آج وزیرِاعظم پاکستان عمران خان نے پہلی بار قوم سے خطاب کیا اور اپنا آئندہ کا لائحہ عمل دیا کہ وُہ کیسے مُلک کو چلائیں گے۔ تقریر کے آغاز میں اپنی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کا ذِکر کیا، احسن رشید اور سُلونی بُخاری جو اہم کارکن تھے ابتدا سے اُن کا ذکر کیا وُہ اب دُنیا میں نہیں رہے، سیاسی جدوجہد کا مقصد ایک بہترین پاکستان اور ایک فلاحی ریاست بنانا قرار دیا۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ آج ہم دُنیا میں بُہت پیچھے کھڑے ہیں، اور اٹھائیس ہزار ارب رُوپے سے بھی زیادہ ہے، دس سال پہلے چھ ہزار ارب تھا جو دو ہزار تیرہ میں پندرہ ہزار ارب ہوگیا جب پی پی پی کی حُکومت ختم ہُوئی اور نواز حُکومت کے آخر تک اٹھائیس ہزار ارب ہوگیا ہے۔ خالی سُود دینے کے لئے مزید قرضہ لینا پڑ رہا ہے، اصل قرضے کی تو بات ہی الگ ہے۔ ساٹھ ارب ڈالر سے پچانوے ارب ڈالر کا قرضہ پانچ سالوں میں بڑھ گیا، یہ پیسہ کہاں گیا اِس کا حساب سامنے لائیں گے۔
پاکستان دُنیا میں پانچویں نمبر پر وُہ مُلک ہے جہاں پیدائش کے دوران مائیں مرتی ہیں اور پانچ سال سے کم عُمر بچوں کی اموات ہوتی ہیں ، ہم اِس کو بہتر کریں گے۔ ہمارے بچوں کی گروتھ ٹھیک نہیں چُونکہ اُن کو مُناسب خوراک نہیں ملتی لہٰذا اِس پر بُہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں امیر اور رُولنگ ایلیٹ کلاس کا رہن سہن ٹھیک کرنا ہوگا، پینسٹھ کروڑ کے دورے پچھلے وزیراعظم نے کئے جو کہ پیسوں کا ضیاع ہے۔ پی ایم ہاؤس کے پانچ سو چوبیس مُلازم ہیں، اسی لگژری گاڑیاں ہیں، تینتیس بُلٹ پُروف گاڑیاں ہیں۔ میں دو گاڑیاں رکھوں گا اور باقی تمام گاڑیاں ہم نیلام کریں گے۔
سکول اور تعلیم کے نظام کے لئے بُہت کُچھ کرنا ضروری ہے۔ سوا دو کروڑ بچے سُکولز نہیں جارہے۔ سرکاری سکولز کی حالت بہتر کرنی ہے تاکہ تنخواہ دار طبقہ سرکاری سُکولز پر بھروسہ کرسکے۔
بار بار مدینہ کی فلاحی ریاست کا حوالہ دِیا اور ایک ایک نُکتے کی وضاحت کی، جیسے بدر میں قیدیوں کو کہا کہ بچوں کو پڑھائیں اور رہا ہو جائیں یہ تعلیم کی اہمیت ہے۔ میرٹ کی مِثال پر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی مثال دی جنہوں نے اُحد میں بُہت نُقصان پُہنچایا لیکن مُسلمان ہونے پر اُن ہی کو سپہ سالار بنایا کیونکہ وُہ میرٹ پر تھے۔
وزیرِاعظم نے آپ صلعم کے سُنہری دور کی مثالیں دیتے ہُوئے کہا کہ انصاف کا اور مساوات کا نظام ازحد ضروری ہے۔ قانُون کی بالادستی کے ضمن میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عُنہ کی مِثال دی جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر فاطمہ رضی اللہ عُنہ بھی چوری کرتیں تو آپ اُن کو بھی سزا دیتے۔ حضرت عُمر رضی اللہ کے کُرتے اور حضرت علی رضی اللہ کی یہودی کے خلاف فیصلے میں ہار کی مِثال دی کہ کُوئی قانُون سے بالاتر نہیں ہوتا اور نہ ہی ہونا چاہئیے۔
ایف بی آر کو ٹھیک کریں گے تاکہ ٹیکس لوگ زیادہ سے زیادہ دیں۔ میں ٹیکس کی خُود حفاظت کروں گا آپ کا پیسہ مُلک کی بہتری میں استعمال ہوگا۔ یہ بھی کہا کہ جِن لیڈرز کے پیسے اور کاروبار باہر ہیں اُن کو ووٹ دینے سے گُریز کریں، ایسے لیڈرز آپ کا ہی نُقصان کرتے ہی اور باہر سے کنٹرول بھی ہوسکتے ہیں۔ ایک ٹاسک فورس بنانے کا بھی کہا جو ڈاکٹر عشرت حُسین کی نگرانی میں چوری شُدہ اور مُلک سے باہر بھیجے گئے پیسے پر کام کرے گی۔ وِسل بلور ایکٹ بنانے کا کہا کہ کرپشن کی نشاندہی پر کُچھ دس سے بیس فیصد اُس بندے کو دیں گے جو اپنے محکمے میں ہونیوالی خُردبُرد کی نشاندہی کرے گا۔ کرپشن روکنے میں مدد کریں آپ کا مُلک ہے اِس کو تباہی سے بچائیں۔
کہا کہ انصاف کے نظام کو بہتر کرنا ہے۔ چیف جسٹس سے میٹنگ کریں گے اور غریبوں اور بیواؤں کے بالخصوص زمینوں کے فیصلے جلد از جلد کروائیں گے۔ قیدیوں کی صورتحال پہ اندرون و بیرون مُلک نظر رکھیں گے۔ اندرون مُلک ایک وکیلوں کی ٹیم کام کرے گی جبکہ بیرون مُلک سفارت خانوں کو ہدایت کی جائیگی کہ اوورسیز پاکستانی ہمارے مُلک کا بیش قیمت اثاثہ ہیں جو سالانہ بیس ارب ڈالرز سے زائد رقم بھیجتے ہیں اور مُلک چلتا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں سے بھی مدد کی درخواست کی کہ اپنا پیسہ پاکستان لائیں ، کاروبار کریں۔
وزیراعظم نے کھیلوں کے میدان اور پارکس بنانے پر زور دیا۔ مُلک کی گلوبل وارمنگ سے متاثر ہونے کی بات کی، درخت لگانے کی بات کی۔ کہا کہ کسانوں کی بہتری اور زراعت کے شُعبے میں نئی ریسرچ لانے پر غور ہوگا۔
خطاب میں کم از کم ایک ڈیم مُلک کی لازمی ضرورت قرار دیا گیا۔
سول سروس کو پیغام دیا کہ عام آدمی کو عزت دیں، ہم آپ کو عزت دیں گے آپ کی سیاسی وابستگی جس بھی سیاسی پارٹی سے ہے مُجھے فرق نہیں پڑتا بس ایمانداری سے کام کریں۔ رائیٹ ٹُو سروسز ایکٹ نافذ کرنے کا کہا کہ اچھے کام پر بونس اور کام نہ کرنے پر سزائیں بھی ملیں گی۔
نیب کو مضبُوط کرنے کی بات کی، ایف آئی اے یعنی وزارتِ داخلہ اپنے پاس رکھنے کی بات کی تاکہ بہتر طریقے سے مانیٹر کر سکوں۔ بلدیاتی نظام میں فنڈز ڈائریکٹ نچلے لیول پر تقسیم کرنے کی بات کی اور کہا کہ ضلعی و تحصیل ناظم براہِ راست مُنتخب ہوں گے۔ پولیس کا نظام پنجاب لیول پر ناصر دُرانی کریں گے جبکہ سندھ پولیس کو بھی بہتر بنانے پر کام ہوگا۔
کراچی کا کافی ذکر کیا کہ پانی کے مسائل ہیں گندگی ہے اور چند دیگر مسائل بھی ہیں۔ کہا کہ کراچی کو بہتر کریں گے کیونکہ کراچی پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے۔
اِس کے علاوہ نیشنل ایکشن کمیٹی جس پر تمام سیاسی پارٹیاں مُتفق تھیں اُس کے بیس کے بیس پوائنٹس پر عمل درآمد کروائیں گے، دہشت گردی کو جڑ سے ختم کریں گے، مدرسے کے چوبیس لاکھ بچوں پر بھی توجہ دیں گے تاکہ وُہ بھی کارآمد شہری اور ڈاکٹر، انجینئیر، جنرل بن سکیں۔
آخر میں سیاحت، صحت، صفائی کے مسائل پر بات کی اور ہر شُعبے میں کام کرنا اہم ضرورت قرار دیا۔ نوجوانوں کے لئے روزگار، سکل لرننگ ادارے، اور بِلاسُود قرضوں کی فراہمی پر کام کرنے کا کہا۔
آخر میں پاکستانیوں سے کہا کہ اپنے سے کمزوروں پر رحم کریں اور اپنے اندر ہمدردی کا جذبہ پیدا کریں۔ میں تب تک زندہ شاید نہ ہُوں لیکن ایک دِن پاکستان بُہت بہتر مُلک ہوگا۔ اللہ پاکستان کی مدد کرے۔
پاکستان زندہ باد۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں