بائیوگرافی ریحانہ ویبسٹر۔۔۔۔۔ ابصار فاطمہ

ریحانہ ویسبٹر ماہر علم بشریات اور مائنڈ باڈی ٹیکنیک کی مدد سے تشکیل دی گئی ایک نفسیاتی علاج کی ٹکنیک، ٹرامہ بسٹنگ ٹیکنیک (ٹی بی ٹی) کی ڈیولپر ہیں. بنیادی طور پہ پاکستانی ہیں مگر آج کل آسٹریلیا میں مقیم ہیں. میری ان سے پہلی ملاقات تین سال قبل ہوئی. اور پہلی بار مجھے اندازہ ہوا کہ حوصلے جوان ہوں تو عمر آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی. یہ باحوصلہ خاتون اپنے ہم وطنوں کی مدد کے لیے اس ضعیفی میں بھی نہ سندھ و بلوچستان کے میدان عبور کرنے سے گھبراتی ہیں نہ شمالی علاقہ جات کے پہاڑ سر کرنے سے چوکتی ہیں. اور صرف پاکستان نہیں دنیا کے ہر گوشے میں موجود آفت زدہ مسلمانوں کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہیں. سادہ سے لباس میں ملبوس یہ خاتون ایک ہی ملاقات میں آپ کو اس حقیقت سے آشنا کروا دیتی ہیں کہ اہم مقام حاصل کرنے کے لیے اور اہم کام کرنے کے لیے مہنگے کپڑوں، گاڑیوں اور فیشن زدہ چہروں کی ضرورت نہیں ہوتی. آج جشن آزادی کے موقع پہ ان کی زندگی کے کچھ اہم رخ سب کے ساتھ شئیر کر رہی ہوں.

سمندر جیسی مامتا!
میں اپنے والد کا ہاتھ تھامے گوشت مارکیٹ کے اس غلیظ، پرشور اور تعفن زدہ علاقے سے یوں گزر رہی تھی جیسے یا تو خواب دیکھ رہی ہوں یا کسی طویل خوش نما خواب سے ابھی جاگی ہوں. زندگی کا یہ پہلو میری تمام حسیات جھجھوڑ رہا تھا. میں اتنی چھوٹی تھی کہ سب کچھ تو شاید سمجھ میں نہیں آرہا تھا لیکن اپنا بہت گہرا نقش ضرورچھوڑتا جارہا تھا. جیسے کوئی نوکیلے اوزار سے پتھر پہ کوئی نقش کندہ کر دے. بلکہ حقیقت کی یہ نوک شاید دنیا میں موجود کسی بھی قسم کے نوکیلے ہتھیار سے کہیں زیادہ نوکیلی تھی کہ اس نے میرے ذہن ہی نہیں شخصیت پہ وہ نقش کھود دیئے  جنہوں نے آج کی ریحانہ کی بنیاد بنائی.

وہ آنکھیں نہیں بھلائی جاتیں،اوبسیسیو کمپلسیو ڈس اورڈر۔۔۔۔۔ ابصار فاطمہ

میں ریحانہ ویبسٹر ہوں، اصلی نسلی پاکستانی. شاید دیکھنے سے نہیں لگتی اور مجھے اس سے فرق بھی نہیں پڑتا کہ میں کسی کو پاکستانی لگتی ہوں یا نہیں. مجھے پتا ہے میں پاکستانی ہوں اور میرے لیے یہ کافی ہے. میرے والد پاکستان کے اولین فوجی ہیروز میں سے ایک تھے. جن کا نام اب تک پاک فوج کے نمایاں اعزازات کے حاملین میں درج ہے. میرے والد پاکستان بننے کے بعد سیالکوٹ اسپتال کے پہلے آرمی ڈاکٹر تھے. میں نے جب ہوش سنبھالا تو ایک پرسکون گھر دیکھا، ایک طرف والدہ تھیں نازک سراپا اور نازک جذبات رکھنے والی، معاشرے کے اصولوں کو مقدم جاننے والی. دوسری طرف والد تھے اپنے اصولوں پہ زندگی گزارنے والے معاشرے کے غیر منصفانہ معیاروں کو قبول نہ کرنے والے. میری ابتدائی تعلیم فوجی تعلیمی اداروں میں ہوئی جہاں اس وقت علاقائی اور قومی زبان میں تعلیم دینا اعلیٰ عہدے داروں کی اولاد کے لیے بے عزتی سمجھا جاتا تھا. ہمارے گھر میں آسائشوں کا ڈھیر تو نہیں تھا مگر تنگ دستی بھی نہیں تھی. ہر وہ سہولت موجود تھی جو والد صاحب کی تنخواہ سے آسکتی تھی اس سے زیادہ کچھ نہیں. گھر میں چند ملازمین تھے جو ادارے کی طرف سے مہیا کئے گئے تھے. گھر میں موجود سارے نوکر چاچا کہلاتے تھے کیوں کہ اس سے کم عزت سے مخاطب کرنے کی والد صاحب کی طرف سے اجازت نہیں تھی. اور اگر کوئی ایسی غلطی کر جاتا تو تنبیہی تھپڑ ضرور پڑتا تھا. ویسے ہمیں کبھی احساس بھی نہیں ہوا کہ ان کی عزت ہم سے کم ہے. ہاں اس کا احساس تھا کہ ان کے وسائل ہم سے کم ہیں. مگر یہ کم وسائل کیا مسائل پیدا کرتے ہیں وہ شاید میں نہ جان پاتی اگر میرے والد مجھے یہی فرق دکھانے گوشت مارکیٹ نہ لے کر جاتے.

مجھے پہلی بار شدت سے احساس ہوا کہ وسائل کی کمی ایک انسان کو انسان کے معیار سے کتنے درجے پستی کی زندگی گزارنے پہ مجبور کرتی ہے. انسان کا بے لباس ہونا، خالی پیٹ کی دوزخ بھرنے کے لیے دوسرے انسان کے سامنے ہاتھ پھیلانا، معصوم بچپن مزدوری میں کاٹ دینا. کیا کچھ دیکھا تھا اس ایک دفعہ کے مارکیٹ جانے پر. یہ میرے والد کا معمول تھا وہ ہم بہن بھائیوں کو کبھی لمبے لمبے اصلاحی لیکچر نہیں دیتے تھے. یہ زندگی کی چلتی پھرتی مثالیں ہی ہماری درسگاہیں تھیں. ایک طرف ہمارا گھر اور اس کے اردگرد کا ماحول تھا جہاں گندگی و غربت کا شائبہ تک نہ تھا اور ایک اس احاطے سے باہر کی دنیا تھی. جسے ہمارے والد ہمیں بار بار دکھاتے تھے. مجھے حیرت ہوتی تھی بھیک مانگتے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر اور اس سے زیادہ ان حالات کا سوچ کر جنہوں نے انہیں انسانیت کے اس کم ترین درجے پہ آنے پہ مجبور کردیا تھا. اور کچھ واقعات ذہن میں ایسے نقش ہوئے کہ کبھی نہ نکل سکے. میں والدین کی پہلی اولاد تھی. باقی دونوں بہن بھائی آپریشن کے ذریعے دنیا میں آئے. آپ کو شاید یقین نہ آئے مگر اس وقت آپریشن کے ذریعے زچگی انتہائی تکلیف دہ تھی. میری والدہ کے شکم سے سینے تک وہ لمبا سا کھنکھجورا نما زخم کا نشان میرے دماغ میں اپنے نوکیلے پیر گاڑ کر ہمیشہ کے لیے بیٹھ گیا تھا. یہ میرے بچپن کی پہلی تکلیف دہ یاد تھی. اور پھر ایسے کئی واقعات ہوئے جو میرے ذاتی تجربات نہیں تھے پھر بھی مجھے بہت کچھ سکھا گئے.

کنورژن کا جن قابو کرنے کا طریقہ۔۔ابصار فاطمہ جعفری

مجھے یاد ہے جب ایک بار ہم راولپنڈی میں والد کے آبائی گھر تھے، وہ گھر ویسے تو بہت صاف ستھرا بنا ہوا تھا مگر اس کے اردگرد کا علاقہ ہر طرح کی غلاظت سے اٹا تھا. ایک دن ہم والد کے ساتھ اپنے چاچا کے گھر جانے کے لیے نکلے تو ہماری نظر ایک بہت ضعیف عورت پہ پڑی وہ اتنی کمزور اور عمر رسیدہ تھی کہ اس سے سیدھا بھی کھڑا نہیں ہوا جارہا تھا. اس کے ہاتھ میں نارنجی سا ٹکڑا تھا جو وہ گندے نالے سے دھونے کی کوشش کر رہی تھی. والد صاحب نے بتایا کہ اس کے ہاتھ میں گاجر کا ٹکڑا ہے اور شاید اس کے پاس کھانے کے لیے اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے. ایک ایسا ہی واقعہ اور یاد ہے جب ہم پشاور روڈ پہ آرمی ہاوسز میں رہتے تھے ایک دن گھر پہ کوئی بڑا نہیں تھا کہ دروازے پہ ایک مفلوک الحال شخص آیا میلے کچیلے کپڑے چہرے سے بھوک عیاں تھی اور سب سے زیادہ جس چیز نے مجھے اندر تک لرزا دیا وہ اس کی پشت سے چمٹا بے لباس بچہ تھا. میں اتنی چھوٹی تھی کہ کچھ سمجھ نہیں آیا تو میں بھاگ کے اندر گئی اور میز پہ سے میز پوش اتار کے اس شخص کو دے دیا.
کیوں کہ والد فوج میں تھے اس لیے ہم کبھی بھی ایک شہر میں مستقل نہیں رہ پائے کبھی سیالکوٹ، کبھی کوئٹہ، کبھی لاہور، کبھی مشرقی پاکستان. مجھے باقی سب جگہیں تو دھندلی دھندلی یاد ہیں مگر مشرقی پاکستان میں اپنا قیام شاید کبھی نہ بھلا سکوں جب ایک سفید داڑھی والا شخص اپنی کم عمر حاملہ بیوی کے لیے مدد ڈھونڈ رہا تھا. پاپا نے اس سے تفصیلات پوچھیں تو پتا چلا وہ دس ماہ کی حاملہ ہے مگر اسے کہیں بھی زچگی کی سہولت میسر نہیں آئی، اس شخص کا لہجہ اور چہرہ مجھے نہیں بھولتا جہاں وہ ناامیدی واضح نظر آرہی تھی کہ اس کی بیوی بچ نہیں سکے کی.

بچپن انہی تجربات کے  درمیان گزرا جہاں ایک طرف والد ہمیں ہر نا انصافی کے سامنے ڈٹنا سکھاتے تھے تو والدہ کی کوشش ہوتی تھی کہ ہم فرمانبردار، ہر مسئلے میں خاموشی سے قربانی دینے والی مکمل مشرقی لڑکیاں بنیں. لڑکپن شروع ہوا تو ایک بڑی تبدیلی یہ آئی کہ میرا داخلہ بورڈنگ اسکول میں ہوا. ایک طرف ملنے والی آزادی بہت پر لطف تھی مگر ساتھ ہی اپنی شخصیت اور شناخت کی کھوج بھی تھی. یہ عمر وہ ہوتی ہے جب ہم بچے نہیں رہتے مگر ہمیں کوئی بالغ بھی نہیں سمجھتا. دوسری طرف میری ذاتی شناخت کا سوال بھی تھا، پڑھنے کے لیے میں مغربی ملک میں آئی تھی مگر میرا تعلق وہاں سے نہیں تھا، مگر میرا تعلق ہندوستان سے بھی نہیں تھا پاکستان اس وقت دنیا کے نقشے پہ نیا نیا تھا مگر ایک اور بات جو مجھے کھٹکتی تھی وہ عوام اور خواص کا فرق، مجھے اپنی جڑیں کہاں تلاش کرنی ہیں پاکستان کے خواص میں جہاں کی میں سمجھی جاتی ہوں یا اس عوام کی جو عام ہے مگر اکثریت اسی کی ہے، جو تقسیم سے متاثر ہونے والا بنیادی طبقہ ہے. مجھے اندازہ ہے کہ میرا لڑکپن ناصرف میرے لیے بلکہ میرے والدین کے لیے بھی مشکل تھا. زندگی آگے بڑھی، ایک مغربی ملک میں ہی شادی ہوئی شادی کے بعد زندگی بہت معمول کے مطابق گزر رہی تھی. اولاد کوئی نہیں تھی کیوں کہ میرا ماننا تھا کہ دنیا کا ہر ضرورت مند بچہ میری اولاد ہے. جسے میں اپنی مامتا دے سکتی ہوں. اور شاید کہیں وہ بچپن سے دماغ میں بیٹھا کھنکھجورا بھی تھا. میں نے اپنی تمام تر توانائیاں دنیا کے مشکلات میں پھنسے بچوں کے لیے وقف کردیں. تعلیمی اعتبار سے میں ایک ماہر علم بشریات ہوں مگر میں نے اپنے والد کو جنگی قیدی بنتے اور اس سے ان کی زندگی متاثر ہوتے دیکھی ہے. میرے والد جنگ کے ان عقوبت خانوں میں رہے جہاں زخمی تو تھے مگر ان کے علاج کے لیے ادویات نہیں تھیں. انہوں نے وہ تکلیف سہی جب لوگ ان کے پاس یہ امید لے کر آتے تھے کہ وہ مسیحا ہیں اور اس زخمی کو بچا لیں گے مگر وہ نہ بچا پاتے. وہ اپنی استعداد کی حد تک اپنی ذمہ داری بھی نبھاتے مگر کچھ جگہ مجبور تھے. 4 سال انہوں نے جاپان کے عقوبت خانے میں قیدی کے طور پہ گزارے اور جنگ کا بدترین تحفہ پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس اورڈر ساتھ لائے. اس زمانے میں اسے وار شاک کہا جاتا تھا مگر کوئی مناسب علاج نہیں تھا میں نے ساری زندگی اپنے والد کو اس ٹرامہ سے جھگڑتے دیکھا. مجھے پاکستان سے تو نوجوانی میں ہی تعلیم کے لیے باہر جانا پڑا مگر عالمی سطح پہ مسائل دیکھ کر اور خاص طور سی ان مسائل کے بارے میں پڑھ کر صحیح طرح اندازہ ہوا. فلسطین، یمن، عراق، کشمیر، شام اور وہاں سسکتے انسان جنہیں مسلمان کہہ کر عالمی تنظیمیں نظر انداز کرتی آرہی ہیں.

تعلیم کے سلسلے میں میرا کئی افراد سے واسطہ پڑا جو میرے والد کی طرح جنگ کے صدمے سے نبرد آزما تھے. مجھے قریب سے پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس اورڈر کی علامات دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا. میں نے جانا کہ ذہنی صدمہ ہمارے جسم اور ذہن کو کیسے ایک ساتھ متاثر کرتا ہے. کئی برس نفسیاتی علاج کی مائنڈ باڈی تکنیک کا مشاہدہ کیا. جیلوں میں موجود قیدیوں کے ساتھ وقت گزارا جو بچپن کے حادثات اور صدمات کے زیر اثر مجرم بننے پہ مجبور ہوجاتے تھے. یہیں سے ٹرامہ بسٹنگ ٹیکنیک پہ کام کی شروعات کی. مجھے دسیوں سال لگ گئے ایک ایسی تکنیک بنانے میں جو کم وقت میں جلد سے جلد صدمے سے متاثرہ شخص کو عام زندگی کی طرف واپس لے آتی ہے. اب تک میں دنیا بھر میں اپنی اس تکنیک سے سینکڑوں نفسیاتی معالجین کی تربیت کر چکی ہوں جو کہ بحیثیت ٹرینر آگے دوسرے لوگوں کو یہ تکنیک سکھا رہے ہیں. میرا اپنا ذاتی وقت دنیا بھر میں وسائل کی کمی کا شکار اور جنگ زدہ افراد کو اس تکنیک کے ذریعے صدمے سے نکالنے میں گزرتا ہے. میری کوشش ہوتی ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ اس تکنیک سے لوگوں کو فائدہ پہنچا سکوں. میری زیادہ سے زیادہ بس اتنی گزارش یہ ہوتی ہے کہ میری آنے جانے کی ذمہ داری لے لی جائے. اور جب مجھے اپنے ملک پاکستان آنا ہو تو یہ بھی میری ذاتی ذمہ داری ہوتی ہے. وہ سندھ کا کوئی گاؤں ہو یا گلگت کی وادی پنجاب ہو یا بلوچستان مجھے جب جہاں بلایا جاتا ہے وہاں بنا کسی پیسوں کے میں نا صرف پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس کا علاج کرتی ہوں بلکہ لوگوں کو یہ تکنیک سکھا کر اپنی مدد آپ کا قابل بناتی ہوں.


میں نے زندگی سے بہت کچھ سیکھا اور سیکھ رہی ہوں اور اس کے چند سبق میرے لیے بہت اہم ہیں اور انہی اسباق نے میری زندگی کا مقصد چننے میں مدد کی. اگر کوئی ایک نوجوان بھی میری زندگی سے اپنی زندگی کے لیے کوئی بامعنی مقصد سیکھ جائے تو میری محنت کا پھل سمجھیں اسی دنیا میں مل گیا.

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ بائیو گرافی سیو دی اینجلز اینڈ فئیریز کی جانب سے پیش کی جارہی ہے. “سیو دی اینجلز اینڈ فئیریز” بچوں کے مسائل پہ کام کرنے والی فلاحی تنظیم ہے ( محتاط رہیں محفوظ رہیں)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply