سفر نامہ ۔ قسط 2

تھر کے گھر گھر تک۔

اگلی صبح تھر کے صحرا میں ہمارے لیے ناشتے میں دہی ،شہد آملیٹ اور تندوری پراٹھوں کا انتظام تھا۔زبردست سے ناشتے کے بعد ہم نے اسلام کوٹ کی جانب سفر شروع کیا ۔۔۔ ہمارے گائیڈ نے بتایا جس چورے پر اوپر چھوٹی سی نوک نکلی ہے وہ ہندوؤں کا چو را ہوگا.اور جو اوپر سے فلیٹ ہے وہ مسلمانوں کا۔ہندو عورتیں بازوؤں میں سفید رنگ کے کڑے پہن کر گھومتی ہیں۔ جس سے دور سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ہندو ہیں۔ اگر بالفرض کسی نے نہ بھی پہنے ہوں یا کم پہنے ہوں اس کے گھونگٹ سے پتا چل جاتا ہے کہ یہ ہندو عورتیں ہیں۔بنیے اور ٹھاکر قبیلے کے ہندو خوبصورت ہوتے ہیں۔ ان کے رنگ گورے اور ہلکے سانولے ہوتے ہیں اور قدرتی کشش رکھتے ہیں۔ البتہ کالے رنگ کے لوگوں کا غلبہ ہے۔ یہاں پر بچوں کی آنکھوں میں عجیب چمک ہے۔ جیسا ٹی وی میں صرف کمزوری بدحالی دیکھتے تھے مکمل ویسا بالکل نہیں تھا.لوگ بہت ہی خوبصورت اور پرکشش تھے. اور بستی میں مہمانوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے ۔ بستی کے بزرگ آگے بڑھ کر استقبال کرتے. بچے عورتیں جمع ہو جاتیں ۔ تقریباً 70 فیصد بچے جوتوں کے بغیر ہوتے. اور اسی تناسب سے شلوار بھی غائب ہوتی ۔ یوں تھرکے بچوں کے لیے خوراک کے بعد دوسرا مسئلہ شلوار کا ہے۔۔۔البتہ قمیضیں وافر تھیں۔

مزے کی بات یہ تھی کہ کسی گھر میں شیشہ / آئینہ نظر نہیں آیا۔ مگر تقریباً ہر مرد نے شیو کی ہوئی تھی۔یعنی کہ خوبصورت نظر آنا روٹی سے افصل سمجھا جاتا ہے۔ چورے کی ایک خوبی یہ تھی کہ اس میں گرمی کا احساس ایک دم ختم اور باہر کی لو اندر راحت بخش ہوا بن جاتی تھی۔تھر میں امن کی صورتحال بہت زبردست ہے۔ ایک دوست نے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔ یار یہاں ہندو مسلم تقریباً برابر ہیں مگر فساد نہیں ہے۔میں نے ازراہ تفنن کہہ دیا۔۔
ہندوؤں کے پاس نہ پڑھے لکھے پنڈت ہیں نہ ہی مسلمانوں کے پاس مولوی ۔ فساد کون کروائے۔خیر جہالت ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ان کے لیے ۔ جو میرے خیال میں خوراک سے بھی اہم ہے۔ لوگ اپنی اپنی دینی اقدار سے بہت دور ہیں۔گھر و مساجد کچی ہیں البتہ دربار بہت خوبصورت بنے ہوئے ہیں۔ مٹھی سے نکلیں تو بجلی کا تصور نہیں ہے۔ فلاحی اداروں نے اپنے دفاتر میں سولر انرجی پینل لگائے ہیں۔مرکزی روڈ سے 10کلو میٹر نیچے اتر جائیں تو موبائل کا تصور بھی بالکل ختم ہو جاتا ہے۔

چورا 10 بائی 10 فٹ کا ہے اور شاید بچے بھی ایک چورے میں 10 ہی ہوتے ہیں ۔ بھوک و افلاس کے اس دور میں بھی اتنے بچوں کا پل جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ حقیقی رازق اور پالنے والا اللہ ہے۔ اگر بندوں کے بس میں ہوتا تو وہاں کوئی مخلوق بھی نہ ہوتی۔خیر اب جغرافیائی پہلوں پر بات کریں۔ قدرتی طور پر سارے کا سارا خطہ گیس و تیل کے زمینی ذخائر سے مالا مال ہے۔تھر کا اکثر علاقہ ریت کے چھوٹے چھوٹے ٹیلوں پر مشتمل ہے۔یہ دنیا کا واحد صحرا ہے جو سرسبز و شاداب ہے۔اگر سال میں تین چار بارشیں ہو جائیں تو گندم اور دیگر اجناس اگائی جا سکتی ہیں۔اگر اس علاقے میں نہر کا انتظام کر دیا جائے تو بالکل اسی طرح زراعت کے لیے فائدہ مند ہوگا جس طرح پنجاب کی زمین۔ زیر زمین بھی کہیں کہیں پانی میٹھا بھی نکلتا ہے۔ایسی ہی جگہوں پر رفاعی ادارے کنویں یا نل لگاتے ہیں۔

مور ،مرغابی اور ہرن بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں ۔ مگر شکار بہت کم کیے جاتے ہیں ۔زیادہ پسماندہ علاقوں میں آج بھی بارٹر سسٹم رائج ہے ۔ لوگ ایک بکری کے بدلے اشیاء ضروریہ لے آتے ہیں۔پورے تھر میں میں نے کسی جانور کے گلے میں رسی نہیں دیکھی ۔اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جہاں انسان امن سے رہیں وہاں جانور بھی امن سے رہتے ہیں۔ یا پھر یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جانوروں نے بھی لڑنا انسانوں سے سیکھا ہے۔ہندوؤں کی بڑی مقدار ہونے کی وجہ سے وہاں گائے کو سرعام ذبح نہیں کیا جاتا۔ البتہ ہندوؤں سے چھپا کرذبح کر لی جاتی ہیں۔وہاں کی گائیں بہت موٹے اور لمبے سینگوں والی ہوتی ہیں ۔ اور بہت خوبصورت نظر آتی ہیں۔ گائیں ایک ترتیب سے چلتی ہیں۔ سب سے آگے ایک بچھڑا چلتا ہے اور اس کے پیچھے گائیں۔مٹی کے گھروں میں رہنے کی وجہ سے لوگوں کی طبعیت نرم ہے۔

اگر رفاعی کاموں کا ذکر کیا جائے تو تھر میں بہت سا کام ہوا ہے۔بہت سے گاؤں میں ایک دو کنویں موجود ہیں ۔ جن سے میٹھا پانی نکل سکتا ہے۔
فلاح انسانیت فاؤنڈیشن الخدمت فاؤنڈیشن کا کام سر فہرست ہے۔اس کے علاوہ بہت سی مذہبی ، سیاسی، قومی اور بین الاقوامی تنظیموں کے کام نظر آتے ہیں۔
کنوؤں، اسکولوں ،مساجد، ہسپتال اور گھروں کی تعمیرات میں ان تنظیموں نے گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں ۔فلاح انسانیت اور الخدمت فاؤنڈیشن کی خدمت اور محنت سے بہت سے لوگ مسلمان ہو رہے ہیں۔ جن کی بہت بڑی تکلیف بے دین اور ہندو تنظیموں کو ہے۔ کیونکہ یہ لوگ کام کے میدان میں ان سے پیچھے رہ گئے ہیں اور اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں ناکام ہو رہے ہیں ۔ان تنظیموں کےکام میں مجھے جو سب سے زیادہ پسند آیا وہ روزگار سکیمیں ہیں۔روز روز تھوڑا تھوڑا راشن دینے کے بجائے ان کو ان کے پاؤں پر کھڑا کرنا زیادہ بہتر کام ہے۔ راشن کی تقسیم اس لیے ضروری ہے کہ روزگار سے فوری نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔

تھر میں دو سولر ٹیوب ویل دیکھے، جن کی زمینوں میں یہ ٹیوب ویل لگے ہیں وہ لوگ اب کافی خوشحال ہیں۔ایک شخص نے بتایا کہ وہ اپنی زمین سے روزانہ2 سے 3 من چارہ کاٹ کر منڈی فروخت کرتا ہوں جس سے مجھے روزانہ کی بنیاد پر ہزار سے پندرہ سو روپے کی بچت ہوتی ہے۔اسی طرح ایک سکیم میں بکریوں کی تقسیم کا پروگرام دیکھ کر خوشی ہوئی ۔ جن عورتوں کو وہاں کی ثقافتی اشیاء بنانی آتی ہیں ان کے لیے جدید مشینری مہیا کر کے ان کو معاشرے میں مقام دلایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ سلائی سینٹرز کے قیام جیسے منصوبے بہت سود مند ہیں۔ان سب کے ساتھ ساتھ حکومتی اقدامات سے نہایت مایوسی ہوئی بڑی بڑی گرانٹ منظور کروا کر ہلکی سی انویسٹمنٹ کر دی جاتی ہے. سرکاری سرپرستی میں چلنے والے اکثر ہسپتال،سکول اور واٹر پراجیکٹس بالکل بند پڑے ہیں۔ اور شاید ان کو دیکھنے بھی اب کوئی نہیں آتا۔
آخر میں یہ کہ دوستو۔۔۔ آسائشیں ہی آسائشیں لیے ہم اپنے شب و روز بسر کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے وقت میں سےکچھ وقت نکال کر ان لوگوں کے پاس جانا چاہیے ۔ اپنے مال سے ایک حصہ ان کا رکھنا چاہیے۔مدد کریں خدا آپ کی مدد کرے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔

Facebook Comments

نعمان علی ہاشم
کالم نگار بننے کی مسلسل کشمکش میں ہیں۔ امی ڈاکٹر اور ابو انجینئر بنانا چاہتے تھے۔ ہم نے کالج سے راہ فرار لی اور فیس بک سے باقاعدہ دانشوری شروع کر دی۔ اب تک چند اخباروں میں مہمان کالم چھپ چکا ہے۔ مگر کسی نے مستقل قبول نہیں کیا. قبول سے یاد آیا کسی نے ابھی تک قبول ہے قبول ہے قبول ہے بھی نہیں کیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply