ایک بے احتیاطی یا غلط فہمی

فیس بک پر سالہاسال سے دیکھا جا رہا ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کے نقطہ نظر سے اختلاف کرتا ہے تو آپ کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ اس پلیٹ فارم پر صرف میں ہی ہوں، کوئی دوسری آواز نہ ہو اس مقصد کے لیے دوسرے کو ڈس ہارٹ کرنے کی خاطر عجیب وغریب حربے استعمال ہوتےہیں، کبھی کسی کی راے کو بگاڑ کر یا اس پر کوئی لیبل لگا کر پیش کرنا وغیرہ وغیرہ۔
اس حوالے سے دو سوال ہیں ایک یہ کہ ایسے لوگوں سے نمٹا کیسے جاے، یہ اس وقت میرا موضوع نہیں ہے۔ اس پر پھر کبھی۔ پرانے فیس بکی جانتے ہیں کہ مستان شاہ مرحوم سمیت نہ معلوم کتنے لوگ ہم نے بھگتاے ہوے ہیں۔ اس وقت اصل مقصود ایک غلط فہمی کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ بعض اوقات کسی شخص کی زبان بندی کے لیے اس کے ماضی کا کوئی پرانا سچا یا جھوٹا معاملہ نکال کر اس کے منہ پر دھونپ دیا جاتا ہے، اس پر بعض سیدھے سادے لوگ یہ کہتے ہیں کہ اب فلاں صاحب کو آکر اپنی پوزیشن صاف کرنی چاہیے۔ بھئی کیوں؟ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ میں چند دن بعد آپ کے خلاف کوئی ایشو اٹھادیا کروں اور اپنے کام چھوڑ کر اپنی پوزیشن صاف کرنے میں مصروف ہو جایا کریں۔ اگر کوئی واقعہ غلط ہے، یا آپ کا علم اس معاملے میں ادھورا یا یک رخا ہے تو اسے اچھالنے کی اسلام آپ کو قطعا اجازت نہیں دیتا۔ اور اگر وہ واقعہ حقیقت ہے تب بھی کسی کی خامی اچھالنے یا سامنے لانے کی اجازت تب ہے جبکہ اس کے پیچھے کوئی قابل ذکر مقصد ہے، وگرنہ اسلام کی نظر میں یہ تعییر(عار دلانا) یا تثریب (طعنہ دینا) کہلاتا ہے۔ حدیث میں ہے جو شخص کسی کو کسی ایسے گناہ کی عار دلاتا ہے جو اس نے واقعی کیا ہے تو مرنے سے پہلے اللہ اسے بھی اسی میں مبتلا کریں گے۔ ہم روز مرہ اپنے اردگرد دیکھتے ہیں کہ ایک شخص دوسرے پر اعتراض کررہا ہوتا ہے اور چند دن بعد خود ہی وہ کام کررہا ہوتا ہے۔
بخاری کی ایک حدیث میں ہے إذا زنت أمة أحدكم فتبين زناها فليجلدها الحد ولا يثرب الخ زرخرید کنیز کی بات ہورہی ہے، گناہ زنا جیسا سنگین ہے، واضح اتنا کہ حد جاری ہوسکے تو فرمایا شرعی سزا تو نافذ کراو لیکن اس کے مالک کو بھی اجازت نہیں ہے کہ وہ طعنہ دے۔ حتی کہ بار بار ایسا ہونے کی صورت میں بھی اجازت نہیں ہے۔
میری سب سے پہلے خود اپنی ذات کو اور اس کے بعد دوستوں کو نصیحت ہے کہ کسی مسلمان کی عزت کا معاملہ اللہ کے ہاں بہت سنگین ہے چاہے الزام تراشی کی شکل میں ہو یا بے جا مذاق اڑانے کی شکل میں۔ خصوصا اس سے جو اگلے کا دل دکھتا ہے۔
یاد رکھیں جس طرح الزام تراشی یا عار دلانا گناہ ہے اسی طرح اس طرح کے موقع پر کسی کی مدد کرنا کار ثواب ہے۔ ایک حدیث کے مطابق اللہ اس کی اس دن مدد کریں گے جب وہ اللہ کی مدد کا محتاج ہوگا۔ بعض اوقات ایسا کسی گروہ بندی کی شکل میں ہوتا ہے، ایسی صورت میں بظاہر جس گروہ کی حمایت میں بات کی گئی ہو اس کے ذمہ داران کو پہلے نوٹس لینا چاہیے۔ مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا خلیل احمد سہارن پوری کی سیاسی معاملات میں راے شیخ الہند کے خلاف تھی ان دونوں حضرات پر عجیب وغریب الزامات لگ رہے تھے وہ گورنمنٹ سے پیسے لیتے ہیں وغیرہ۔ کسی نے ان الزامات کے بارے شیخ الہند سے استفسار کیا بظاہر مستفتی حضرت حضرت شیخ الہند کی حمایت کرنا چاہتا تھا، حضرت شیخ الہند نے الٹا مستفتی کو ڈانٹ پلا دی کہ تمہیں ایسا سوچنے کی جرآت ہی کیسے ہوئی۔ اشرف السوانح کی تیسری جلد میں یہ تفصیل موجود ہے۔

Facebook Comments

مفتی محمد زاہد
محترم مفتی محمد زاہد معروف عالم دین اور جامعہ امدادیہ فیصل آباد کے مہتم ہیں۔ آپ جدید و قدیم کا حسین امتزاج اور استاد الاساتذہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”ایک بے احتیاطی یا غلط فہمی

  1. I agree with you.
    ہر ایرے غیرے کے آگے جوابدہی اور وضاحتیں کیوں کی جائیں؟ ایسی باتوں کو کچھ لوگ محض نظر انداز کرنے پر اکتفا کرتے ہیں، کچھ دھانسو قسم کے جواب لکھتے ہیں اور کچھ زیادہ معزز اور حساس لوگ راستہ بدل لیتے ہیں۔ یہ ہر فرد کا اپنا انتخاب ہے، جس کا تعلق اس کے مزاج اور فہم سے ہے۔ کسی کو اختیار نہیں کہ وہ نام نہاد اخلاقی دباؤ ڈالے کہ نشانہ بننے والا ان میں سے کیسا رد عمل دے۔ میں حیران ہوں کی فیس بک کے نقار خانے میں خاموشی کو ترجیح دینے والوں کو اپنی متانت کا خیال رکھنے پر داد دینے کی بجائے کچھ سادہ لوح عدالت کے سامنے اعترافی خاموشی کے مصداق سمجھ لیتے ہیں۔

Leave a Reply to Shahid Usman Cancel reply