• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • فرانسیسی مفکر اگست کامٹ : جدید فلسفۂ سائنس اور’’ اثباتیت‘‘ کا نقیب ۔۔۔۔وردہ بلوچ

فرانسیسی مفکر اگست کامٹ : جدید فلسفۂ سائنس اور’’ اثباتیت‘‘ کا نقیب ۔۔۔۔وردہ بلوچ

اگست کامٹ کی پیدائش 19 جنوری 1798ء کو فرانس میں ہوئی۔ وہ ایک فرانسیسی فلسفی تھا۔ اسے جدید فلسفۂ سائنس اور’’ اثباتیت‘‘ کا نقیب بھی کہا جاتا ہے۔ کامٹ اس روایت کا علم بردار تھا جس کو انلائٹن منٹ یا روشن خیالی کا نام دیا گیا ہے۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی کے یورپ میں روشن خیالی کی یہ روایت دراصل فلسفیانہ اور ثقافتی تحریک تھی جس میں مسلمہ عقائد پر تنقید کی گئی اور عقل کے آزادانہ استعمال پر زور دیا گیا۔ سائنسی تجربوں اور مشاہداتی علوم کو فروغ دیا گیا اور انسانی فلاح و بہبود کو سب سے زیادہ اہم قرار دیا گیا۔ انقلاب فرانس کے بعد پیدا ہونے والے حالات سے نمٹنے کے لیے اس نے زور دیا کہ سماجی نظریات کی بنیاد سائنس پر ہونی چاہیے۔

انیسویں صدی کے جن مفکرین پر کامٹ کی سوچ کا اثر پڑا ان میں کارل مارکس، جان سٹورٹ مل اورجارج ایلیٹ شامل ہیں۔ دوسری طرف کامٹ یوٹوپیائی سوشلسٹ ہنری سینٹ سیمون سے متاثر تھا۔ سماجیات اور سماجی ارتقا پر اس کے تصورات نے سماجی نظریہ دانوں اور ماہرین بشریات کے اہم ناموں کو متاثر کیا جن میں ہیریٹ مارٹینو اور ہربرٹ سپنسر شامل ہیں۔ بعد ازاں انہیں خیالات کی عکاسی ایمائل درخیم کے افکار میں ہوتی ہے۔ چونکہ وہ حکومت کا ملازم تھا اس لیے سماجی نظم و ضبط کو زیادہ پسند کرتا تھا۔ کامٹ سماج کی سائنسی تشکیل کرنا چاہتا تھا ۔ کامٹ ان قوانین کو جاننا چاہتا تھا جس کے تحت سماج ایک تاریخی دور سے دوسرے دور کی جانب سفر کرتا ہے۔ وہ ان حالات کا جائزہ چاہتا تھا جو کسی بھی تاریخی لمحے میں سماج کو ایک ٹھہراؤ دیتے ہیں۔

کامٹ کا کہنا تھا کہ انسانی سماج کو انہی سائنسی اصولوں سے سمجھنا ہو گا جنہیں اب تک قدرتی نظام کو سمجھنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ جس طرح کائنات قدرت کے قانون کے ماتحت ہے بالکل ایسے ہی سماج کی حرکت اور ٹھہراؤ بھی قوانین کے دائرے میں آتے ہیں۔ اس کے نزدیک سائنس نے قدرتی دنیا کو جس طرح دریافت کیا اسی طرح انسانی سماج کو سمجھنے کا وقت آ گیا ہے۔ جس طرح سائنس کی بنیاد مشاہدے پر اور اصل واقعات پر ہوتی ہے بالکل ایسے ہیں سماج کے علم کو مشاہدات اور حقائق کی ضرورت پڑے گی۔ انسانیت کی بہبود کے لیے سائنس کی جو خدمات ہیں وہی خدمات کامٹ کے بقول سماجیات سے بھی حاصل ہوں گی۔ 1822ء میں کامٹ نے انسانی ترقی کے قوانین مقرر کیے جسے اس نے ’’لاء آف تھری سٹیجز‘‘ یا ’’تین منازل کا قانون‘‘ کا نام دیا۔ کامٹ کا کہنا تھا کہ انسانی دماغ کا ارتقا سماج کے ارتقا کے شانہ بشانہ چلا ہے۔

جس طرح بچپن میں انسان زیادہ تر سنی سنائی باتوں پر یقین کرتا ہے، نوبلوغیت میں تصور میں دنیا بساتا ہے اور تنقید کرتا ہے اور ادھیڑ عمر میں حقائق سے قریب ہو جاتا ہے بالکل ایسے ہی سماج کے پورے تاریخی ارتقا میں انسانیت تین بڑے ادوار سے گزری۔ دراصل یہ تین ذہنی رجحانات تھے۔ ۱۔ الہٰیاتی، یا تصوراتی، ۲۔ مابعد الطبیعیاتی یا مجرد، ۳۔ سائنسی یا واقعاتی۔ کامت کے بقول الہٰیاتی دور میں انسانی دماغ وجو دکی حقیقی ماہیت کی تلاش کرتا ہے اور ہونے والے واقعات کی شروعات اور مقاصد کا تجزیہ کرتا ہے۔ ایک مفروضہ یہ کار فرما رہتا ہے کہ دنیا میں ہونے والے تمام واقعات مافوق البشر طاقتوں کے سبب ہوتے ہیں۔   مابعد الطبیعیاتی دور میں انسانی دماغ ہونے والے واقعات کے اسباب کو غیرمرئی طاقتوں میں تلاش کرتا ہے۔

واقعات پر مبنی دورمیں انسانی دماغ کائنات کی پیدائش اور مقاصد کی تلاش سے متعلق سوالات بھی پس پشت ڈال دیتا ہے۔ اس دماغ کی جستجو کائنات کو چلانے والے قوانین کے تجزیہ میں وقف ہو جاتی ہے۔ اگرچہ کامٹ انسانی دماغ کی بتدریج آزادی کے ارتقا کا تجزیہ کر رہا تھا مگر اسی کے ساتھ ساتھ اس نے سماجی تنظیم کی ترقی کی مختلف شکلوں کے قوانین کا احاطہ نہ کیا۔ مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کامٹ نے سماج کے ہر دور کو ایک خصوصی سماجی تنظیم اور سیاسی اقتدار سے منسلک کیا۔ مثلاً الہٰیاتی دور میں مذہبی پیشواؤں اور فوجیوں کی حکومت تھی، مابعد الطبیعیاتی دور کا تعلق یورپ کے قرون وسطیٰ اور نشاۃ ثانیہ سے تھا۔

اس زمانے میں چرچ کے عہدیداران اور قانون دانوں کی حکومت تھی مگر سماج کے پوزنیٹو دور میں سماجی نظام کی باگ ڈور صنعت و حرفت کے منتظمین اور سائنسی رہنماؤں کے ہاتھ آ گئی۔ کامٹ کی دوسری مشہور تھیوری کا تعلق مختلف علوم کی درجہ بندی سے ہے۔ اس درجہ بندی میں کامٹ نے علم نجوم کو سب سے کم حیثیت کا بتایا اور معیاری علوم میں فزکس، کیمسٹری، بیالوجی کے علاوہ سماجیات کو اعلیٰ درجے پر رکھا۔ کامٹ کا تعلق فرانس کے پرآشوب سماجی دور سے تھا۔ اس زمانے کی سیاسی اتھل پتھل کے پیچھے معاشی اور سماجی تبدیلیاں بھی تھیں۔ دراصل صنعتی انقلاب کا اثر انسانی زندگی پر رونما ہو چکا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ اردو کلاسیک

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply