طاہر یاسین طاہر
بادشاہوں کے اپنے مزاج ہوتے ہیں۔ہر بادشاہ قریب قریب دوسرے بادشاہ کا ہم مزاج بھی ہوتا ہے اور ہم کردار بھی۔سچ یہی ہے کہ معاشرتی زندگی پر بادشاہوں کا طرز حیات اثر انداز ہوتا ہے۔وہ معاشرے جہاں بادشاہ شعوری طور پہ منتخب کیے جاتے ہیں ان معاشروں کی اجتماعی حیات کا سفر انتہا پسندانہ ہوتا ہے۔تاریخ یہی ہے۔جدید عہد میں اس کی کئی مثالیں بھی موجود ہیں۔ترکی اور پاکستان کو اس کی ایک مثال کے طور پہ لیا جا سکتا ہے۔ترک صدر طیب اردغان پاکستان کے دورے پر ہیں۔بے شک پاکستان کے لیے ترکی ا ور ترکی کے لیے پاکستان کی اہمیت ہے۔مگر پاکستان کا حکمران خاندان بشمول جماعت اسلامی و دائیں بازو کی دیگر جماعتیں ترک صدر کو اپنا آئیڈیل سجھ رہے ہیں۔تعصب اور عقیدت درست تجزیے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان سے دامن بچا کر دیکھا جائے توہمارا معاشرہ کسی بھی طور اردغان ماڈل کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ البتہ پاک ترک عوام کا ایک در مشترک د ہے ،ماضی پرستی،منتخب بادشاہتیں،نشاۃ ثانیہ کی گردان اور منظم انتہا پسندانہ گروہوں اور تنظیموں کی ریاستی پشت پناہی۔ان مشترکات نے طیب اردغان اور میاں خاندان کو تو قریب کر دیا مگر معاشرتی زندگی جس طرح ترکوں کی مضطرب ہے ویسے ہی پاکستانیوں کی بھی ہے ۔15جولائی 2016کو ترکی میں چند ہزار فوجیوں کی جانب سے جو بغاوت ناکام ہوئی تھی اور اس کے بعد طیب اردغان نے جو شدید اور متشدد ردعمل دیا تھا اس کے بعد میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ترک معاشرہ خوف کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔طیب حکومت کا عتاب بننے کا خوف، نوکریوں سے برطرفی کا خوف،باغیوں کے قبرستان میں دفنائے جانے کا خوف(یہ فیصلہ بعد میں طیب حکومت نے واپس لے لیا تھا) اسی طرح حکومت کو بھی اداروں کے اندر گولنسٹوں کا خوف۔سب سے بڑھ کر داعش کی پشت پناہی کا ثمر بار ہونے کے بجائے فائر بیک ہونے کا خوف۔
عالمی سیاسی منظر نامے کے طالب علم جانتے ہیں کہ ترکی داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کا پشت بان ہے۔اسی طرح نون لیگ کا ہاتھ بھی انتہا پسندانہ کالعدم تنظیموں کی پشت پر ہے۔یہ کوئی راز نہیں ،افسوس ناک حقیقت ہے،اور یہی دونوں حکمران خاندانوں کا مشترک ورثہ بھی ہے۔یہ وہی طیب اردغان ہیں جنھیں یہاں پاکستان میں ہیرو،اور نشاۃ ثانیہ کا علمبردار،اور مسلم امہ کا لیڈر سمجھا جا رہا ہے۔کیوں؟ اس لیے کہ ہم عالمی منظر نامے کو بھی اپنی خواب آور آنکھوں سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ وگرنہ مسلم امہ کا لیڈر ایسا ہو سکتا ہے جو اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کو یوں فروغ دے کہ اس کا بیٹا اسرائیلی کمپنیوں میں شراکت دار ہو؟غالب کو یاد کیے بنا چارہ نہیں۔
ہیں کوکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
خوف کا شکار انسان اور کچھ بھی ہو سکتا ہے مگر لیڈر نہیں۔طیب اردغان نے طاقت کو جس طرح اپنی ذات میں مرتکز کیا وہ بجائے خود خوف کی ایک علامت ہے۔کیا یونیوسٹیوں کے چانسلرز،کالجز کے پرنسپلز؟اور سکولوں کے اساتذہ سارے کے سارے باغی ہیں؟ اس معاشرے کی ترقی اور بلوغت نظری کو ہم کس طرح قدر کی نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں جس کی حکومت کے نشانے پر اس کے تعلیمی ادارے ہوں؟اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کو کسی نقطہ نظر یا فکری رویے سے اختلاف ہے تو آپ اس سے بہتر فکری رویے کا اظہاریہ اپنائیں۔یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ دلیل کے بجائے لاٹھی اور گولی کا راستہ اپنائیں۔ناکام بغاوت کے بعد طیب اردغان نے اپنے مخالفین کے لیے تشدد اور لاٹھی کے راستے کا انتخاب کیا۔کسی بھی معاشرے کے فکری اور سیاسی انحطاط کے لیے یہ کافی ہے کہ وہاں تشدد کو ریاستی سرپرستی حاصل ہے۔یا اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے حکومتی مشینری کا استعمال کیا جاتا ہے۔ناکام بغاوت کے بعد ترک صدر نے اپنے شدید تر ردعمل میں فوج کے82ہزار سے زائد افراد کو ملازمتوں سے برطرف کر دیا تھا۔ جن میں سے87 فوجی جنرل، 30 ایئرفورس کے جنرل اور 32 ایڈمرل شاملتھے ۔،عام فوجی سپاہی اس کے علاوہ ہیں۔ترک حکومت نے مقامی میڈیا کے 140 سے زیادہ ایسے ادارے بھی بند کر دیے جن پر امریکہ میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے والے ترک مبلغ فتح اللہ گولن کے حامی ہونے کا شبہ تھا۔لگ بھگ پانچ درجن صحافیوں کو بھی حراست میں لے لیا گیا ۔جن صحافیوں کو حراست میں لیا گیا ہے ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پابندی کے شکار اخبار زمان سے ہے۔اس سے پہلے ہی 42 نامہ نگاروں کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔اس پر بھی انتقام کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی تو گولن کے ادارے کے تحت چلنے والے سکولوں کو بند کر دیا گیا جبکہ دنیا بھر میں سفارتی مہم کے ذریعے ان سکولوں کو دیگر ممالک میں بھی بند کرانے کی درخواست کی گئی۔پاکستان سے بھی یہ درخواست کی گئی تھی اور ترک وزیر اعظم پاکستان آئے تھے۔ پاکستان نے یقین دھانی کرائی تھی کہ وہ اس معاملے پر غور کرے گا۔شاید کسی مناسب موقع کی جستجو تھی جو وفاقی حکومت کو مل گیا۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے پاکستان پہنچنے سے چند گھنٹوں قبل پاک ترک انٹرنیشنل سکول اینڈ کالجز کے عملے کو اپنے خاندان سمیت پاکستان سے تین دن کے اندر اندر نکل جانے کا حکم دیا گیا ہے۔پاک ترک انٹرنیشنل سکول اینڈ کالجز نے پاکستانی حکومت کی جانب سے اس اچانک کے فیصلے پر شدید خدشات کا اظہار کیا ہے۔پاک ترک ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین عالمگیر خان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جن لوگوں کو ملک سے جانے کی ہدایت کی گئی ہے ان میں اساتذہ، منتظمین، سکول جانے والے بچے، خواتین اور ان کے خاندان کے کم سن بچے بھی شامل ہیں۔ان افراد کی تعداد 450 ہے اور ان کی ویزہ میں توسیع کی درخواستیں بھی مسترد کر دی گئی تھیں۔
یہ امر واضح ہے کہ ترکی کی موجودہ حکومت کا حکومت پاکستان پر دباوہے کہ وہ پاک ترک سکولوں کو بند کرنے کے لیے اقدامات کرے کیونکہ ان سکولوں پر یہ الزام ہے کہ یہ فتح اللہ گولن کی حزمت فاونڈیشن کی ملکیت ہیں۔ مگر اگست میں حکومت پاکستان کے حکام نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تحریری طور ضمانت دی تھی کہ وہ ملک بھر میں پاک ترک انٹرنیشنل سکول اینڈ کالجز کے خلاف سخت کارروائی کا ادارہ نہیں رکھتے ہیں۔خیال رہے کہ اگست میں پاک ترک سکولوں کی انتظامیہ نے ملک میں قائم اپنے تمام سکولوں کے پرنسپلوں کو برخاست کر دیا تھا جن میں 23 ترک شہری بھی شامل تھے۔اس فیصلے سے پہلے پاکستان میں ترکی کے سفیر نے توقع ظاہر کی تھی کہ پاکستان فتح اللہ گولن کے تحت چلائے جانے والے تمام اداروں کو بند کرے گا۔کیا پاکستان بھی ترکی کے نقش قدم پر چلے گا؟ملکوں کے تعلقات مفادات پہ ہوتے ہیں،ہمارے ہاں مگر بادشاہوں کے مزاج پر۔جو معاشرےعلم،سوچ،فکر،مکالمہ،دلیل،اور سوال کرنے پر پابندی لگا دیں وہاں داعش اور طالبان و القاعدہ جیسی تنظیمیں جنم لیتی ہیں اور معاشرتی زندگی کو تباہ و برباد کر دیتی ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں