تذکرہ شہدائے کشمیر

”میانہ مہرازو مائنز ہا لاگے “….(میرے معصوم دُلہے راجا، آﺅ میں تجھے مہندی لگاﺅں)….”معاوضہ نہیں انصاف چاہیے“ یہ وہ کشمیری الفاظ ہیں جو ۲۱ برس کے ایک معصوم بچے کے والدین اپنی اولاد کی جدائی کے غم میں مقبوضہ کشمیر کے سرینگر ضلع میں بار بار دہرا رہے ہیں۔ یہ بچہ جسے مقبوضہ کشمیر کے سعد پورہ عیدگاہ سرینگر میں اپنے ہی گھر کے صحن میں بھارتی فوجیوں نے پیلٹ بندوق کے چھروں سے چھلنی کر شہید کر دیا ۔اس کی والدہ اپنے لخت جگر کی جدائی میں اس قدر دیوانی ہوگئی کہ بار بار سمجھانے کے باوجود بھی اپنے معصوم بیٹے کی جدائی کا سن کر ہوش و حواس کھو بیٹھتی ہے۔
ساتوں جماعت کا یہ طالب علم وکمسن بچہ ”جنید احمد آخون ولد غلام محمد “جسے پیلٹ کے چھرے لگنے کی وجہ سے اس قدر زخمی کر دیا گیا کہ دوبارہ جاں بر نہ ہو سکا۔سرینگر کے مشہور ومعروف اسپتال صورہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں کئی گھنٹوں تک زندگی اور موت کے درمیان کشمکش کے بعد آخر ملک الموت نے اپنی ڈیوٹی انجام دی اور دوران شب ہی معصوم جنید کی روح پرواز کرگئی۔ تین بہنوں کا یہ اکلوتا اور لاڈلا بھائی ”جنید“ نہ صرف ذہین اور قابل طالب علم تھا بلکہ اہل علاقہ اور اسکول کے مدرّسین کو اپنے اس نونہال پر فخر بھی تھا۔رشتہ داروں کے مطابق ”جنید“ ایک صالح بچے کے علاوہ فرماں بردار بیٹا بھی تھا اور ہر سال اسکول میں امتیازی پوزیشن بھی لیتا تھا۔ یہ وہی بچہ تھا جس کے ہاتھ میں نہ کوئی پتھر تھا اور نہ ہی کسی قسم کی بندوق وغیرہ، ٹافی اور مٹھائی کھانے کا شوقین ایک سیدھا سادھا اور ذہین بچہ تھا۔
جنید آخون کا والد غلام محمد پیشہ سے پشمینہ ساز ہے اور جنید اس کی تین بیٹیوں کے بعد بڑی دُعاﺅں اور منتوں کے بعد پیدا ہوا تھا۔ اس کم عمر طالب علم کی نعش جب گھر میں اس کی والدہ کے سامنے پہنچاکر رکھی گئی تو جنید کی والدہ جیسے پاگل ہی ہوگئی۔ جنید جنید کرتے ہوئے بیٹے کی میت سے چمٹ گئی۔ کبھی پیشانی کو تو کبھی چہرے اور کھبی منہ کو بوسہ دینے لگی اور اپنے کمسن پھول کو مرجھائے دیکھ کر زار و قطار آنسو بہا تے بہاتے بے ہوش ہو گئی۔ دراصل ماں نے کبھی اس صورت میں اپنے لاڈلے کو دیکھا ہی نہ تھا…. تاہم جب ہنستے کھیلتے، اس بچے کی یہ صورت اور یہ انداز سامنے آیا تو اس کی والدہ اسے ایسے دیکھ رہی تھی کہ جیسے پہلی بار دیکھ رہی ہو، شاید اس کے دل میں یہ کسک تھی کہ اب اپنے لخت جگر کو دوبارہ کبھی دیکھ نہیں پائے گی۔ ماں کی ممتا ،باپ کے پیاراور تین بہنوں کےلاڈ لے پن میں جنید پلا بڑھاہ،. صبح سویرے سکول جاتے ہوئے…. ماں کی ممتا ملتی تھی…. باپ کا پیار اور بہنوں کا لاڈ نصیب ہوتا تھا لیکن اب یہی ممتا، پیار اور لاڈلے پن سے پلا ہوا معصوم بچہ جس کی قمیص پر اگر ایک چھوٹا سے داغ بھی لگ جاتا تو والدین اور بہنیں برداشت نہ کرپاتی تھیں…. آج یہی بچہ منوںمٹی تلےآرام فرما رہاہے…. وہ زمین جس پر اگر کبھی اچانک اس بچے کو ٹھوکر لگتی تو والدین اور بہنیں دوڑ دوڑ کر اسے اُٹھا لیتی تھیں…. اس کے ہاتھ پاﺅں جاڑ لیتی تھی۔
وہ وقت یاد آتا ہے جب اس معصوم جنید کی نعش کو اٹھانے کا وقت آیا تو اس کی ماں جو اپنے ہوش وہواس کھو بیٹھی تھی،اپنے اس جگر گوشے سے الگ ہی نہیں ہونا چاہتی تھی،آہ وزاری میں ہی وہ چلا چلا کر کہہ رہی تھی کہ ”میرے جنید کو مجھ سے الگ نہ کرو۔“ ”میتی ترائیوں میانس مہرازس سئتی قبرئِ منز‘‘ (ترجمہ:”مجھے بھی میرے دلہے بیٹے کے ساتھ سپرد لحد کرﺅ۔“) ہر سو ،رنج والم کا ماحول تھا اور چیخ وپکار کے علاوہ کوئی بھی بات سنائی نہیں دے رہی تھی۔جنید کی والدہ کی تو جیسے دنیا ہی لٹ گئی اور وہ میرے دلہے بیٹے، مجھے دغا دے کر کیوں چلے گئے، کی رٹ لگائے ہوئی تھی۔ آس پاس موجود مرد وخواتین کی آنکھوں سے بھی آنسو چھلک رہے تھے ۔ کیا کرتے یہ ایسا سفر تھا جس پر ہر ایک کو جانا ہے۔
معصوم جنید کی ماں نے اپنے لاڈلے اور ننھے دلہے کی نعش کو مزار شہدا عیدگاہ سرینگر کے بجائے آبائی قبرستان میں ہی سپرد لحد کرنے کی خواہش ظاہر کی،جس کو پورا بھی کیا گیا۔لوگ جب اس کی نعش کو اپنے آبائی قبرستان لے جا رہے تھے تو نام نہاد”سرکھشا“ اور ”پولیس“ والے شرم اور اپنے کئے ہوئے اس گناہ کو ایک بار پھر بھول کر ایسی حرکت کر بیٹھے کہ کلیجہ منہ کو آتاہے…. نعش کو لے جانے والے غمزدہ لواحقین اور لوگوں پر بے تحاشا طاقت کا استعمال کیا گیا…. حتیٰ کہ نعش کو بیچ سڑک پر ہی چھوڑ کر لوگوں کو محفوظ مقامات کی طرف بھاگنا پڑا…. آخر کار کچھ وقت گزارنے کے بعد لوگوں نے بیچ سڑک پر گری نعش کو اٹھا کر دوسرا راستہ اختیار کر کے جنید آخون کی نعش اپنے کندھوں پر اٹھائی اور نعش کو اپنے آخری گھر کی جانب روانہ کر دیا۔ یوں یہ جنازہ اٹھا…. ہر سو ہو کا عالم تھا…. ہر طرف ماتم ہی ماتم…. ہر زبان پر ایک ہی بات کہ ”ننھے جنید تجھے سلام…. ننھے جنید تجھے سلام“۔
معصوم جنید کی تین بہنیں تو اپنے اکلوتے بھائی کے کھونے سے ایک دم ٹوٹ گئی ہیں اور رو رو کر اپنے بھائی کو یاد کر رہی ہیں۔بانونٹ نامی اسکول میں ساتویں جماعت میں زیر تعلیم جنید کو آخری سفر کی طرف روانہ کیا جارہا تھا اور اس کا والد دیوانہ وار زار و قطارو رہا تھا۔ اس کے والد غلام محمد کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس کا اکلوتا بیٹا اس سے کیوں جدا کیا گیا۔ غلام محمد ،جنید کو اپنا اور اپنے اہل خانہ کیلئے وقت پیری کا سہارا سمجھا تھا،تاہم وقت کے بے رحم ہاتھوں نے والد کے اس سہارے کو ہی چھین لیا۔اپنے بیٹے کے جنازے کے ساتھ آہستہ آہستہ قدموں سے چل رہا تھا اور اس کے قدم قبرستان کی طرف اُٹھ ہی نہیں رہے تھے۔یکایک غلام محمد کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ جنید کے غم نے اس کے والد کو اس قدر نڈھال کیا کہ وہ اپنے کپڑوں کو بھی تار تار کرنے لگا۔”میانی جنیدو کتو گوکھ‘‘ (ترجمہ:”میرے پیارے جنید تم کہا ں چلے گئے؟) کا نالہ الم اس کی زبان سے بار بار بلند ہوا۔ غلام محمد اپنے معصوم بیٹے جنید احمد کے قتل ناحق کے بدلے عدلیہ سے بس یہی سوال کرتے پھرتے ہیں کہ مجھے انصاف چاہیے…. مجھے کوئی معاوضہ نہیں بلکہ انصاف چاہیے۔ وہ بار بار یہی بات دہرا رہا ہے کہ ”مقبوضہ جموں وکشمیر کی نام نہاد اور کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی لاشوں پر سیاست کر رہی ہے، انہیں چاہیے کہ اب ہمارے چھوٹے چھوٹے بچوں پر رحم کرے “۔
اس واقعہ کو ایک سال گزرنے کے باوجود ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ گویا کل کی بات ہو۔ معصوم جنید کا چہرہ ابھی بھی سکول وردی میں سامنے آرہا ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ شاید یہ حقیقی واقعہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک خیالی واقعہ تھا، لیکن کیا کہیں جب یہاں ایسے واقعات ہر دو روز بعد رونما ہو رہے ہیں تو اندازہ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ خدایا اب ہم پر رحم فرما…. بھارت کے ظلم وجبرسے نجات دے کر آزادی کی صبح نصیب فرما…. قابض بھارت کو یا تو صحیح سوچ عطا فرما، یا انہیں نیست ونابود کر۔ شہدائے کشمیر کے درجات بلند فرما اور لواحقین کو صبر جمیل اور حوصلہ عظیم عطا فرما۔آمین یا رب العالمین۔

Facebook Comments

ابراہیم جمال بٹ
مقبوضہ جموں وکشمیر سے ایک درد بھری پکار۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply