے ساتھ پُرعزم سفر کیا اور اُس پرعزمی اور جدوجہد کے نتیجے میں اللہ نے آپ کو آج مملکت خداد پاکستان کا وزیر اعظم بنایا اور قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کے پاکستان کے خواب کی تعبیر کرنے کا موقع ملا ہے، آپ کو بہت زیادہ مبارک ہو۔
جناب وزیر اعظم صاحب میرا تعلق ریاست جموں کشمیر کی دوسری بڑی اکائی مسلہ کشمیر کے ایک اہم فریق پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان سے ہے۔کہا تو یہ جاتا ہے کہ ہم نے ڈوگروں سے آزادی حاصل کی تھی لیکن آج ایسا لگتا ہے کہ ہماری آزادی دراصل غلامی کا ایک نیا سلسلہ تھا جو  اب یکم نومبر کو اکہترویں سال میں داخل ہورہا ہے۔ گلگت بلتستان کے باشندے کی حیثیت سے خواہش تو ہماری بھی تھی کہ آپ کو ووٹ دوں لیکن فیڈریشن کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے اس خواب کی تعبیر نہیں ہوسکی۔دل تو ہمارا بھی چاہتا ہے کہ سرحدوں پر جان قربان کرنے کے ساتھ ساتھ نئے پاکستان کی تعمیر میں بھی کردار ادا کریں لیکن یہ مسلہ کشمیر بھی بڑی ظالم شے ہے جس کی وجہ سے ہمیشہ ہمارے ارمانوں کا خون ہوتا ہے۔ہم جب شہید ہوتے ہیں تو ہمیں پاکستانی کے جھنڈے میں لپیٹ کر دفنا دیا جاتا ہے۔  دل کو تسلی ملتی ہے کہ ہم نے اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک کی حفاظت پر جان کی قربانی دی۔لیکن جب ہم حقوق مانگتے ہیں اور مسئلہ کشمیر کی دیوار چین ہمارا راستہ روکتی ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ہمیں جب کوئی ماتھے کا جھومر کہیں تو دل باغ باغ ہوجاتا ہے لیکن جب ہم اپنے حقوق کیلئے بولنے کی کوشش کریں اور فورتھ شیڈول کے تحت قید ہونے لگیں تو سینہ چاک کرکے ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔ہمیں جب بام جہاں کا لقب ملتا تو ہم خوشی کے مارے رقص کرتے ہیں لیکن میڈیا پر بیٹھے بے لگام صحافیوں اور لاعلم تجزیہ نگاروں ی جانب سے غداری کے الزامات سُن کر  زہر پی کر دریا ہے سندھ میں کود جانے کو دل چاہتا ہے۔
محترم وزیر اعظم صاحب لالک جان کی سرزمین پر  لالک جان کے گھر والوں کو سکون نہیں مگر یہاں اس بے سکونی کو قانون کا نام دیا جاتا ہے  جس کا مقصد اس خطے کے عوام کو بنیادی انسانی حقوق کے مطالبے سے روکنے کی ریاستی کوشش ہے۔ا س کوشش کے نتیجے میں آج گلگت بلتستان میں ایک درجن سے زائد لوگ پابند سلاسل ہیں ۔ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔دل تو ہمارا بھی چاہتا ہے کہ اُن مظلوموں کیلئے آواز بلند کریں لیکن پہاڑوں کے درمیان چیختی  آواز کو بھی ریاست مخالف قرار دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ کہ اس وقت 150 سے زائد پرامن شہری فورتھ شیڈول کا شکار ہیں ۔ دوسری طرف جن کے لیے فورتھ شیڈول اور نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا ،اُن کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ آزا د  دیامر کے جنگلات میں کئی سالوں سے گھوم پھر رہے تھے اور  پھراچانک دیامر میں ایک درجن سے زائد اسکولوں کو آگ لگا کر غائب ہوگئے۔ یہاں ریاست اتنی مجبور تھی کہ مٹھی بھر دہشت گردوں کو پکڑنے کیلئے ریاستی مشینری ناکام نظر آئی۔  چند ہی دن بعد گلگت کے سیاحتی مقام کارگاہ پولیس چیک پوسٹ پر انہی عناصر نے حملہ کیا اورپولیس کے تین جوان شہید کر دیے۔ اس حملے میں دو دہشت گرد بھی مارے گئے۔  پانچ دہشت گرد پھر بھی ریاستی اداروں کو چکمہ دیکر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔  تیسری  بڑی کاروائی میں دہشت گرد سنیگال نالہ غذر میں پولیس چوکی کو آگ لگاکر فرار ہوگئے ۔
جناب وزیر اعظم صاحب آپ کو شائد ہی کسی نے بتایا ہو  کہ گلگت بلتستان میں افسر شاہی کے راج کو جمہوریت کہتے ہیں۔ یہاں عوامی نمائندے عوامی خدمت کرنے کے لیے نہیں بلکہ مال بنانے کی غرض سے آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت گلگت بلتستان کے تمام سرکاری اداروں میں آوے کا آوا  بھگڑا ہوا ہے پھر بھی کوئی پوچھنے والا نہیں۔ گلگت بلتستان میں نہایت ہی پسماندگی کے باوجود شرح تعلیم پاکستان کے ترقی یافتہ صوبوں سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔  اس بہتری کی وجہ مقامی حکومت نہیں بلکہ عوام کا علم دوست ہونا ہے۔یہاں مناسب تعلمی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے والدین کا اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے شہروں کی طرف ہجرت کرنا معمول کی بات ہے۔ اس وقت کراچی منی گلگت بلتستان ہے۔ یہاں بسنے والے گلگت بلتستان کے باشندوں نے اپنے آبائی گاوں کو اس لئے خیرباد نہیں کیا کہ اُنہیں اپنی زمینوں سے پیار نہیں بلکہ روزگار اور سہولیات کی  عدم دستیابی نے ہمیں مہاجر بننے پر مجبور کیا ہوا ہے۔
محترم وزیر اعظم صاحب آٓپ شائد اس بات سے بھی لاعلم ہونگے کہ گلگت بلتستان کےنوجوان جب پاکستان کے مختلف شہروں میں محنت مشقت کرکے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی دھرتی کی خدمت کا جذبہ لیکر واپس لوٹتے ہیں تو پہلی پریشانی نوکریوں کی حصول کے لیے رشوت کے پیسوں کا انتظام کرنا ہوتا ہے۔یہاں  اخبارات میں ملازمت کے اشتہارات تو لگتے ہیں لیکن نوکریاں پہلے سے ہی تقسیم ہوچُکی ہوتی ہیں۔ یہی وجہ  ہے کہ ہم روزگار کے حصول کے لیے پاکستان کے مختلف شہروں یا بیرون ممالک خاص طور خلیجی ممالک کی طرف رُخ کرتے ہیں۔ افسوس اس بات  کاہے کہ امجد شیعب اور محمد مالک جیسے  ریٹنگ کے لیے قومی وقار کی سودا بازی کرنے والے لوگوں نے ملکی معیشت خاص طور پر گلگت بلتستان جیسے پسماندہ ترین خطے کی معیشت کے لیے ریڑھ کے ہڈی کی حیثیت رکھنے والے اورسیز کو بھارت کا ایجنٹ قرار دے کر ہماری ستر سالہ محرومیوں کے زخم پر مزید نمک چھڑک دیا۔ آپ کو شائد اس بات کا بھی اندازہ نہیں ہوگا کہ گلگت بلتستان میں ویسے تو کوئی صنعتی ادارہ نہیں لیکن سرکاری ٹھیکے ایک صنعت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سرکاری فنڈز کاعوامی فلاح کے لیے کم اور سیاست دانوں کی ملی بھگت  میں استعمال  زیادہ ہے۔ گلگت بلتستان کے قدرتی وسائل  اور آبی ذخائر،سیاحتی وسعت اور ہائڈور الیکٹرک کے لیے  پوٹینشل کے بارے میں آپ آگاہ ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے منشور میں اس حوالے سے وعدہ کیا ہوا ہے۔
جناب عمران خان صاحب آج نہیں تو کل گلگت بلتستان میں پاکستان تحریک انصاف نے حکومت بنانی ہے مگر گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کی پارٹی نے ایک تماشا بنا ہوا ہے۔ یہاں اقتدار کی کرسی قریب دیکھ کر ایک منڈی لگی ہوئی ہے  جن کا مقصد دیگر جماعتوں کی طرح تخت گلگت تک پہنچنے  کی کوشش ہے۔ گلگت بلتستان میں تحریک انصاف اس وقت قیادت کے بحران کا شکار ہے ۔راجہ جلال جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صدر ہیں لیکن اُن کو صدارت کیسے ملی اس حوالے سے آپ گلگت بلتستان کے پارٹی ممبران کی ایک میٹنگ کال کرکے معلو م کر سکتے ہیں۔ راجہ جلال کے بارے میں سُننے میں آیا ہے کہ وہ گلگت بلتستان رائل فاونڈیشن ( جو ڈوگرہ دور میں ڈوگروں سے وفاداری نبھا کر عوام پر ظلم کرتے رہے ہیں) کے اہم رکن ہیں لہذا ایک جمہوری پارٹی میں شاہی سوچ والے شخص کا صدر ہونا خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ گزارش یہ ہے کہ منقسم پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے حکمت عملی بنائیں اور گروہ بندی کی شکار تحریک انصاف میں اچھی اور جمہوری سوچ رکھنے والے تعلیم یافتہ طبقے کو آگے لائیں تاکہ آپ  گلگت بلتستان کو مکمل داخلی خودمختاری کا  وعدہ پورا کر سکیں۔
جناب عمران خان صاحب آپ نے قوم سے پہلے خطاب میں پاکستان کو درپیش مسائل کا خوب تذکرہ کیا ،قوم کو ایک بہترین روڈ میپ بھی دیا۔ آپ نے پاکستان کے چاروں صوبوں کے مسائل کا بھی تذکرہ کیا۔ آپ کا خطاب سُننے کیلئے گلگت بلتستان کے عوام بھی بڑے بے چین تھے لیکن بدقسمتی سے آپ نے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کا تذکرہ کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ یوں گلگت بلتستان کے عوام میں مایوسی پھیل گئی ہے۔ سُنا ہے گلگت بلتستان کے غیر منتخب وفاقی وزیر کا عہدہ آپ نے اپنے پاس ہی رکھا ہے اور ویسے بھی آرڈر 2018 کے تحت آپ  گلگت بلتستان کے مالک ہیں لہذا یہ  واضح کیجے گا کہ آپ بطور مالک کے گلگت بلتستان پر راج کریں گے یایہاں بھی  جمہوری اقدار  دیکھنے کو نصیب ہوگا؟ مسلم لیگ نون کی جانب سے مسلط کردہ آرڈر 2018 کو یہاں کے عوام مسترد کرچُکے ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس کالے قانون کو ختم کرکے گلگت بلتستان کے حوالے سے اپنے منشور پر عمل کریں۔ قہقہے کے منشور میں گلگت بلتستان کو مکمل سلف ایمپاورمنٹ کا  نکتہ شامل ہے جس پر عمل درآمد ناگزیر ہوچُکی ہے ۔ قومی تشخص کا بحران اس خطے کا ایک سنگین مسئلہ ہے اور نئی نسل اس حوالے سے تمام تر ریاستی خوف اور ڈر کے باوجود سوال اُٹھا رہی ہے جو کہ پک کر لاوا بن سکتا ہے۔ اب کی بار  دیگر جماعتوں کی طرح عبوری،  خصوصی یا  سپیشل پیکج  اس خطے کی محرومیوں کا ازالہ نہیں کرپائے گا ۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply