• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • یورپ حجاب سے خوف زدہ کیوں؟۔۔۔۔۔۔ طاہر یاسین طاہر

یورپ حجاب سے خوف زدہ کیوں؟۔۔۔۔۔۔ طاہر یاسین طاہر

وہ مذہبی علامتیں جو پاک دامنی، بزرگی اور دیگراخلاقی رویوں کی قدرے ضامن سمجھی جایا کرتی تھیں اب وہ بھی دہشت اور خوف کا نشان بن گئی ہیں۔یہ بہت خطرناک بات ہے۔اس کا سراسر نقصان عام مسلمان کو ہوا ہے۔ جدید دنیا کے متعصب اذہان اب ہر داڑھی والے اورہر نقاب والی کو خوف و دہشت کی علامت سمجھنے لگے ہیں۔اس سنجیدہ موضوع پر مکالمے کی ضرورت ہے، مگر کیا مسلم معاشروں کی نمائندگی کرنے والے علمائے اسلام کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کو اپنی مذہبی روایات و اخلاقیات اور دہشت گردی کے درمیان فرق کو واضح کر سکیں؟دہشت گردی کے اسباب کیا ہیں؟ یہ بالکل ہی الگ موضوع ہے،اور کوئی بھی سبب دہشت گردی کو جواز فراہم نہیں کر سکتا۔

پردہ کیا ہے؟آیا نقاب ہی پردہ ہے یا اس کی کوئی دوسری شکل بھی ہے؟ جیسے سر کو یوں ڈھانپا جائے کہ بال نظر نہ آئیں،اور ٹھوڑی تک کو ڈھانپ لیا جائے۔ جسے سکارف کہا جاتا ہے۔ یہاں علمائے اسلام سے رہنمائی کا طالب ہوں۔فقہی باریکیوں نے الجھیوں کو جنم دیا اور عام مسلمان انہی باریکیوں میں الجھ کر رہ گیا۔دونوں طرف رویہ قدرے انتہا پسندانہ ہے۔بحثیت یورپی ملک کے شہری، جب کوئی مسلم خاندان وہاں کے سماجی و ریاستی قوانین کی پابندی کا حلف لیتا ہے تو اسے پھر اس حلف کی پاسداری بھی کرنا چاہیے۔فرانس، ڈنمارک،ہالینڈ وغیرہ میں مکمل نقاب پہننے پر پابندی یا جرمانے جیسے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔یہ مسئلہ انا کا یا مذہبی روایات کا نہیں بلکہ سماجی کا حیات کا بن چکا ہے۔دیکھنا ہو گا کہ یورپ میں سماجی حیات کو نقاب پہننے والی مسلم خواتین سے کیا خطرہ ہے؟
بے شک کوئی سنگین خطرہ نہیں۔ بلکہ وہاں خطرہ تو نقاب پہننے والی مسلم خواتین کو ہے،کہ انھیں سماجی، نسلی اور مذہبی تعصب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ وہاں اب کیسے قوانین بن رہے ہیں۔ 2014 میں انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے فرانس کی جانب سینقاب پر متنازعہ پابندی کو درست قرار دیتے ہوئے اس دلیل کو مسترد کردیا تھا کہ پورے چہرے کے برقعے پر پابندی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ اسی طرح 2015 میں ہالینڈ کی کابینہ نے سکولوں، ہسپتالوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں نقاب پہننے پر جزوی پابندی کی منظوری دی تھی۔البتہ یہ واضح کیا گیا تھا کہ سڑکوں پر نقاب پہننے پر پابندی نہیں ہوگی۔ ہالینڈ میں اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کو فی کس 290 پونڈ جرمانہ ادا کرنا پڑا تھا۔اسی سال مئی کے آخر میں ڈنمارک کی پارلیمنٹ نے عوامی مقامات پر چہرے کے مکمل پردے پر پابندی عائد کردی ہے۔دائیں بازو کی حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے اس قانون کی سوشل ڈیموکریٹس اور انتہائی دائیں بازو کی ڈینِش پیپلز پارٹی نے بھی حمایت کی، جبکہ یہ قانون یکم اگست سے نافذ العمل ہے۔اسی طرح 2017 میں آسٹریا نے بھی عوامی مقامات پر نقاب پہننے کی پابندی عائد کر دی تھی۔فرانس وہ پہلا یورپی ملک تھا جس نے 2011 میں عوامی مقامات پر نقاب کرنے کی پابندی عائد کی تھی۔

گذشتہ سے پیوستہ روز برطانیہ کے شہر بریسٹول میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیاجہاں مسلم خاتون اپنے 2 ماہ کے بچے کے ساتھ بس میں سوار ہوئیں تو ڈرائیور نے نقاب اتارنے کا مطالبہ کیا۔سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈرائیور خاتون سے پوچھتا ہے کہ وہ موبائل فون سے فلم کیوں بنا رہی ہے، جس پر مسلم خاتون جواب دیتی ہیں کہ تاکہ تمہاری شکایت کر سکوں۔اس دوران ایک خاتون مسافر ڈرائیور کو کہتی ہیں کہ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ تمہیں اس کے لباس سے کیا مسئلہ ہے، وہ اس کی پسند ہے جو چاہیے لباس زیب تن کرے۔جس پر ڈرائیور جواب دیتا ہے کہ مجھے فکر ہے،کیونکہ یہ دنیا بہت خطرناک ہے، میں کسی کا چہرہ نہیں دیکھوں، یہ ٹھیک نہیں۔مسلم خاتون کا کہنا ہے کہ بس کا ڈرائیور مسلسل میری توہین کرتا رہا اور مجھے دہشت گرد قرار دیتا رہا، اس کا موقف تھا کہ سب مسافرمیرا چہرہ دیکھیں، وہ بار بار اس بات پر زور دے رہا تھا کہ میں بم سے بس کو اڑا دوں گی۔سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد بس سروس انتظامیہ نے اپنے ڈرائیور کے متعصبانہ رویے پر معافی مانگتے ہوئے حکام کے ساتھ بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرادی۔بس سروس کے مطابق انہیں اپنے ڈرائیور کے انفرادی رویے سے مایوسی ہوئی۔کمپنی بلاتفریق رنگ، نسل اور مذہب سروس فراہمی پر یقین رکھتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اخبار نویس کا خیال ہے کہ یہ مسئلہ اب مذہبی اخلاقیات کا نہیں رہا بلکہ مذہبی،انفرادی انسانی آزادی اور بنیادی حقوق کا ہے۔اس دراڑ کا ہے جو مسلم اور غیر مسلم کے درمیان پیدا ہو چکی ہے۔ اس دراڑ اور بد اعتمادی کے اسباب کچھ بھی ہوں، مگر اس دراڑ اور بد اعتمادی کو ختم کیے بغیر یہ توقع کرنا کہ پاکستان اور دیگر ایشیائی یا افریقی پٹی کے مسلم ممالک میں احتجاج سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا ممکن نہیں۔ جذباتیت،جھکاؤ اور تعصب درست تجزیہ کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔بیشک مسلمانوں کے بے پناہ مسائل کا سبب بھی خود مسلم حکمران اور نام نہاد جہادی تنظیمیں ہی ہیں۔نقاب پہننے والی مسلم خواتین کو دہشت گرد اس لیے سمجھا جا رہا ہوتا ہے کہ شاید ان کا تعلق، القاعدہ، طالبان،یا داعش جیسی کسی دہشت گرد تنظیم سے نہ ہو۔کیا ان تنظیموں نے مسلمانوں اور دین کی کوئی خدمت کی یا مسلمانوں اور دین و مذہب کے لیے بدنامی کا باعث بنی ہوئی ہیں؟اگر کوئی اس بات کو نہیں مانتا تو بے شک وہ دیوانہ ہے۔اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا تو وہ جھوٹ بولتا ہے۔مذہب اور جنت کے لالچ میں معصوم انسانوں کے چیتھڑے اڑانے والوں کا مذہب بھی ہوتا ہے، فرقہ بھی، اور انھیں حوروں کی طلب بھی ہوتی ہے۔یورپ اور مسلم معاشروں کے درمیان بڑھتی خلیج کو کم کرنے کے لیے بین الاسماج اور بین المذاہب مکالمے کی ضرورت ہے اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ یورپ میں رہنے والے مسلم خاندانوں کو وہاں کے ریاستی قوانین کا احترام بھی بہر حال کرنا ہو گا۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply