اب مون سون میں سیلاب نہیں آئیں گے

مون سون کی آمد آمد ہے۔ ہر طرف گھٹائیں بادل اوربارش ہو گی۔ اردو میں لکھے “مون سون” کی وجہ تسمیہ جاننے کی کوشش کریں تو لگے گا کہ اسکا مطلب ہے ،”جلدی کا چاند”۔فہم لیکن پیہم مزاحم ہے کہ اس ترکیب میں کہیں کوئی گڑ بڑ ہے. کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ چاند کو کبھی بھی جلدی نہیں رہی ہاں البتہ چاند چڑھانے والوں کو جلدی ضرور ہوتی ہے۔ انگریزی میں مگر یہ غلط فہمی جاتی رہتی ہے کہ اس میں یہ “;monsoon”; ہے۔ لیکن وہاں اور کئی غلط فہمیاں جو پیدا ہونے کو تیا ر بیٹھی ہیں جیسے m, o, n اگر مون ہے تو s, o, n, سون کیوں نہیں ہے یا یہ کہ اگر s, o, n, سن ہے تو m, o, n, مون کیوں ہے وغیرہ وغیرہ. ماہرین لسانیات مگر اس پر گھنٹوں بول سکتے ہیں۔ اور ہمارے خیال میں ماہرہوتا ہی وہ ہے جو کسی بھی موضوع پر اتنی مہارت اور احتیاط سے گھنٹوں بات کرسکے کہ سننے والوں کو کچھ سمجھ نہ آئےتاکہ نتیجتاً وہ اسے ماہرتسلیم کر لیں۔ لیکن لفظ ,مون سون,کے متعلق یہ ماہرین بھی مخمصہ کا شکارہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ پرتگالی الفاظ monsun کی بدلی ہو شکل ہے۔جبکہ کچھ کی آرا ہیں کہ اس کا جنم عربی اور ہندی لفظ “موسم “کے بطن سے ہے۔
وجہ تسمیہ کچھ بھی رہی ہواسکی اپنی وجہ بنیادی طور پر موسم کا نظرثانی شدہ رویہ ہے. آسان لفظوں میں آپ اسے موسمی عوامل کا “یوٹرن” کہہ سکتے ہیں،کہ سال کے باقی حصوں میں سمندرنسبتاََ گرم ہوتا اور دھرتی ٹھنڈی سو ہوائیں دھرتی سے سمندر کی طرف چلتی ہیں مگر ان مہینوں میں سمندر کا درجہ حرارت کم اوردھرتی کا بڑھ جاتا ہے سو ہوائیں دھرتی کی اور چلنا شروع ہو جاتی ہیں اور وہ بھی سمندری پانی کے بخارات سے بھرپور۔ اور پھر یہ تو سب بچپن سے پڑھتے آئے ہیں کہ بنگال سے آنے والی ،مون سون،کی ہوائیں شمال کے پہاڑوں سے ٹکراتی ہیں تو برستی ہیں۔ ایسا سائنسدانوں کا پہلے ماننا تھا ۔پھر یوں ہوا کہ ایک سائنسدان ترکی کے دورہ پر گیا ۔وہاں استنبول کی ایک مشہور شاہراہ پر وہ حسبِ معمول مستغرقِ فون جا رہا تھا کہ سامنے سے آنے والی ایک حسینہِ کج ادا و بےردا سے اس کی ٹکر ہو گئی ۔ بس پھر کیا تھا لگی برسنے! اور اپنے سائنسدان صاحبزبانِ مٹکورِ من ترکی و ترکی نہ می دانم انگشت بدنداں اس کو بس دیکھا کئے ۔جی بھر، برس کر جب وہ تھمی تو انکے کے قلب و نظر کو جل تھل کر چکی تھی۔ تب سے سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ مون سون کی گھٹا ہو کہ حسینہ کج ادا، پہاڑوں کے ٹکرانے پہ برستی ضرور ہیں۔
یار لوگوں کا کہنا ہے کہ امریکہ کی یاری کی طرح مون سون کی بارش بھی بہت بے اعتباری ہوتی ہیں۔ کہ برسنے پہ آئیں توپہروں برسے چھاجوں برسے، بصورت دیگر پہروں گھٹائیں اور نری پھوار ۔اسی طور کبھی تو پورے ملک میں یکبارگی اور کبھی سڑک کے ایک طرف خشک دھوپ اور دوسری طرف جل تھل۔ہم نے تو یہاں تک دیکھ رکھا ہے کہ چھت پہ موسلا دھار بارش کےپرنالے چل رہے اور صحن خشک ۔اسی تجربہ کے تناظر میں ہم دوستوں کو متنبع کرنا چاہتے ہیں اگر آپ کو لگے کہ لان میں بیٹھا آپکا ٹامی یا کھونٹے سے بندھی بھینس ایک آنکھ سے رو رہی ہے اوراسکے ایک کان سے پانی نچڑ رہا ہے تو اس کے لیے کسی حکیم حاذق سے دوا یا پیر کامل سے تعویذ لینے سے پہلے ایک بار تحقیق کرلیں کہ کہیں ساون کی بارش کا کرشمہ تو نہیں ۔
اسی طور اگر آپ برہنہ سر، پیادہ پاء، لبِ سڑک محوِ سفر ہوں اور آپ کو یکا یک عین وسطِ سر میں گیلے پن کا احساس ہو تو گھبرانے سے پہلے آسمان کی طرف دیکھ لیں کہ کسی نٹ کھٹ بدلی کی اٹکھیلی تو نہیں۔گر اچھی طرح اطمینان ہو جائے کہ ایسا نہیں ہے تو پھر اس ناہنجار پرندے کوتلاش کریں کہ جس کا یہ کیا دھرا ہے ۔اور ممکن ہو تو اس سے بدلہ بھی لیں۔
مون سون شمالی و وسطی امریکہ افریقہ آسٹریلیا اور ایشیا کے دودرجن سے زائد علاقوں میں سال کے کسی نہ کسی وقت ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں جب جہاں اس کا آغاز ہوتا ہے ، بادل امڈتے ہیں، دھرتی پہ برستے ہیں،برگ وثمر دھلتے ہیں۔ گیندے کھلتے ہیں، گلاب مہکتے ہیں۔۔منظر سنورتے ہیں۔ افکار بدلتے ہیں۔ جذبات بھڑکتے ہیں، دل مچلتے ہیں، حسین چمکتے ہیں ،قہققہے کھنکتے ہیں۔دیدے مٹکتے ہیں، عشاق مچلتے ہیں۔ واعظ بہکتے ہیں۔ لیکن وطنِ عزیز میں اس کے پاس کچھ اضافی ذمہ داریاں بھی ہیں۔جیسے کوٹھے ٹپکتے ہیں۔ گٹر ابلتے ہیں۔ گلیوں بازاروں میں دریا بہتے ہیں۔بچے بوڑھے پھسلتے ہیں، پھوڑے نکلتے ہیں ۔مکھی مچھر پنپتے ہیں۔ندی نالے بپھرتے ہیں۔ پل کھسکتے ہیں وغیرہ۔
ہم اکثر پشیمان ہوتے کہ وطنِ عزیز میں ہر سال بلاناغہ مون سون کے موسم میں سیلاب آتے ہیں۔ لوگ بےگھر ہوتے ہیں مویشی جانوں سے جاتے ہیں۔ کھڑی، بیٹھی، لیٹی فصلیں تباہ ہوتی ہیں۔ لیکن سرکار کوئی پیش بندی کوئی علاج کیوں نہیں کرتی۔ لیکن جب علم حاصل کیا تو سرکار پر پیار آیا اور اپنی کم علمی پہ رونا۔ دیکھئے اس خطہ میں مون سون اور اس کے نتیجہ میں سیلاب آنے کا یہ معمول کوئی دیڑھ کڑور سال سے جاری ہے۔ اب سرکار اتنی کوڑھ مغز اور ظالم تھوڑا ہی ہے کہ محض چند کروڑ انسانوں کے بھلے کی خاطر “کارِ قدرت”میں مداخلت جیسا قبیح اور کافرانہ فعل سر انجام دے۔ اور ویسے بھی محبانِ آثارِ قدیمہ نے ایسا کرنے ہی نہیں دینا تھا ۔اور کچھ نہیں تو عدالت ھائے عالیہ نے سٹے ہی دے دینا تھا جیسا کہ پہلے مالٹا ریل منصوبہ میں ہو چکا۔ اور دوسری اور اہم بات کہ جس درسی کتاب میں ہم نے پڑھ رکھا ہے کہ شمال سے آنے والے دریا اپنے ساتھ زرخیز مٹی بہا کر ہوتے ہیں اور ہمارے میدانوں میں پھیلا کر انکو زرخیز کرتے ہیں۔ وہی کتاب سرکار کے مشیروں نے بھی پڑھ رکھی ہے۔اور انہیں علم ہے کہ اگر سیلاب نہ آنے دیے گئے تو ہمارے میدانوں میں زرخیز مٹی کیسے بچھے گی اور فصلیں کیسے اگیں گی۔؟
سو اس لیے سرکار نے سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے انسانوں پر دفعہ 144 کا نفاذ کردیا ہے کہ خبردار کوئی شخص سیلاب کے قریب نہ جائے اور نہ ہی ان علاقوں میں گھر بنائے ۔جہاں سیلاب صاحب نے آنا ہے۔ حکم عدولی کرکے سیلاب میں بہنے والوں کو وہاں سے نکال کر جیل میں ڈال دیا جائیگا ۔لیکن دیکھئے نا ہماری جاھل عوامل ایسے سنہرے قوانین پر عمل ہی نہیں کرتی اور پھر واویلا کہ سرکار کچھ نہیں کرتی ۔ بہرحال آپ سب کو نوید ہو کہ اب کہ سرکار نے دفعہ 144 ندیوں، نالوں اور دریاؤں پر عائد کی ہے کہ وہ بندے کے پتروں کی طرح اپنی حدود میں رہیں اور کناروں سے نہ چھلکیں۔اب وہ بھلے جاھل تھوڑا ہی ہیں ۔بے فکر رہیے اب کے سیلاب نہیں آئیں گے۔

Facebook Comments

ابن فاضل
معاشرتی رویوں میں جاری انحطاط پر بند باندھنے کا خواہش مندایک انجینئر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply