کتھا چار جنموں کی۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط40

ا ردو کی ”نئی بستیاں“  ،کچھ مفروضات،کچھ حقائق، کچھ توقعات!

’اردو کی نئی بستیاں“ اصطلاح کے طور پر ۱۹۹۷ء کے لگ بھگ راقم الحروف نے ”کتاب نما“ دہلی کے مہمان اداریے میں پہلی بار استعمال کی۔ ۱؎ اس سے مراد بیرون و طن بسے ہوئے قلمکاروں اور اس diaspora سے تھی، جو اردو بولتے ہیں یا جو اردو کو اپنی تہذیب کی زبان تسلیم کرتے ہیں۔ اب یہ اصطلاح عموماً انگلینڈ اور شمالی امریکا کے دونوں ملکوں کے بارے میں استعمال کی جاتی ہے۔
’کتاب نما‘ کے اداریے میں، اس اصطلاح کی ایک خاص معنوی جہت کے باوجود، میرا عندیہ یہ تھا (اور اس کے ثبوت میں اعداد و شمار، سروے کی رپورٹوں کے خلاصے پیش کیے گئے تھے) کہ اردو کی ان نام نہاد ’بستیوں‘، بطور خاص امریکا میں اردو کا مستقبل اگر تاریک نہیں ہے تو روشن بھی نہیں ہے۔ تھیسس یہ تھا کہ پچاس یا اس سے اوپر کی عمر کے اردو خواندہ لوگ، جو اپنے وطن میں پیدا ہوئے، رہتی سانسوں تک اردو بولتے رہیں گے، حتی الوسع لکھتے رہیں گے، لیکن نئی پود جو ’نئی بستیوں‘ میں پیدا ہوئی ہے، شاذ و نادر ہی اردو سیکھ پائے گی، اور بیشک دو یا تین نسلوں تک میزبان ملکوں کی گوری اکثریت میں مدغم ہونے سے خود کو بچائے رکھے، لیکن نصف صدی تک یہ بھی محال ہو جائے گا۔ میں نے یہ امر بھی نشان زد کیا تھاکہ بر صغیر سے مغرب کے ملکوں کو ہجرت ایک عارضی phenomenon ہے اور آج سے دس برس پہلے ہی آثار یہ ظاہر کر رہے تھے کہ اس کی رفتار دھیمی پڑتی جائے گی۔ Checks and Balances تو پہلے بھی موجود تھے(اور دن بدن سخت کیے جا رہے تھے) لیکن ’ناین الیون‘ کے بعد تو یہ رفتار (خصوصی طور پر شمالی امریکا میں) پاکستان کے حوالے سے اور 1980ء کی بنیادی تاریخ کے تناظر میں صرف آٹھ فیصد ۱؎ رہ گئی ہے۔ نئے خون کی transfusion کے بغیر اب پرانے خون کی recycling ہی ممکن ہے۔
میں نے تحریر کیا تھا کہ جونہی تازہ خون کی در آمد کے سوتے سوکھنے شروع ہو جائیں گے، اردو بولنے یا لکھنے کے تناظر میں صرف بڑے بوڑھے ہی (جو دن بدن زیادہ بوڑھے ہوتے جائیں گے) اس سے منسلک رہیں گے اور ایک دن ایسا آئے گا، جب اردو صرف گھر میں بولی جانے والی زبان ہی رہ جائے گی۔ اس مسئلے کے حل کے لیے میں نے کچھ تجاویز بھی پیش کی تھیں۔ مثلاً یہ کہ کاؤنٹی (سرکاری) اسکولوں کی حد تک (عیسائی انتظامیہ کے اسکولوں کے قواعد کچھ مختلف ہوتے ہیں)اس بات کویقینی بنایا جائے کہ اگر کسی اسکول میں دو طلبہ بھی اردو کو اختیاری مضمون کے طور پر لینے کی پیشکش کریں، تو ان کے لیے ٹیچر مہیا کیا جائے۔ کاؤنٹی لائبریریوں میں اردو کتب کی خرید کو حکماً لازمی قرار دیے جانے کے بارے میں بھی میری ا یک تجویز تھی۔ اردو کے لیے پرائیویٹ اداروں کے زیر اہتمام سنڈے اسکول، ایوننگ اسکول اور Summer Schools کا انتظام کرنے کی تجویز بھی میں نے پیش کی تھی۔ ۳؎

Elementary یعنی ابتدائی (پرائمری) سطح
سب سے اہم سطح ایلیمینٹری یا پرائمری اسکول کی ہے جس میں بچہ پانچ یا چھ  برس کی عمر میں پہنچتا ہے۔ اس سے پہلے”کنڈر گارٹن“ (Kinder Garten) یا ”پری ایلیمینٹری Pre-Elementary اسکول نما کھیل گھروں میں اس کی ذہنی اور جسمانی تربیت ہوتی ہے، لیکن وہاں Audio-Visual طور طریقوں سے بچے کو تعلیم کم اور تربیت زیادہ دی جاتی ہے۔ ایلیمنٹری اسکول تک پہنچتے ہی اسے درجہ بدرجہ، ایک نپے تُلے time bound پیمانے کے تحت انگریزی ابجد، آسان حساب اور General Knowledgeکے کورسز سے گزارا جاتا ہے۔
اس سطح پر اگر اردو کی تعلیم ہو بھی تو کیسے ہو؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے میں نے حتےٰ المقدور کوشش کی ہے۔ ۱۹۸۷ء میں جب میں ساؤتھ ایسٹرن یونیورسٹی کے انگریزی شعبے کا سر براہ تھا، ڈاکٹر تھامس گرے کی کرمفرمائی سے ایسٹرن اسٹدیز سنٹر سے ایک پراجیکٹ کے تین میں سے ایک ذیلی پروگرام کے تحت اپنے credit اکٹھے کرنے کے لیے میں نے دو سینئر لیول کے طلبہ کو مختلف کاؤنٹی اسکولوں کے  ریکارڈ سے پاکستانی اور اردو اسپیکنگ ہندوستانی مسلم بچوں کے داخلہ فارموں کی پڑتال کی ہدایت کی۔ کاؤنٹی سپروائزر کی اجازت کے بعد انہیں یہ  کام کرنے میں تین ہفتے لگے۔مقصد یہ تھا کہ یہ پتہ لگایا جائے کہ کاؤنٹی اسکولوں میں اس سطح پر اگر پانچ بچے کوئی بھی زبان بطور اختیاری مضمون پڑھنے کے لیے اپنی رضامندی ظاہر کریں، تو کاؤنٹی کو فوری طور پر ایک جزوقتی ٹیچر کا انتظام کرنا پڑتا ہے، تو کیا وجہ ہے کہ گذشتہ کئی برسوں سے کوئی تقرری بھی عمل میں نہیں لائی گئی۔ کیا اس صورت حال کی ذمہ داری اسکولوں کے پرنسپلوں کی ہے، کاؤنٹی کے صدر دفتر کی ہے، یا بچوں کے والدین کی ہے؟
جو نتائج سامنے آئے وہ بے حدافسوسناک تھے۔ ۴؎
سب داخلہ فارم انگریزی میں تھے لیکن یہ سہولیت دی گئی تھی کہ اگر والدین انگریزی نہیں جانتے تو ان کے لیے متعلقہ زبان کا مترجم یا interpreterمہّیا کیا جائے گا۔صرف چند لوگوں کو ہی اس کی ضرورت پیش آئی، کیونکہ عام طور پر بچے کے ساتھ گھر کا کوئی انگریزی خواندہ فرد   ضرور آیا تھا۔ نام، والدہ کا نام (امریکا میں والد کا نام ضروری نہیں سمجھا جاتا)، پیدائش کی تاریخ، جگہ، سرٹیفیکیٹ وغیرہ کا اندراج کرنے کے بعد مادری زبان کا کالم تھا۔ اس میں تقریباً سبھی پاکستانی والدین نے ’اردو‘ لکھنا مناسب سمجھا، چہ آنکہ نصف سے زیادہ کنبوں کی مادری زبان پنجابی تھی۔ اس کے بعد دوسرے، تیسرے یا چوتھے درجے سے بتدریج شروع ہونے والے ایک ایک اختیاری مضمون کا کالم زبان کے زمرے میں تھا۔ ان زبانوں کی فہرست میں کوریائی، ہسپانوی، ویت نامی،چینی، جاپانی، بنگلہ، ہندی، اردو اور عربی شامل تھیں۔ ہمارے اسکالروں نے وہ سب فارم کمپیوٹر میں الگ کر لیے، جن میں والدین نے مادری زبان کے کالم میں اردو کا اندراج کیا تھا۔
چونکہ کوریائی اور ہسپانوی زبانوں کے بعد زیادو تعداد ہندی اور اردو بطور مادری زبان ڈیکلیئر کرنے والوں کی تھی، اس لیے انہیں اب اختیاری مضمون کے کالم میں اثبات کا نشان، یعنی صحیح کا مارک، یا نفی کا نشان یعنی × لگانا تھا۔ اردو کے معاملے میں تقریباً سبھی نے ’کراس‘ یعنی نفی کا نشان لگایا تھا، جو ایک حیرت انگیز امر تھا، یعنی والدین یہ ضروری نہیں سمجھتے تھے کہ ان کا بچہ یا بچی اسکول میں اردو بطور اختیاری مضمون پڑھے۔ (ہندی کے نام زیر تفتیش نہیں تھے، لیکن ان میں سے کچھ نے ’ہاں‘ کا نشان لگایا تھا۔)

جن بچوں کے والدین نے داخلہ فارم بھرے ہوئے اردو یا ہندی کے اختیاری مضمون کے سامنے کراس یعنی نفی کا نشان لگایا تھا، ان کے لیے اگلا کالم بھرنا ضروری تھا۔ اس کالم میں دو سوالوں کے جواب دینے تھے۔ جواب انگریزی، ہندی یا اردو میں لکھے جا سکتے تھے۔
سوال نمبر ایک۔کیا وجہ ہے کہ آپ اپنے بچے کو اپنی مادری زبان کی تعلیم بھی نہیں دینا چاہتے جب کہ یہ آپ کے ملک کی قومی زبان بھی ہے؟
سوال نمبر دو۔ اگر آپ اسے اسکول میں اس زبان کا ابجد سیکھنے کی سہولیت سے انکار کریں گے، تو کیا وہ اپنی تہذیبی یا ثقافتی بنیادوں سے کٹ کر نہیں کتھا چارہو جائے گا؟)اس سوال کا جواب لکھنا یا نہ لکھنا درخواست د ہندہ کی مرضی پر چھوڑ دیا گیاتھا۔
اعداد و شمار یہ ہیں۔1997ء سے 2003ء تک کاؤنٹی کے اسکولوں میں پرا ئمری سطح پر دو ہزار سے کچھ زیادہ طلبہ اور طالبات نے داخلہ لیا، جن کے داخلہ فارم میں مادری زبان کے خانے میں ”اردو“ تحریر تھا۔ سوائے صرف دس طالبات کے (طلبہ نہیں!) باقی سب نے اختیاری مضمون کے طور پر اردو کے سامنے کراس کا نشان لگا دیا تھا۔ چونکہ سوال نمبر ایک کا جواب لکھنا ضروری تھا، اس لیے جو جوابات لکھے گئے (جو کہ زیادہ تر والدین نے اچھی اور فصیح اردو میں لکھے تھے)، ان میں تقریباً سبھی نے ایمانداری سے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ اردو کی تعلیم ان کے بچوں کے اچھے مستقبل کی گارنٹی نہیں ہے، بلکہ اس میں حارج ہو گی، کیونکہ اردو پڑھنا لکھنا تو وہ گھر میں بھی سیکھ سکتے ہیں، جب کہ یہی وقت اگر وہ کوئی اور زبان (مثلاً ہسپانوی، جو اب امریکا کی دوسری بڑی زبان کے طور پر ابھری ہے) سیکھنے میں لگائیں تو انہیں فائدہ ہو سکتا ہے۔ Montgomery County, Maryland کے تین سو ایلیمینٹری اسکولوں میں سے کسی ایک اسکول میں بھی پانچ سے زیادہ بچے اردو سیکھنے کے لیے موجود نہیں تھے، اس لیے ایک بھی جزوقتی ٹیچر کی تقرری عمل میں نہیں لائی گئی۔ ۵؎

راقم الحروف کی رہنمائی میں جب اردو کے معروف نقاد ڈاکٹر احمد سہیل اپنی ڈ اکٹریٹ پر کام کر رہے تھے تو انہیں Pr-Doctorate requirement کے طور پر ایک پراجیکٹ دیا گیا تھا۔۶؎ جس میں واشنگٹن ڈی سی سے ملحقہ دو کاؤنٹیوں، یعنی ورجنیا کی ArlingtonCounty اور میری لینڈ کیMontgomery County میں پاکستان سے آئے ہوئے کنبوں کی ایک Demographic Survey کی جانی تھی۔ حوالہ جاتی اعداد و شمار، آمدنی، پاکستان سے صوبجاتی تعلق، پیشہ، بچوں کی تعداد وغیرہ کے بارے میں تھے۔ ایک حیران کن نتیجہ جو ظاہر ہوا، وہ یہ تھا۔ ۶۰ (ساٹھ)فیصد کنبے پنجاب سے آئے تھے، جن کی فی کنبہ آمدنی بیس ہزار سے تیس ہزار ڈالر سالانہ تھی اور بچوں کی تعداد تین یا اس سے زیادہ تھی۔ مائیں house wives تھیں، یعنی نوکری یا کاروبار نہیں کرتی تھیں۔ 31.5 % وہ تھے جنہیں ’اردو اسپیکنگ‘کہا جاتا ہے، اور یہ وہ کنبے تھے جو انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان (کراچی یا اس کے نواح) میں گئے تھے۔ اب ان کی دوسری یا تیسری نسل پروان چڑھ رہی تھی۔ ان کی فی کنبہ آمدنی پچاس ہزار یا اس سے زیادہ تھی۔ بچے بھی دو یا اس سے کم تھے اور مائیں تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے کام کرتی تھیں۔ باقی کے ساڑھے سات فیصد سندھ، صوبہ سرحد یا بلوچستان سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ پیشے کے اعتبار سے پنجابی نژاد بیشتر ٹیکسی ڈرائیور، موٹر مکینک یا خردہ فروش تھے جب کہ اردو اسپیکنگ ڈاکٹر، انجینیئر، ٹیچر، وغیرہ تھے، یعنی اونچے درجے کے پیشوں سے تعلق رکھتے تھے۔

ایک بات جو دونوں میں مشترک تھی وہ اردو کے حوالے سے اپنے بچوں کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں ان کا کلیتاً منفی رویہ تھا۔ کوئی نہیں چاہتا تھا کہ Elementary levelپر اس کا بچہ اسکول میں اردو اختیاری مضمون کے طور پر پڑھے۔ یعنی انہیں اپنے بچے کا اردو ابجد سے نا بلد رہنا گوارا تھا۔۔وکیلوں انجینیئروں، ڈاکٹروں کے بچے، یعنی اردو اسپیکنگ والدین کے بچے جو گھر میں یقینناً اردو بولتے ہوں گے، اردو کا ابجد نہیں سیکھنا چاہتے تھے۔ دوسری طرف پنجابی، پٹھان یا سندھی والدین کے بچے جو گھروں میں اپنی مادری زبان بولتے تھے، اگر اسکول  میں اردو ابجد نہیں پڑھیں گے توا ردو لکھنا تو در کنار، اردو بولنا بھی ایک خاص حد تک سیکھیں گے، یہ بات صاف ظاہر تھی، لیکن اس بات کا کوئی فکر ان کے والدین کو نہیں تھا۔

ثانوی (سیکنڈری) اورہائی اسکول
غور طلب بات یہ ہے کہ یہی بچے جب پرائمری اسکول سے آگے پہنچیں گے تو انہیں اردو بطور مضمون کی کیا ضرورت رہ جائے گی؟ اس لیے کاؤنٹی کے یا کیتھولک گرجا گھروں کی طرف سے چلائے گئے اسکولوں میں اردو کی تعلیم کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔ فر فر انگریزی بولنے کی استبداد رکھنا ہی ان بچوں کی کامیابی کی دلیل تسلیم کرتے ہوئے ان کے والدین کبھی انہیں یہ تلقین نہیں کرتے کہ اپنے ہم وطن بچوں کے ساتھ گھر میں، گلی میں، اسکول کے کھیل کود کے میدان میں یااسکول بس میں اردو میں گفتگو کریں۔ بلکہ سماجی محفلوں، مثلاً سالگرہ کی پارٹیوں یاثقافتی اور مذہبی get togethers میں والدین اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ ان کے بچے امریکنوں کی طرح ہی، اسی لہجے میں،انگریزی بولنے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔

(ایک)۔کاؤنٹی کے ۳۷ اسکولوں میں پاکستانی والدین کے وہ بچے، جو امریکا میں پیدا ہوئے، تعداد میں ۱۹۲ تھے۔ ان میں سے کسی نے بھی اردو بطور اختیاری مضمون لاینے کی خواہش ظاہر نہیں کی تھی۔ Liberal Arts & Language Group of Subjects میں دوسری زبان کے طور پر ہسپانوی زبان کا انتخاب ۱۸طلبہ نے کیا تھا، جب کہ باقی ماندہ لڑکے اور لڑکیاں انگریزی پر ہی قانع اور شاکر رہے تھے۔(اختیاری مضمون کے تین کریڈٹ گنوا کر بھی انہیں کوئی افسوس نہیں تھا۔) اس لیے کاؤنٹی کو یہ تردد کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ پانچ یا اس سے زیادہ بچوں کے لیے جز وقتی ٹیچر کی تقرری عمل میں لا ۷؎

(دو)۔ ایک سوالنامے کے جواب میں یہ بھی ظاہر ہوا کہ اسلامک سوسائٹی کی طرف سے مساجد سے ملحق سنڈے اسکول یا Summer Camp Schools کے پروگراموں میں کچھ بچوں نے حصہ لیا، لیکن ان میں صرف لڑکے ہی شامل ہوئے، کیونکہ مساجد کی کلاسوں میں لڑکے لڑکیوں کو اکٹھا پڑھانا مناسب نہیں سمجھا گیا۔

(تین)۔اسی سوالنامے سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ اسلامک سوسائٹی کی طرف سے چلائے گئے ان پروگراموں سے پڑھ کر نکلے ہوئے ظلبہ نے تھوڑی بہت شد بد اردو ابجد میں تو حاصل کی لیکن اس قابل نہیں ہو سکے کہ وہ کوئی کتاب یا اردو رسالہ پڑھ سکیں۔ یہ مہارت ان کی دسترس سے دور رہی۔ پاکستان میں اپنے دادا دادی یا نانا نانی کو اردو میں خط لکھنے کی خواہش رکھتے ہوئے بھی گنتی کے کچھ بچے ہی یہ مہارت حاصل کر سکے،
اور وہ بھی بہت جلد اس کو بھول گئے۔ ایک سوال کے جواب میں ایک لڑکے نے لکھا: ”مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ہمارے Grand Parents کس ملک میں بستے ہیں جہاں زبان بھی Right to Left لکھی جاتی ہے۔“ (ظاہر ہے، وہ ان دو الفاظ کا اردو نعم البدل نہیں تلاش کر سکا!) ۸؎

اوپر دی گئی بحث سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ کچی عمر کے لڑکے لڑکیوں کے اردو سے نا بلد رہ جانے میں ان کا اپنا قصور اتنا نہیں ہے، جتنا ان کے والدین کا ہے۔

انگلستان کے بارے میں مجھے کچھ زیادہ علم نہیں ہے، لیکن شمالی امریکا، یعنی امریکا اور کینیڈا کے بارے میں دس برس پہلے کی گئیں وہ سب پیشینگویاں اب صحیح ثابت ہو رہی ہیں جو میں نے ۱۹۹۷ کے اپنے مہمان اداریے میں کی تھیں۔آگے چل کر کچھ اعداد و شمار کے حوالوں سے اس بات کا ثبوت پیش کیا جائے گا کہ اردو کی تعلیم کے بارے میں صورت حال یا تو بعینہ وہی ہے جو دس برس پہلے تھی۔ بر صغیر سے تازہ نو واردگان کی جو کھیپ امریکا  اور کینیڈا میں اب پہنچ رہی ہے، اس میں ستّر سے اسّی فیصد کمپیوٹر سافٹ ویئر کے نوجوان ہیں، جن میں سے بیشتر کا تعلق بنگلور اور حیدرآباد (انڈیا) سے ہے۔ ان نوجوانوں کی مادری زبان تلیگو ہے۔ حیدرآباد کے مسلم نوجوان بھی اردو نہیں جانتے، کیونکہ وہ انگریزی میڈیم اسکولوں اور اس کے بعد کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی انسٹی  ٹیوٹس میں پڑھے ہوئے ہیں۔ (پاکستان سے شاذ و نادر ہی س زمرے میں کچھ نوجوان آئے ہوں۔) اس لیے اردو کے حوالے سے ان نو واردگان سے کوئی امید وابستہ نہیں کی جا سکتی۔ باقی کے دس سے بیس فی صد تارکین وطن انڈیا سے یا پاکستان سے ا ن لوگوں کی ہے، جو Dependents Catagory میں آتے ہیں۔ ان میں کچھ منکوحہ بیویاں، بوڑھے والدین ہیں یا وہا ں چھوڑے ہوئے بچے ہیں۔ اس زمرے میں بھی اردو جاننے والے پاکستانی باشندوں کی نسبت اردو نہ جاننے والے بھارتی باشندوں کی تعداد پانچ سے دس گنا تک ہے۔

یونیورسٹیاں اور کالج!

واشنگٹن ڈی سی کی بارہ یونیورسٹیوں اور اس امریکا کے اس دارالخلافے کے گرد و نواح میں ورجنیا اور میری لینڈ کے علاقوں میں باہر کی یونیورسٹیوں کے مقامی کیمپسوں اور کمیونٹی کالجوں کی تعداد تین درجن سے کچھ اوپر ہے۔ ان میں بھی اردو کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔۔Freshman اور جونیئر سطحوں پر جہاں تین تین کریڈٹ کے ہسپانوی، فرینچ، اور اطالوی زبانوں کے کورس موجود ہیں، وہاں اردو یا  ہندی کا کوئی کورس نہیں ہے۔ کوریائی، ویت نامی اور چینی زبانوں کی مثال اظہر من الشمس ہے۔ تعداد میں ان language groups کے طلبہ سب سے زیادہ ہیں لیکن یونیورسٹیوں کا ایشیائی زبانوں سے سلوک سوتیلی ماں کا سا ہے۔ بہر حال یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے، کہ طلبہ خود ہی اگر اس بات پر زور نہ دیں اور ان کے والدین اگر اس مقصد کے لیے اجتماعی طور پر کاؤنٹی اور اسٹیٹ کی سطح پر سیاسی طاقت کا ستعمال نہ کریں، تو کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

Senior یعنی انڈر گریجویٹ سطحوں پر بھی صورت حال مختلف نہیں ہے۔ البتہ مجھ جیسے چند استاد انگریزی کے کورسز کے دائرہ کار کے اندر رہ کر ہی کچھ ایسے کورسز کی Curriculum planning اور Course Designing کرتے رہے ہیں، جن میں تقابلی ادب کا عنصر در آئے اور امریکی شعراء اور نثر نگاروں کی تخلیقات کے بالمقابل اپنی ترجمہ شدہ حالت میں اردو اور ہندی اہل قلم کی تخلیقات بھی شامل کر د ی جائیں۔ ظاہر ہے، اس سے طلبہ میرؔ، غالبؔ یا فی زمانہ فیضؔ اور راشدؔکے ناموں سے یا ان کی کچھ تخلیقات سے واقف تو ضرور ہو جائیں گے، لیکن اردو زبان یا اس کا رسم الخط کس بلا کا نام ہے، اس سے ان کی کوئی واقفیت نہیں ہو گی۔

بسیار دقت اور کوششوں کے بعد بالٹی مور میں Department of Eastern Languages قائم ہوا، لیکن اس میں بھی آج تک اردو کا خانہ خالی ہے۔ وجہ؟ طلبہ کا نہ ہونا! جارج ٹاؤن یونیورسٹی، واشنگٹن ڈی سی میں ان دنوں ہی ایک بے حد دلچسپ کورس ڈاکٹر معظم صدیقی نے پڑھانا شروع کیا ہے۔ ڈاکٹر صدیقی حیدرآباد (دکن) سے تعلق رکھتے ہیں اور دس بارہ ایشیائی زبانیں جانتے ہیں۔ اس کورس کا اردو زبان یا اس کے رسم الخط سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ جز وقتی کورس بھی کب تک چلے گا؟ واللہ اعلمُ بالصّواب!

میں خود تو اب ۸۴ برس کی عمر میں یونیورسٹی آف دی ڈسٹرکٹ آف کولمبیا، واشنگٹن ڈی سی، سے فارغ ہو کر اپنی خرابئ صحت کی بنا پر دارلخلافہ کی ایک نواحی بستی میں اقامت پذیر ہوں اور بہت کم باہر نکلتا ہوں، لیکن یہ میرے علم میں ہے کہ بہ نسبت واشنگٹن ڈی سی امریکا کے کچھ دیگر بڑے شہروں میں اردو کے حوالے سے یونیورسٹیوں کی سطح پر حالات قدرے بہتر ہیں۔ ڈاکٹریٹ کی سطح پر تقابلی ادب کے شعبے میں اب وہ موضوعات بھی دیے جا رہے ہیں جن کے بارے میں پہلے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا ۔ ان میں مشرقی علوم یا کلاسیکی ادوار کے شعراء اور اسی دور کے مغربی مفکر یا شعراء کو کسی خاص نقطہء نظر سے  دیکھ کر تقابلی موازنے کی غربال سے چھانا جاتا ہے۔ میں نے خود اپنی ایک طالبہ کو یہ موضوع دیا تھا: A Comparative Study of Humanistic Values in the Poetry of Khalil Jibran and Rabindra Nath Tagore.
اس موضوع پراس کی ڈاکٹریٹ ۱۹۹۲ء میں مکمل ہوئی۔
اس کے علاوہ مغربی ادب کے کچھ حصص جامعاتی سطح پر درس و تدریس میں مصروف اردو دان اساتذہ نے مغربی زبانوں سے اردو میں منتقل کیے ہیں۔ یہ ایک نیک فال ہے۔ استنبول (ترکی) یونیورسٹی کے فیکلٹی آف لینگویجز میں اردو کے سر براہ پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوق اَر نے ترکی کے جدید شعری ادب کا ترجمہ کچھ برس پہلے پیش کیا ہے۔ اس کتاب کی تیاری کے دوران شعرا کے انتخاب، ان کے کلام کی نشاندہی اور تاریخی ادوار کی لسّانیاتی اور ثقافتی سطحوں پر تقسیم میں راقم الحروف کا فاضل مترجم کے ساتھ رابطہ رہا۔ اس کا دیباچہ بھی انگریزی میں راقم الحروف کا ہی تحریر کردہ ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں تو متعدد یونیورسٹیوں میں اب تقابلی ادب کے شعبہ جات کام ہو رہاے ہیں اور راقم الحروف نے ان کی curriculum planning & Course designing میں خاطر خواہ امداد دی ہے۔ محترمہ صدف مرزا، کوپن ہیگن (ڈنمارک) ان دنوں ڈینِش ادب کی تاریخ اردو میں رقم کرچکی ہیں۔ یہ اردو میں اپنی قسم کی پہلی کوشش ہے، جس میں سکینڈینیوین اساطیر پر مبنی داستانوں اور قصص کا سینہ بہ سینہ حفظ کیا جانے والا شعری ادب Oral Literature or “Orature” سے لے کر نورس قدیم Classical Norse سے شروع کرتے ہوئے عہد ِ حاضر تک یورپ کے اس خطّے کے ادب کی تاریخ اردو میں دستیاب ہو سکے گی۔ اس پراجیکٹ میں محترمہ صدف مرزا مجھ سے رہنمائی لیتی ہی ہیں اوراس کا تصحیح شدہ مسودہ لگ بھگ پورے کا پورا میرے کمپیوٹر میں محفوظ ہے۔ امید ہے کہ اس ضخیم کتاب کا خاطر خواہ استقبال کیا جائے گا کہ اس پر محترمہ صدف مرزا نے کئی برسوں تک کام کیا ہے۔

”نئی بستیوں“ میں اردو کا مستقبل

اس مختصر مضمون میں راقم الحروف نے جو نکتے اٹھائے ہیں، ان کی بنا پر کچھ نتائج اخذ کیئے جا سکتے ہیں:۔

(ایک) آنے والے بیس پچیس برسوں میں امریکا اور کینیڈا میں پیدا ہو چکے یا پیدا ہونے والے بچے اردو سے نا بلد محض ہوں گے۔ رسم الخط میں مہارت تو بالکل نہیں ہو گی، البتہ خانگی یا سماجی حلقوں میں اردو کو بول چال کی زبان کے طور پر ایسے ہی استعمال کیا جائے گا کہ اس میں نصف سے زیادہ الفاظ اور پورے پورے جملے انگریزی کے ہوں گے۔
(دو) اگر استنبول یونیورسٹی میں اپنایا گیا چلن امریکی یا کینیڈین یونیورسٹیا ں اپنا سکیں تو یہ بہتر ہو گا۔ اس حالت میں اسکولوں کی سطح پر نہیں، بلکہ یونیورسٹی کی سطح پر اردو کے کورسز (لازمی نہیں، صرف اختیاری طور  پر) ترتیب دیے جائیں۔ ان کورسز کی دو الگ الگ شکلیں ہوں۔ ایک وہ جن میں اردو کا ابجد سیکھنا لازمی نہ ہو اور اردو ادب کے بہترین نمونے انگریزی میں پیش کیے جائیں، جن میں صنف شعر سر فہرست ہو گی۔ مختصر فکشن یعنی افسانہ بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ شعری ادب کے نمونہ جات ایسے ہوں جن سے شعرا کے فلسفہ حیات کی جھلک ملتی ہو۔اس میں کچھ خوبصورت اور بصیرت افروز واقعے بھی پیش ہو سکتے ہیں۔ اقبال نے نئی تہذیب کے بارے میں ایک شعر کہا تھا
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں : نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
اس کا انگریزی ترجمہ جو میں نے کیا تھا، وہ یہ تھا۔ Throw away this garbage outside in the street: The eggs of this new culture have turned rotten.
اس پر کمرہ جماعت میں جو لطیفہ پیدا ہوا وہ افسوسناک بھی تھا اور طربناک بھی، ۔۔۔۔
(تین)۔ اس صورت حال کا تدارک تب ہی ممکن ے جب اس طرف توجہ دی جائے کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے،
Socialogy of demographic Changeکے تحت زبان، لباس، عادات و اطوار، رہن سہن، خوراک، باصری فنون یعنیVisual Arts,خصوصی طور پر ٹیلے ویژن اور فلموں سے منسلک ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

۱”۔ کتاب نما“، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی۔ ۱۹۹۷

۲۔ حامد رزّاق چٹھہ۔ Immigration Facts & Figures After 9/11 – A Survey Report یونیورسٹی آف دی ڈسٹرکٹ آف کولمبیا۔ Fall Semster: 2005. Term Paper.(غیر مطبوعہ)

۳۔”کتاب نما“۔ ایضاً

۴۔ سپریت آنند۔Report on Teaching of Mother Tongue in Schools. 2001. District and Country Logistics, Mary Land.

۵۔ ایضاً

۶۔ (ڈاکٹر) احمد سہیل۔ Pre-Doctorate Assignment Reports: 1995. (غیر مطبوعہ)

۷۔ سپریت آنند۔ ایضاً

۸۔ ایضاً

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(صفحہ آٹھ)

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کتھا چار جنموں کی۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط40

  1. ستیہ پال آنند صاحب آپ یوں بھی قابل مبارکباد ہیں کہ آپ نے اپنی زندگی کی تمام توانائی اس بد نصیب زبان کی آبیاری میں گذار دی جس زبان کو خود اس کے جگر گوشوں نے گھروں سے باہر نکال دیا….. آپ یورپ اور امریکہ کی بات کر رہے ہیں خود ہندوستان اور پاکستان میں آج اردو کے ساتھ جو رویہ خود اردو والوں کا ہے وہ قابل بیان نہیں…. آپ کو اگر ان دونوں ملکوں میں اردو کی صورت حال کا اندازہ کرنا ہے تو ان لوگوں سے گفتگو کر کے اور ان کی تحریروں کو پڑھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں جو لوگ آئے دن امریکہ انگلینڈ اور کناڈا کا سفر اردو کے نام پر کرتے ہیں…… اس چشم کشا تحریر کے لئے مبارکباد قبول کریں

Leave a Reply