سول بالادستی، تبدیلی اور احتساب کی حقیقت ۔۔۔۔محمدعباس شاد

پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام کے زیرِ سایہ مغربی جمہوریت رائج ہے۔ اور سرمایہ داری نظام میں حکومت و سیاست کا ایک خاص ماڈل رائج ہے، جو سرمایہ داری نظام کا لازمی جز و ہے۔ اسی کے تحت اس نظام میں الیکشن بھی ہوتے ہیں، حکومتیں بھی تبدیل ہوتی ہیں، پارلیمنٹ بھی وجود میں آتی ہے اوراس نظام سے نفع اندوز قوتوں میں اقتدارکی کشمکش بھی جاری رہتی ہے۔ اس کے لیے لفظی جنگ، گالم گلوچ اور الزامات کے تیزوتند حملے بھی ہوتے ہیں۔ جس سے بعض اوقات اچھے خاصے لوگ دھوکا کھانے لگتے ہیں کہ اب کی بار اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سول بالا دستی کی جنگ اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ حال آں کہ سرمایہ داری نظام میں اسے اپنی بارگیننگ پاور بڑھانا کہتے ہیں۔ جب پاور کا پلڑا سودے بازی کی پوزیشن میں آ جاتا ہے تو لفظی جنگ کے سارے ہتھیار واپس نیام میں چلے جاتے ہیں۔ اب اگر کوئی ان قوتوں سے انقلاب، تبدیلی اور کڑے احتساب کی امید لگا بیٹھے تو اسے حقیقت نہیں مانا جاسکتا۔ ہماری روایتی پارٹیاں اس ماڈل سے باہر نہیں جاسکتیں۔ اسی ماڈل میں رہ کر انھوں نے الیکشن لڑنے ہوتے ہیں اور اسی نظام کے تحت حکومت اور سیاست بھی کرنی ہوتی ہے۔ لہٰذا نہ تو وہ کڑا احتساب کرسکتی ہیں، نہ تبدیلی و انقلاب لاسکتی ہیں۔ اور نہ ہی سول بالا دستی کی جنگ انھیں وارا کھاتی ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے۔ باقی دعوؤں اور خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے بطن سے نکلنے والی کسی پارٹی کی کوکھ سے انقلاب برآمد کرنے کی بات کریں، یا کسی خالص سرمایہ دار کو کسی انقلابی لیڈر کا ماسک پہنادیں، یا ماضی کے کسی اسٹیبلشمنٹ کے مہرے کو سول بالا دستی کی نام جہاد جنگ کا ہیرو قرار دینے لگیں۔

اس فرعونی نظام کا خاصا ہے کہ وہ پہلے کچھ خاص طبقے وجود میں لاتا اور پھر ان میں ایک مصنوعی جنگ چھیڑ دیتا ہے۔ اور وہ طبقے اپنے دعوؤں میں عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ اور ہر جماعت موقع کی مناسب سے جذبات کا ایک میدان چن لیتی ہے، جیسے روایتی سیاسی جماعتیں حقیقت سے دور اپنے منشور میں امن، ترقی اور خوش حالی کے جھوٹے دعوے اور ہسپتال، سکول، موٹروے اور سی پیک جیسے منصوبوں کو گود لینے کے دعوے کرنے لگتی ہیں۔

ایسے ہی مذہبی جماعتیں مذہبی شعار کی بحالی، اسلامی نظام، ختم نبوت اور مذہب کے ساتھ لوگوں کے جڑے حساس رشتے کو مختلف ایشوز سے جوڑ کر عوام کی مذہبی عصبیت کو اقتدار تک پہنچنے کی سیڑھی بنا لیتی ہیں۔ سیکولر جماعتیں مذہبی جنونیت کے خلاف اپنا بیانیہ سامنے لاکر انسانی حقوق کی پامالی کا راگ الاپنے لگتی ہیں۔ علاقائی اور لسانی جماعتیں اپنے کلچر، محرومیوں، نظام کے طاقت ورمراکز سے گلے شکوے اور اپنی شناخت کے ایجنڈے کو سامنے لاتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

الغرض! جسے جو بیچنے کو ملتا ہے، وہ اس کی دکان کھول بیٹھتا ہے اور عوام اپنی جیب میں موجود محرومیوں کے سِکّوں سے یہ جذبات کے کھلونے خریدنے لگتے ہیں

Facebook Comments

محمد عباس شاد
چیئرمین دارالشعور پبلی کیشنز لاہور، اڈیٹر دارالشعور میگزین، کتاب دوستی اور کتاب شناسی کے لیے وقف ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply