مکالمہ کہیں کھو نہ جائے

مجھے مکالمہ پر لکھنے کی دعوت مکالمہ کے چیف ایڈیٹر انعام رانا بھائی نے دی. جس دن میری پہلی تحریر شائع ہوئی تو میں نے اسے اپنے لئے عزت سمجھا اور اس عزت افزائئ پر مکالمہ ٹیم کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ خود سے یہ عہد کیا کہ اس نام کی لاج رکھنے کی کوشش کروں گا. اور آئندہ اپنی تحریر میں دشنام طرازی کی بجائے مکالمہ کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کروں گا. میری پہلے سے عادت تھی کہ اپنی تحریر پر آنے والے سخت مخالف کمنٹس کو بھی ڈیلیٹ نہیں کرتا تھا ،جب تک کہ وہ کسی دوسرے شخص کے خلاف نہ ہوں یا گالم گلوچ پر مشتمل نہ ہوں. ان کے جواب ضرور دیتا تھا, ہاں بعض اوقات لہجہ سخت ضرور ہو جاتا تھا. لیکن مکالمہ پر چھپنے کے بعد ،میں اس بارے میں مزید نرم ہو گیا اور سخت الفاظ یا میسجز کے جواب میں بھی نرم رویہ اختیار کیا تاکہ مکالمہ پر حرف نہ آئے. میں اس کوشش میں کتنا کامیاب رہا یہ میرے دوست ہی بتا سکتے ہیں۔
بابا کوڈا کی جناب محترم طفیل ہاشمی صاحب کے بارے میں تحریر پڑھی تو یقین جانئیے کہ دل بہت دکھا. گو کہ طفیل ہاشمی صاحب پر جس الزام،کا تذکرہ بابا کوڈا نے کیا وہ بہت پرانا ہے اور روزنامہ ڈان میں چھپ چکا ہے لیکن اس کے باوجود ان کی شخصیت کے احترام اور محبت میں یہ پوسٹ پسند نہیں آئی کہ ان کی بزرگی اور مرتبے کا خیال کرتے ہوئے اگر تنقید کرنی بھی تھی تو نرم الفاظ اور شائستہ لہجے میں کی جانی چاہئیے تھی۔ ابھی اسی کشمکش میں تھے کہ ہاشمی صاحب نے اپنا اکاونٹ ان ایکٹیو کر دیا..ہاشمی صاحب استاد کا درجہ رکھتے ہیں. ان کے جانے کا دکھ ابھی سر اٹھا رہا تھا کہ بھائی انعام رانا کی آگ برساتی پوسٹ آ گئی جس نے مکالمہ کے تمام قانون و ضوابط ایسے توڑے کہ ابھی تک دل و دماغ پر سکتہ طاری ہے۔جس شخص نے گولی اور گالی کو مکالمہ سے شکست دینے کا وعدہ کیا ،وہی شخص فحش گالیوں پر اتر آئے تو ہم جیسے لوگ کہاں جائیں جو ہر جانے انجانے شخص کو گالی دینے کی بجائے مکالمہ کرنے اور دلیل ڈھونڈ لانے کی تلقین کرتے ہیں۔
جو شخص فریقین کے سامنے ہاتھ جوڑ کر لوگوں کی صلح کروانے کا کردار رکھتا ہو وہی شخص اپنی پوسٹ پر دوسرے کو “;یہاں سے دفع ہو جاو”کہہ دے تو مکالمہ پر کون یقین کرئے گا اور کون اس سے متاثر ہو گا. جناب بات یہ ہے کہ ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر غصے سے بھرے فریقین کو مکالمہ کرنے کی دعوت دینا تو بہت آسان ہے لیکن مزہ اس وقت ہے جب کسی وقت آپ خود غصے میں بھرے ہوں اور گالی پر گالی سننے کے باوجود دوسرے کی بات کا جواب دلیل سے دے کر خاموش ہو جائیں۔ پھر بھلے آپ گالم گلوچ کے جواب میں کسی کو بلاک بھی کر دیں تو ہمیں آپ اپنے شانہ بشانہ پائیں گے. لیکن کسی گالی کے جواب میں مکالمہ کا سب سے بڑا داعی ہی مکالمہ کا سب سے برا داعی بن جائے گا تو اس کے سامنے سب سے پہلے اہل مکالمہ ہی کھڑے ہونگے اور احتجاج کریں گے۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ مکالمہ کی سربلندی کی خاطر انعام بھائی اس دوست سے معذرت کریں جنہیں انہوں نے “دفع کیا”اور آئندہ اپنی وال پر نہ آنے کا حکم دیا. اور براہ مہربانی گالم گلوچ پر مبنی پوسٹ بھی ڈیلیٹ کر دیں. تاکہ مکالمہ کا وہ پودا جو ابھی جڑیں پکڑ رہا ہے اپنے سب سے پیارے مالی کی غفلت کا نشانہ بن کر مرجھا نہ جائے. کیونکہ ہم اہل مکالمہ کو مکالمہ اورانعام رانا دونوں سے محبت ہے۔
امید ہے میری یہ تحریر بھی سابقہ تحریروں کی طرح مکالمہ پر ضرور شائع ہو گی کیونکہ اگر انعام رانا اپنے بھائی جیسے استاد سے اختلاف کا حق رکھتا ہے تو وہی انعام رانا اپنے چھوٹے بھائیوں کو بھی اختلاف کا حق دے گا۔
نوٹ: انعام رانا کی وال کا مُکالمہ سے کوئی تعلق نہیں مُکالمہ اپنی ایڈیٹوریل پالیسی پر قائم ہے۔ اپنی وال پہ کی گئی پوسٹ کے لیے” مُکالمہ” نہیں فقط انعام رانا جوابدہ ہو سکتے ہیں۔مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ۔۔

Facebook Comments

احمد عمیر اختر
مکالمہ کو دنیا کے تمام مسائل کا حل اور گولی, گالی کو مسائل کی جڑ سمجھتا ہوں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”مکالمہ کہیں کھو نہ جائے

  1. اچھی تحریر. صحتمند اور باادب مکالمہ ایک صحتمند معاشرے کی ناگزیر ضرورت ہے

Leave a Reply to Tahir Ali Khan Cancel reply