• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پیٹرز برگ میں راسپوٹین کا محل اور اس سے میری ملاقات۔۔۔۔ سلمٰی اعوان

پیٹرز برگ میں راسپوٹین کا محل اور اس سے میری ملاقات۔۔۔۔ سلمٰی اعوان

یہاں Moyka مویا کا کینال کے گدلے پانیوں کودیکھتے ہوئے زیرلب خود کلامی کے سے انداز میں تھوڑے سے ملال کی آمیزش کے رچاؤ میں گھُلے لہجے نے بے اختیار ہی کہا تھا۔
”یاراب محل دیکھنے تو میں بھی آگئی ہوں۔کیا تھا جو مہر النساء کی بات مان لیتی۔پہلے سارسکایاسلو Tsarskaye Selo دیکھ لیتے پھر یہاں یوسوپوف آجاتے۔“
پر اگلے لمحے میں نے کانوں پر ہاتھ رکھ دئیے تھے۔اٹھارویں اور اُنیسویں صدی کی طرز تعمیر کا شاہکار زارینہ کیتھرائن دی گریٹ کی شان وشوکت کے مظہر چھ سوہیکڑ رقبے پر پھیلے باغوں اور کمروں کو دیکھنے کی تو مجھے تاب نہیں تھی۔باز آئی میں۔۔۔
یوں پُشکن کے حوالے سے شہرت تھی کہ اُس نے محل سے ملحقہ سارسکا یاسلولائیسیم  سکول میں پڑھا تھا جو اب میوزیم ہے۔
اب رہا یوسوپوف۔ بڑی خصوصی شہرت کا حامل ہے یہ۔یہاں رُوسی تاریخ کے اہم کرداروں کی ریشہ دوانیوں کے تانے بانے بکھرے ہوئے ہیں۔اسکے درودیو اروں پر وہ فیصلے رقم ہیں جو بتاتے ہیں کہ قوموں اور ملکوں کی زندگیوں میں انقلاب کیوں آتے ہیں؟اُسکے تہہ خانے میں سائبیریا کے گاؤں ”پوکروسکو“ کے گریگوری راسپوٹین کے قتل کی کہانی ہے، جسے میں نے سالوں پہلے پڑھا تھا۔سن یاد نہیں۔پر اتنا یاد ہے کہ اُردو ڈائجسٹ میں لکھی گئی اس تحریر کا مرکزی کردار راسپوٹین مجھے وقت گزرنے کے باوجود کبھی نہیں بھُولاتھا۔ ایک پُرسرار تحیّر کی مانند وہ میر ی یادداشتوں میں محفوظ تھا۔
مویا کا کے کناروں کی ریلنگ سے اپنی پشت ٹکائے ہوئے کبھی سہ منزلہ پیلس کبھی پانیوں اور گاہے گاہے اردگرد کی عمارتوں کو دیکھتے ہوئے میں نے اپنے آپ سے پُو چھا تھا۔
تب راسپوٹین کو پڑھتے ہوئے کیا میں نے ایک پل کیلئے یہ سوچا تھا کہ میری زندگی میں ایکدن ایسا بھی آسکتا ہے جب میں اپنی جیتی جاگتی آنکھوں سے اُس جگہ کو دیکھوں گی جہاں وہ خبیث فطرت انسان رہتا تھا۔
تشّکر سے لبالب بھری مسکراہٹ نے میرے ہونٹوں پر بکھر کر میری نگاہوں کو نیلے آسمان کی طرف اٹھا دیا تھا۔
چوبی کندہ کاری سے سجے چھوٹے سے دروازے سے میں اندر داخل ہوئی۔ ٹکٹ چیکنگ کے مرحلے طے ہوئے۔
محل باہر سے سادہ تھا پر اندرونی آرائش غضب کی تھی۔
اسکا ہوم تھیٹر آڈیٹوریم کمال کا تھا۔
جب میں کمروں میں گھومتی پھرتی تھی۔میں نے اُس خوبصورت شہزادی کا پوٹریٹ دیکھا تھا۔جو بودئیور Boudiorتھی۔ زارینہ کی راز دار اور راسپوٹین کی بھی دست راست۔
راسپوٹین کون تھا۔
پوکروسکوکا ایک دیہاتی جسکابچپن چوریوں اور آوارہ گردیوں میں گذرا۔مختلف خانقاہوں،گر جاؤں، اُنکے پادریوں سے مذاکروں مباحثوں مناظروں اور الٹے سیدھے مخفی علوم پر دسترس سے وہ کچھ ماورائی قوتوں کا حامل ایک پیربزرگ انسان کے طور پر مشہور ہوا۔قسمت اُسے پیٹرزبرگ لے آئی جہاں اُس نے اپنی روحانی وسفلی قوتوں سے لوگوں کو متاثر کرنا شروع کردیا۔
اب کارشاہی میں اُسکا غلبہ اور سلطنت کے سیاہ و سفید کا مالک بننے کا معجزہ نکولس دوم کی نالائقیوں اور کمزوریوں کے باعث ہوا۔نکولس دوم اپنے بہادر اور جی دار باپ الیگزینڈرسوم کے برعکس بُزدل، اعتماد اور قوت فیصلہ سے محروم. تیز حکومتی فہم وفراست سے عاری اور بیوی کے اشاروں پرناچنے والا زار تھا۔شاید تربیت میں جھول تھا۔انداز جہابنانی میں کمزورتھا۔ مزاجاً وہ رُوس جیسی وسیع وعریض سلطنت کے قابل ہی نہ تھا۔
1904  میں جاپان کے ساتھ ذلت آمیز شکست، 1905 ء کی انقلابی تحریک،ملک میں کمزور سرمایہ کاری۔1914  کی پہلی جنگ عظیم میں فوج کی بے چینی غیر معیاری اسلحے پر عدم اطمینان و معیشت کی زبوں حالی، بیروزگاری اور نوکر شاہی کے رویوں نے رُوس جیسی وسیع وعریض سلطنت جس میں چلنے والی مارکسٹ تحریکیں اپنے ایجی ٹیشنوں کے ساتھ پولیس اور کو ساکوں کیلئے عذاب بنی ہوئی تھیں۔
زار شاہی کے لئے یہ سب امورلمحہ فکریہ تھے پر وہاں روم جلتا تھا اور نیر وبانسری بجاتا تھاوالی بات تھی۔
چار بیٹیوں کے بعدپیدا ہونے والا بیٹا ا لیکسی ہو موفلیا Homophilia کامریض (خون بہنے اور بند نہ ہونے کی بیماری)تھا۔جس کی بیماری نے ماں باپ دونوں کو پریشان کر رکھا تھا۔
اس پس منظر میں راسپوٹین بچے کا معالج بن کر شاہی محل میں داخل ہوتا ہے۔اسکی سامرانہ اور ساحرانہ کاوشیں بچے کو اسکے درداور تکالیف سے نجات دلانے کا باعث بنتی ہیں۔شاہی خاندان کی کمزوریوں کو آلہ کار بناکر اپنی معجزانہ چالوں سے امورمملکت پر وہ دھیرے دھیرے اپنے اثرورسوخ کوگہرا کرنے میں کا میاب ہوتا ہے۔
بودئیور Boudoir زار روس کے ایک بڑے عہدے دار کی بیٹی انتہائی حسین وجمیل طلاق یافتہ۔جھوٹے سچے عقیدت کے اظہار سے زارینہ رُوس کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ راسپوٹین اُس کے دل ودماغ پر قابض ہو کر اُسے اپنا شریک کار کر لیتا ہے۔ یوں یہ تکون ملک کا بیڑا غرق کرنے کے لئے بقیہ معروضی حالات کے ساتھ وجود میں آتی ہے۔
میں بودئیور Bourdir کے کمرے دیکھنے کیلئے سیڑھیاں چڑھتی ہوں۔کمال کی عورت تھی۔
راسپوٹین کے کمروں کا شاہانہ انداز حیران کرتا تھا۔
میں نیچے بیسمنٹ میں اُتر گئی تھی۔ نیچے بھی ایک پورا جہان تھا۔ اس لمبے چوڑے جھمیلے میں سے مجھے اپنا ہدف وہ کمرہ دیکھنا تھا جہاں اُسے اگلے جہان پہنچایا گیا تھا۔ آسٹریلوی مردوں نے رہنمائی کی۔
سیاح بہت کم تھے۔اور جو تھے وہ بڑے ہنس مُکھ سے نظر آتے تھے۔ آتے جاتے جب بھی ٹکراؤ ہوا۔ مسکراہٹوں کا تبادلہ ضروری ٹھہرا۔
شاہی زاریت پسند کو شاید اُمید تھی کہ سازشوں کے اِس سرغنہ مقدس باپ کوجڑسے اکھاڑ پھینکنے سے زار کو راہ راست پر لانا مشکل نہ ہوگا۔ مصیبت یہ بھی توتھی۔ آٹوکریسی ٹولے کے ساتھ آخری دم تک ہمیشہ اُس کے ذاتی مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ اسلام آباد کے صدارتی محل، اُن محلوں میں رہنے والوں کی کہانیوں میں سے کبھی کوئی کہانی، کوئی واقعہ کسی دروازے کسی کھڑکی کی چھوٹی موٹی درز سے باہر نکل آئے اور ہم جیسے چھوٹے موٹے لوگوں کے علم میں آ جائے تو کیسی حسرت اور کیسا دُکھ آنکھوں اور ہونٹوں سے عیاں ہوتا ہے۔ 1971 کا المیہ کتنے بڑے زخموں اورناسوروں کو اپنے دامن میں لپیٹے ہوئے ہے۔ پر کس نے سبق سیکھا۔ کسی نے نہیں۔ وہ مہیب طوفان نظر نہیں آتے جو بالاخر ایک دن سب کچھ خس و خاشاک کیطرح بہالے جاتے ہیں۔
بیسمنٹ میں بھی ایک جہاں آباد تھا۔تو میں اب اسی کمرے میں تھی جہاں وہ یوسو پوف ر اسپوٹین کو بہلا پھسلا کر لایا تھا۔یہیں کرسی پر بیٹھ کر اُس نے سفید انگوری شراب کا جام اٹھایا جس میں سی نائیڈ کا  زہرملا  ہوا  تھا۔وہ عام آدمی نہیں تھا۔آسانی سے مرنے والا۔ریوالور سے بہت ساری گولیاں خالی ہوئیں۔سر پر ضربیں لگائی گئیں پھر لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر نیوا کے پانیوں میں ڈبویا گیا۔
ایلیٹ کلاس اُ س کے قتل پر خوشیاں منا رہی تھی اور نہیں جانتی تھی کہ ایک عام آدمی کے دل میں زمانوں سے پلتا طوفان اب اُسکی آنکھوں سے نکل کر اسکے ہاتھوں میں آگیا ہے۔خونخوار آنکھوں اور مضطرب ہاتھوں میں جسے ایک خبیث کے مرنے سے نہیں پورے سسٹم کو مارنے سے دلچسپی تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply