برطانیہ کے مولوی اور جنسی ہوس

برطانیہ کے مولوی اور جنسی ہوس
طاہر یاسین طاہر
موضوع قطعی ممنوع نہیں ،البتہ آتش گیر ضرور ہے۔ کچھ عرصہ قبل" مکالمہ" پہ ہی لزبائی عشق کے حوالے سے ایک مضمون شائع ہوا تو چاروں طرف سے مبلغین نے یلغار کر دی۔ہر ایک کی تان اس بات پہ ٹوتتی کہ یہ صرف اور صرف دین سے دوری کے سبب ہے۔ جواباً میں نے "ہم جنسیت کیا ہے؟ اس کے اسباب کیا ہیں؟" کے عنوان سے دو اقساط پہ مشتمل کالم لکھا اور ہم جنسیت کی عضویاتی،نفسیاتی اور معاشرتی وجوہات پہ روشنی ڈالی تھی۔بارِ دگر یہ سوال اٹھاتا ہوں کہ ہم جنسیت یا جنسی ہوس،دین سے دوری کی ایک وجہ تو ہو سکتی ہے، مگر یہ کلی وجہ نہیں۔کیا مدارس میں طلبا کے ساتھ یہ شغل باقاعدہ نہیں فرمایا جاتا؟کیا دین کی موٹی موٹی کتابوں میں ایک اصطلاح "علت ِمشائخ "نہیں ملتی؟ کیا آئے روز ایسی خبریں شائع نہیں ہوتیں کہ طالب علم مدرسہ میں جنسی ہوس کا نشانہ بن گیا؟تو ثابت ہوا کہ جنسی ہوس دین سے دوری کا کلی سبب نہیں، یہ ایک نفیساتی اورسماجی عارضہ بھی ہے۔ جنسی ضرورت اور شے ہے، جنسی ہوس چیزِ دگر۔ضرورت اور ہوس کویکجا کر کے دیکھنے سے معاملہ سمجھ آنے کے بجائے مزید الجھ جاتا ہے۔سنجیدہ لوگ مگر بہت کم ہوتے ہیں۔ البتہ معاملے کو سطحی دیکھنے والوں اور لذت اندوز ہونے والوں کی کمی نہیں۔ یہی المیہ ہے اور غالب افراد کا رویہ بھی یہی ہے۔
مولوی کو میں کوئی فرشتہ نہیں سمجھتا،مولوی اور اس کے پیروکار بھی عام افراد سے فرشتوں ایسی روش کی توقع نہ کریں،معاشرتی حیات کی بقا اسی میں ہے۔برطانیہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں جنسی تعلیم تک دی جاتی ہے۔نائٹ کلب کھلے ہوئے ہیں اور جنسی ضروریات کی دستیابی تمام تر لوازمات کے ساتھ موجود۔اس کے باوجود مسجد و مدرسہ سے منسلک افراد کا یوں کم سن یا نو عمر طلبا و طالبات کو جنسی نیت سے چھونا یا انھیں دبائومیں لانا اخلاقی اور سماجی جرم ہے۔اہم نکتہ یہی ہے کہ برطانیہ بالخصوص اور یورپ میں بالعموم ایسے حفاظ و عام مولوی ،مسلمانوں نے بلوائے جن کی دینی ،دنیاوی اور اخلاقی تعلیم سطحی ہے۔استثنیٰ موجود ہے۔اچھا گمان رکھنا چاہیے مگر بیشتر ایسے ہی ہیں جن کے ذمے، مسجد میں اذان کہنا،امامت کروانا اور دیگر مذہبی رسومات کی ادائیگی ہے۔طلاق کروانا اور "حلالہ "نکالنا اس کے سوا کام ہے،جو مولویانہ ذوق کی جنسی تسکین کا نہایت مکروہ عمل ہے۔
نیٹ پہ جہاں گردی کر رہا تھا کہ ایک خبر نے روک لیا۔"برطانیہ کے شہر کارڈِف میں چار جواںسالہ لڑکیوں کو مسجد میں قرآن کی کلاس کے دوران جنسی طور پر چھونے والے قرآن ٹیچر کو 13 سال کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا۔برطانوی اخبار ’دی گارجین‘ کی رپورٹ کے مطابق 81 سالہ محمد حاجی صدیقی، مسجد میں طلبہ کو اپنے سامنے بٹھا کر قرآن کی تعلیم دیتے تھے، ایک دن انہوں نے بھری کلاس میں ان طالبات کو جنسی طور پر چھوا اور قرآن پڑھنے کے دوران غلطیاں کرنے پر انہیں کئی بار تھپڑ رسید کیے۔کارڈِف کراؤن کورٹ میں معاملے کی سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ محمد حاجی صدیقی ،کے پاس میٹل اور لکڑی کی بنی ہوئی اسٹِکس ہے، جو وہ بچوں کو غلطی کرنے پر سزا کے طور پر انہیں پیٹنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔
کارڈف کی مدینہ مسجد میں 30 سال سے زائد عرصے سے قرآن کی تعلیم دینے والے محمد حاجی صدیقی پر ٹرائل کے بعد جرم ثابت ہو گیا، عدالتی جیوری نے انہیں طلبہ کو مارنے پیٹنے کے 6 اور جنسی حملوں کے 8 الزامات میں مجرم پایا، جبکہ یہ واقعات 1996 سے 2006 کے درمیان پیش آئے۔رپورٹ میں مزیدکہا گیا کہ جج اسٹیفن ہوپکِنز کیو سی نے محمد حاجی صدیقی کو 13 سال کی سزا سنائی اور ان کا نام ہمیشہ کے لیے بطور "جنسی حملہ آور"رجسٹر کرنے کا حکم دیا۔محمد حاجی صدیقی کے خلاف پولیس نے 2006 میں دو لڑکیوں کی شکایت پر پہلی بار تحقیقات کا آغاز کیا تھا، تاہم حاجی صدیقی نے الزامات کو مسترد کردیا۔مزید دو لڑکیوں کی شکایت پر ان کے خلاف 2016 میں دوبارہ تحقیقات کا آغاز ہوا۔ محمد حاجی صدیقی ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے اور 1967 میں برطانیہ آنے سے قبل پاکستان میں بھی مقیم رہے"۔
مولویوں کی ذہنی پسماندگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ قرآن کی تعلیم دیتے وقت خوش شکل طلبا و طالبات کو دباو میں لانے کے لیے ان پر تشدد کرتے ہیں۔تلفظ کی ادائیگی کی معمولی غلطی،درست کرنے کے بجائے سزا کے ایسے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں کہ طلبا "صیاد کے دام "میں آ جاتے ہیں۔برطانیہ میں یہ کوئی پہلا کیس نہیں۔سوال یہ ہے کہ برطانیہ ایسے معاشرے میں کلب کا رخ کرنے کے بجائے مولوی جنسی عمل کے لیے مسجد کو ہی موزوں کیوں قرار دیتا ہے؟اپنی مصنوعی مذہبی اور سماجی حیثیت کے لیے؟۔منافقت اس کے سوا اور کیا ہے؟برطانوی معاشرے کے اعلیٰ دماغ بھی سوچیں،اور مذہبی درسگاہوں کے اساتذہ کے لیے اخلاقی کورسز کا انتظام کریں۔
کیا یہ صرف مدارس و مساجد والے ہی کرتے ہیں؟ نہیں،راہب بھی اسی مکروہ کام کے دلداہ ہیں۔مولوی و راہب کی یہ نفیساتی گرہ ایک سی ہے۔مجھے مگر حیرت اس بات پہ ہے کہ 81 سالہ مولوی صاحب اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو مسجد کمیٹی کے دیگر ممبران کی سازش کہہ رہے ہیں۔ کیا اس سازش کے محرکات معاشی مفادات ہیں؟الحمد کہ مولوی حاجی محمد صدیقی نے یہ نہیں کہہ دیا کہ مجھ پہ لگنے والے الزام" اسلام اور مسلمانوں "کے خلاف یہود و نصاریٰ کی سازش ہے۔غالب کا مصرعہ یاد آتا ہے۔
مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply