تقسیم ہند کے چند محرکات۔۔۔۔انوار احمد

انگریزوں کے ہندوستان پر قبضے سے پہلے برصغیر میں حکومت مسلمانوں کی نہیں بلکہ چند مسلمان خاندانوں کی تھی جو بیرونی حملہ آور تھے انکا مقصد اسلام کی ترویح و تبلیغ نہیں بلکہ ہندوستان کی دولت لوٹنا تھا ۔ کیا وجہ تھی کہ آٹھ سو سال سے زیادہ اس عظیم ملک پر حکومت کے باوجود مسلمانوں کی تعداد کبھی پندرہ فیصد سے زیادہ نہیں ہوئی ۔ امراء اور شاہی خاندان کے افراد عیاشیوں اور حرم میں رنگ برنگی خواتین کے دام الفت میں شب و روز گزارتے یا ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے۔ اکثر علماء بھی بیرونی حملہ آوروں کے ساتھ ہی آتے وہ مقامی آبادی سے خود کو دور ہی رکھتے اور اگر کوئی مسلمان ہو بھی جاتا تو اسکو “موالی” کے نام سے پکارا جاتا اور ان سے نہایت تحقیر آمیز سلوک کیا جاتا ۔۔ یہ جو کچھ مسلمان ہمیں نظر برصغیر میں نظر آتے ہیں انکے مشرف بہ اسلام ہونے کا کریڈٹ زیادہ تر صوفیاء کو جاتا ہے ۔ جنکے آستانے عام طور پر عوامی ہوتے اور وہاں ہر مسلک اور قوم کے لوگ جاتے اور اپنی حاجات مانگتے۔ اب یہ الگ بحث ہے کہ کیا ایسا کرنا جائز تھا یا نہیں ۔۔

انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی میں مسلمان اور ہندو برابرا کے شریک تھے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سارا نزلہ مسمانوں پر گرا اور برطانوی راج نے انہیں نشانہ بنایا جس کی اصل وجہ یہ تھی کہ انگریز نے مسلمانوں سے ہی اقتدار چھینا تھا اور ان کو ان ہی سے خطرہ تھا کہ یہ قوم اپنے چھنے ہوئے اقتدار کو حاصل کرنے کے لئیے کچھ بھی کرسکتی ہے جبکہ مقامی ہندو نے انگریزی زبان سیکھی اور جنگ آزادی کے بعد انگریزوں سے اچھے تعلقات بنائے اور خوب مستفید ہوئے انکے نزدیک شاید انگریز مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ قابل قبول تھے ۔ جبکہ مسلمان “پدرم سلطان بود” کے نشے میں بدمست رہے اور انہوں نے اپنی کوئی اصلاح نہ کی اور نہ ہی علمی میدان میں آگے آئے ۔ دعا دیں کہ سر سید نے علی گڈھ یونیورسٹی بنادی وگرنہ مسلمان ” درس نظامی” سے آگے نہ بڑھ پاتے۔ علماء اور مولوں حضرات نے سید صاحب کی ہمیشہ مخالفت کی اور انہیں کافر اور نیچری تک کے القابات سے نوازا ۔۔۔

انگریز نے بلا شبہ ہندوستان کی دولت کو خوب لوٹا اور یہاں ڈیوائڈ اینڈ رول کے اصول پر عوام کو لڑایا اور راج کیا ۔ وہیں اس نے برصغیر کو تعلیم ۔ پبلک ہیلتھ اور سسٹم دئیے ۔ سوچیے کہ مسلمان حکمرانوں نے آٹھ سو سال میں کیا کوئی پبلک ہسپتال یا یونیورسٹی بنائی ۔ انکے دور میں تعلیم صرف امراء کے بچے کو محلوں میں رکھے اتالیق اور اساتذہ دیا کرتے اور عوام الناس کی پہنچ صرف مسجد اور مدرسے محدود رہی وہ بھی محض دینی تعلیم ۔۔
ریلوے ۔ ڈاک و تار اسکول و یونیورسٹی ۔ پولیس ایکٹ ۔ کسٹم اور ریونیو اور اس قسم کے دوسرے تمام ادارے انگریزوں ہی کی عطا ہیں ۔ مسلمان حکمرانوں میں صرف ایک شیر شاہ سوری ایسا شخص تھا جس نے اپنے مختصر دور حکومت میں عام آدمی کے لئیے فلاحی کام کیے ۔
انگریز راج کے خلاف ہندو اور سکھوں کا بھی بہت حصہ رہا ہے۔ بھگت سنگھ۔ جھانسی کی رانی۔گاندھی جی اور انڈین نیشنل آرمی کے سبھاش چندر بوس کے علاوہ کانگریس کی جیل بھرو تحریک اور کوئٹ انڈیا کی تحریک جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک تھے ۔۔۔

اٹھارویں صدی کے اختتام اور خاص طور پر جنگ عظیم اول کے بعد برصغیر میں انگریز راج کے خلاف تحریکیں شروع ہوگئیں جس میں ہندو اور مسلمان دونوں ہی شریک تھے ۔ اس دوران کئی تحاریک سادہ لوح مسلمان علماء کی جانب سے بھی چلائی گئیں مثلاً ریشمی رومال تحریک ۔ تحریک بالا کوٹ اور تحریک خلافت قابل ذکر ہیں اور یہ تمام تحاریک بری طرع ناکام ہوئیں اس میں صرف اور صرف مسلمانوں کا نقصان ہوا ۔ انگریز ذہین قوم تھی اس نے بھانپ لیا تھا کہ مسلمانوں کا ایک انتہا پسند طبقہ انکے راج کے لیے  دور سر بن سکتا ہے چنانچہ انہوں نے اس گروہ کو بڑی ہوشیاری سے ” دارالامن ” اور ” دارلحرب ” کا جھانسہ دیکر ہندوستان سے باہر بھیج دیا اور وہ لوگ ہندوستان کو دارلحرب قرار دیکر ترکی اور افغانستان ہجرت کرگئے جسے انہوں نے ” دارلامن” قرار دیا تھا ۔۔۔ ان ہجرت کرنے والوں میں اکثر اپنی منزل تک ہی نہ پہنچ سکے اور راستے ہی میں کام آگئے ۔ باقی بچ جانے والے جب مایوس ہوکر اور دارلامن کے باسیوں کے ہاتھوں لٹ لٹا کر واپس آئے بھی تو کہیں کے نہ رہے وہ ہجرت سے پہلے ہی اپنی زمینں اور اثاثے اونے پونے داموں بیچ کر جاچکے تھے۔ اس طرع انگریز نے کمال ہوشیاری سے ان عناصر کا صفایا کردیا اور یہ تحریکیں اپنی موت آپ مر گئیں

دونوں جنگ عظیم کے بعد برٹش گورنمنٹ معاشی طور پر بہت کمزور ہوچکی تھی اور اسکے لئیے برصغیر پر قبضہ رکھنا ممکن نظر نہیں آرہا تھا ۔ دوسری طرف ہندوستان بھر میں برٹش راج کے خلاف آزادی کی تحریکیں اور سول نافرمانی شروع ہوچکی تھی جس میں یہاں کی اکثریتی آبادی بشمول مسلمان اور ہندو شامل تھے ۔ انگریز جانتا تھا کہ اگر وہ برصغیر کو اسی حالت میں چھوڑ گیا تو یہ خطہ بہت جلد ورلڈ پاور بن جائیگا کیونکہ یہاں کی سرزمین ہر قسم کی دولت سے مالا مال تھی لہذا انہوں نے جانے سے پہلے اسے تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا اور انتہائی عجلت میں تقسیم ہند کردی جس کے نتیجے میں بیس لاکھ انسان قتل ہوئے اور ایک کروڈ سے زیادہ بے گھر ہوئے اسکے علاوہ لاکھوں خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ پنجاب اور دیگر حصوں میں خون کی ہولی کھیلی گئی ۔ انسان درندہ بن گیا۔ سرحد کے دونوں طرف کشت و خون کا بازار گرم ہوگیا صدیوں ساتھ رہنے والے یکایک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے ۔۔

فیض احمد فیض صاحب بٹوارے کے دوران مشرقی پنجاب کا دورہ کرچکے تھے جہاں انہوں نے پاکستانی مجاہدوں اور ہندوستانی سورمائوں کی درندگی کو اپنی آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا کہ کس طرع انسان شیطان بنااور صدیوں پرانے رشتے اور تعلقات کو یکسر بھلاکے درندہ بن گیا اور سب کچھ مذہب اور دھرم کا نام لیکر کیا گیا ۔۔۔ ان سب مشاہدات کے بعد ایک حساس شاعر کس طرع آزادی کا جشن مناتا ۔ کس طرع دئیے روشن کرتا ۔۔۔ صرف فیض ہی نہیں اس دور کا ہر ادیب اور شاعر ان انسانیت سوز واقعات پر چیخ اٹھا ۔۔ منٹو نے اپنے افسانوں میں یہی سب کہا ۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ  ، کھول دو اور دیگر کہانیاں ان ہی واقعات پر مبنی ہیں اسکے علاوہ کرشن چندر اپنے شاہکار افسانے غدار میں اور امرتا پریتم اپنی کہانیوں میں اسی درندگی پر روتی رہیں ۔۔ امرتا پریتم پنجاب کی تقسیم اور راوی کو خون خون ہوتا دیکھ کر بین کرتی اور ساحر اپنی نظموں سے ذہنوں کو جھجھوڑتا رہا جبکہ منٹو کی کہانیوں نے سماج کے درماندہ طبقے کے کرب کو اور انکے سلگتے ہوئے مسائل اور نام نہاد انسانیت اور تہذہب کے پردے کے پیچھے چھپی منافقت کو ننگا کردیا اور باغی ٹھہرا یا گیا ۔۔۔ اس زمانے میں بہترہن ادب بھی تخیلق ہوا اور ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں نے ان انسانیت سوز واقعات کی ایسی منظر کشی کی کہ لوگ خون کے آنسو بہاتے رہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ راجندر سنگھ بیدی ، قاسمی ، منٹو ، عصمت چغتائی ، مجروح ، سجاد ظہیر ، اوپندر ناتھ اشک اور بہت سے ترقی پسند ادیب اور شاعر اپنے اپنے طور پر اپنے اپنے انداز میں انسانیت کی تزلیل کے خلاف آواز اٹھاتے رہے اور اکثر معطون ہوئے ۔۔۔

بات یہیں ختم نہیں ہوئی تقسیم کے بعد دونوں ملکوں نے تین جنگیں لڑیں اور مزید خونریزی ہوئی اور اسکے ختم ہونے کی  کوئی صورت بھی نظر نہیں آتی ۔ دونوں ملک جوہری طاقت ہونے کے بعد ایک دوسرے کو فنا کردینے کی دھمکی دتے رہتے اور فرسٹ اسٹرائک اور کاؤنٹر اسٹرائیک کی بونگیاں مارتے رہتے ہیں ۔ شاید انکو ادراک ہی نہیں کہ ایٹمی حملہ ہوتا کیا ہے وہ نہیں جانتے کہ اس جنگ کے بعد لاشیں اٹھانے والا بھی نہیں ملیگا یہانتک کہ کتے اور گدھ بھی لاشوں کو نوچنے کے لئیے نہیں ملینگے ۔۔۔ حال یہ ہے کہ آج دونوں ملکوں کے پاس بیسک فرسٹ ایڈ اور ایک گھریلو یا انڈسٹریل آتشزدگی سے نبٹنے کی صلاحیت تو ہے نہیں اور بات کرتے ہیں ایٹمی حملہ کی۔ کیا اگر لاہور یا کراچی پر ایٹمی حملہ ہوا تو تابکاری اثرات سے دہلی اور بمبئی محفوظ رہیگا اسی طرع اگر دہلی یا بمبئی کو ایٹمی نشانہ بنا یا گیا تو کراچی اور لاہور بچ جائیگا ۔

کیا موجودہ صورتحال کے پیش نظر یہ بہتر نہ ہوگا کہ دونوں طرف کی قیادتیں مل بیٹھیں اور سرحد کے دونوں طرف جنگی جنوں کو ختم کرکے ایک نئے باب کا آغاز کریں جو بقائیے باہمی اور امن کو فروغ دے ۔ جانتا ہوں کہ یہ آسان نہ ہوگا سرحد کے دونوں طرف کچھ سر پھرے اور خون آشام گروہ سادہ لوح عوام کو نفرت اور دیوانگی کی ترغیب دے رہے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ خطہ میں امن قائم ہو اسکے علاوہ چند ترقی یافتہ ممالک بھی برصغیر میں جنگی ماحول اور کشیدگی قائم رکھنا چاہتی ہیں انکی اسلحہ ساز فیکٹریاں ہماری دشمنی پر قائم ہیں اگر امن ہوگا تو بوفور توپیں ۔ ایف سولہ طیارے اور جیگوار کون خریدے گا ۔۔۔۔ برصغیر جو آج ایٹمی فلش پوائنٹ بن چکا ہے اور ایک ذرا سی نادانی یا غلطی سے یہ سب بھک سے اڑجائیگا پھر نہ کوئی فاتح ہوگا نہ مفتوح ۔۔۔۔ ضروری ہے کہ ہم اپنی آئندہ آنے والی نسلوں اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئیے مل بیٹھیں اور امن و آتشی کا پیغام عام کریں ۔۔

اس موضوع پر ساحر لدھیانوی کی یہ طویل نظم شاید کچھ سوچنے پر مجبور کرسکے ۔۔۔۔۔

خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر

بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے

کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے

ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے

فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ مسئلوں کا حل کیا دے گی؟

آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتجاج کل دے گی

برتری کے ثبوت کی خاطر
خوں بہانا ہی کیا ضروری ہے؟

گھر کی تاریکیاں مٹانے کو
گھر جلانا ہی کیا ضروری ہے؟

جنگ کے اور بھی تو میداں ہیں
صرف میدان کشت و خوں ہی نہیں

آؤ اس تیرہ بخت دنیا میں
فکر کی روشنی کو عام کریں

امن کو جن سے تقویت پہنچے
ایسی جنگوں کا اہتمام کریں

جنگ، وحشت سے بربریت سے
امن تہذیب وارتقا کے لئے

جنگ، مرگ آفریں سیاست سے
امن، انسان کی بقا کے لئے

جنگ ، افلاس اور غلامی سے
امن، بہتر نظام کی خاطر

جنگ، بھٹکی ہوئی قیادت سے
امن بے بس عوام کی خاطر

جنگ سرمائے کے تسلط سے
امن، جمہور کی خوشی کے لئے

Advertisements
julia rana solicitors

جنگ، جنگوں کے فلسفے کے خلاف
امن، پر امن زندگی کے لئے ۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply