مقتول خواتین فنکارائیں ۔۔۔۔۔۔سجاد ظہیر سولنگی

ہمارے سماج میں عورت دوہرے جبر کا شکار ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ جات میں اسے مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بات بلکل اپنی جگہ بجہ طور پر دْرست ہے۔نچلے طبقے کی عورت زیادہ جبر کا شکارہے، جب کے امیر طبقے میں اس طرح کے مسائل کم ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان میں عورت مختلف جگہوں پر اپنے صلاحیتوں سے منو ارہی ہے۔نچلے طبقے کی عورت جب کبھی گھر سے نوکری کرنے کے لیے اپنے قدم باہر رکھتی ہے، تو اسے مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ چاہے سماجی کام ہو یاں کوئی نجی شعبہ عورت ہر طرح کے تشدد اور ڈر کو برداشت کرتی ہے۔شہروں میں خواتین پھر بھی اپنے حقوق کے لیے لڑ لیتی ہیں، لیکن دیہاتی زندگی اور پسماندہ علاقے جہاں اگر کسی عورت کے ساتھ کوئی واقع پیش آئے تو وہ جبراً دبا دیا جاتا ہے۔ہماراے سماج میں،جو خواتین کسی تقاریب میں رقص یا گانا گانے اور بجانے کا کام کرتی ہیں، ان کی زندگی بہت بڑے جبر کا شکار ہے۔ مختلف شہروں میں ہونے والی مختلف تقاریب ہو یا ان کی عام نجی رواجی زندگی میں ان کے رشتہ داروں سے لیکر عام پبلک میں بھی ان کی زندگی اجیرن بنی ہوتی ہے۔کئی محفلوں میں ایسی فنکار خواتین کی تذلیل بھی کی جاتی ہے، وہ کسی سے ڈھکی چْھپی نہیں ہے۔ بعض ایسی تقاریب رچانے والے نشے میں دھت لوگوں کی جانب سے خواتین کے ساتھ ناروا سلوک بھی کیا جاتا ہے، جو برداشت سے باہر ہوتا ہے۔اگر کوئی بڑی فنکارہ بن گئی تو اس کی جان اس جہالت سے کسی حد چھوٹ جاتی ہے، پسماندہ سماج سے تعلق رکھنے والی ایسی خواتین نہ چاہتے ہوئے بھی اس جبر کو برداشت کیا کرتی ہیں، کیوں کے ان کے گھر کے چُولھے چلنے کے لیے ان خاموشی رہنے کواس سماج نے جیسے لازمی سوال بناکر لاگو کردیا ہو۔

پچھلے ہفتے اگست کی پہلی تاریخ کو خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ کے گاؤں حکیم آباد میں میں 35 سالہ ریشماں نامی گلوکارہ کو اس کے شوہر نے قتل کریا۔مقتولہ کے بھائی عبداللہ کی طرف سے تھانے میں رپورٹ درج کردی گئی ہے۔ان کے مطابق ایک سال قبل ان کی بہن کی شادی فادہ خان نامی شخص سے ہووئی، یہ شادی دونو میاں بیوی کی پسند کی بنا پر ہوئی تھی۔مقتولہ کے بھائی طرف سے میڈیا میں چھپنے والے بیان کے مطابق دونوں میاں بیوی میں کسی بات پر ناچاقی تھی، جس کی وجہ سے مقتولہ اپنے بھائی کے گھر رہتی تھی۔ راضی نامہ بھی ہوا تھا، ملزم فائدہ خان روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک دبئی میں مقیم تھا، وہ حال ہی میں واپس آئے تھے ۔ گلوکارہ کے بھائی نے پولیس کو بتایا کہ رحیم آباد د کا رہائشی فائدہ خان بیوی کے ساتھ جھگڑے کی وجہ سے بیرون ملک کام کرنے چلا گیا تھا، مقتولہ کے شوہر نے حال ہی میں واپس   آکر اپنی بیوی کو بیمار باپ کی عیادت کے لیے جانے پر راضی کیا، جب وہ واپس نہیں آئی تو بھائی نے پولیس میں رپورٹ درج کرادی۔بھائی کے بیان کے مطابق ملزم نے ان کی بہن کو دھوکے سے لیجاکرگھر میں قتل کردیا ہے۔ ریشم خان مقبول اسٹیج گلو کارہ اور اداکارہ تھیں، ریشم نے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرون ملک بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور نام کمایا۔

سماجی ادارے کی رپورٹ کے  مطابق رواں سال کے  پی کے میں یہ بیسواں واقع  ہے۔اسی سال 3 فروری کو مردان میں اسٹیج اداکارہ سنبل خان کو ایک ڈانس پارٹی میں شرکت نہ کرنے پر قتل کردیا گیا۔جس کی ایف آئی آر ورثہ کے کہنے پر ایک پولیس افسر نعیم خٹک پر کاٹی گئی۔کچھ ماضی کا جائزہ لیا جائے،سال 2009 میں پشاورسے تعلق رکھنے والی پشتو کی گلوکارہ شمیم ایمن اداس کو ان کے بھائیوں نے فائرنگ کر کے قتل کردیا تھا۔وہ نہ فقط گلوگارہ تھی بلکہ ایک خوبصورت شاعرہ بھی تھی،پولیس کے مطابق مقتولہ کے بھائی اپنی بہن کی گلوکاری سے خوش نہیں تھے اور انہیں گلوکاری ترک کرنے کا کہا تھا۔ اسی طرح اسی سال 2 جنوری 2009 سوات کی مشہور 30 سالہ رقاصہ شبانہ کو بھی انتہا پسندوں نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔عینی شاہدین کے مطابق شبانہ کی لاش کے پاس سی ڈی فلمیں اور دیگر کیسٹیں بھی رکھی گئی تھیں۔یہ کاروائی بنیاد پرست کاروائی کے سوائے کچھ نہیں تھا۔ایک اور فنکارہ یاسمین گُل کو نومبر 2010میں کو کوئٹہ میں قتل کردیا گیا تھا۔پچیس سالہ مقتولہ یاسمین گل کے والد قتل کا ذمہ دارمقتولہ کے شوہرکے بہنوئی کو ٹہرایا تھا۔مقتولہ یاسمین گل پاکستان سمیت مختلف ممالک میں اپنے لوک گیتوں کے حوالے سے جانی جاتی تھی، انتہا پسندوں اس پر پابندی عائد کردی تھی واقع کے وقت وہ اپنے گھرپر تھی۔

18 جون سال 2012 ء میں ”باراں باراں“ گانے سے دیگر ملکوں میں مقبولیت حاصل کرنے والی پشتو کی ایک نوجوان ابھرتی گلوکارہ غزالہ جاویدکو ان کے والد جاوید کے ہمراہ پشاور میں قتل کیا گیا۔ ان کے قتل کا مقدمہ ورثہ کی مدعیت میں مقتولہ کے سابق شوہرجہانگیر خان سمیت تین ملزمان کے خلادف درج کیا گیا تھا۔مقتولہ غزالہ جاوید کی بہن فرحت جاوید کے مطابق انہوں نے اپنے شوہر سے طلاق لینے کے بعد پھر سے گانا شروع کیا۔ سوات کی سیشن عدالت نے دسمبر 2016 میں کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مقتول گلوکارہ کے سابق شوہر ملزم جہانگیر خان کو جرم ثابت ہونے پر دو بار سزائے موت اور 7 کروڑروپے جرمانے کی سزاسنائی تھی۔اس مقدمے کو مقتولہ کی ماں کے کہنے پر سوات میں منتقل کیا گیا تھا۔ گلوکارہ کے مقبول ہونے اور سخت احتجاج کی وجہ سے یہ مقدمہ دبایا نہ جا سکا۔ مقتولین کا مقدمہ 4 سال چلنے کے بعد سوات کی سیشن عدالت نے دسمبر 2016 میں کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مقتول گلوکارہ کے سابق شوہر ملزم جہانگیر خان کو جرم ثابت ہونے پر دو بار سزائے موت اور 7 کروڑروپے جرمانے کی سزاسنائی تھی۔14مارچ2017کو اسلام آبادمیں رہائش پزیر مردان سے تعلق رکھنے والی انوش خان نامی فنکارہ کو نامعلوم افراد نے رات کو گھر میں گھس کر قتل کردیا تھا۔خوبصورتی کی مالک انوش خان اپنے گانوں کے ویڈیوز کے حوالے سے مشہور تھی۔ ورثہ نے لاتعلقی اتنی حد تک اختیار کرلی کہ ان کی لاش بھی لینے سے صاف انکار کردیا تھا۔ مقتولہ نے اپنے پیچھے تین سالہ ایک بچہ چھوڑا تھا۔9جنوری،2018کو ایک اور فنکارہ ”بریشنا“کوپشاور میں اپنے والد کے ہمراہ قتل کردیا گیا جس کا الزام پولیس کے مطابق اْس کے عاشق علی اکبر آفریدی پر لگایا گیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ ملزم نے مقتولہ کو شادی کی پیش کش کی تھی جس سے انکار پر اسے والد سمیت قتل کردیا گیا۔

رواں سال ایک اور گلوکارہ کے قتل کاایک اور واقعہ  10 اپریل2018 ء کوپیش آیا، یہ واقع خیبر پختونخوا کے شہر کا نہیں تھا۔ بلکہ صوبے سندھ کے شہر لاڑکانہ ضلعہ کے ایک گاؤں کنگہ تھا۔جہاں شادی کی تقریب کے دوران مقامی فنکارا ثمینہ سندھو کو گولی ماری گئی، زخمی فنکارا کو چانڈکا ہسپتال میں لے جایا گیا، جہاں وہ فنکارادم توڑ گئی۔ مقتولہ کے شوہر کے مطابق قتل ہونے والی فنکارا آٹھ ماہ کے حمل سے تھی۔ قتل کی ایف آئی آر درج کرکے طارق جتوئی نامی شخص کو گرفتار کیا گیاہے۔تفصیل کچھ یوں معلوم ہوئے تھے کہ ایک شادی کی نجی محفل میں ثمینہ سندھو نامی گلوکارہ اپنے فن کا مظاہرہ  کر رہے تھے، کہ  طارق نامی شخص نے انہیں زبردستی کھڑے ہوکر گانے کی فرمائش کی۔ حاملہ ہونے کے باعث گلوکارہ سے کھڑا ہونا مشکل ہو رہا تھا۔ لیکن انکار کے باجود جیسے ہی وہ گلوگارہ کھڑی ہوئی تو اسے جوابدار نے گولیاں مارکر ہمیشہ کے لیے بٹھا دیا۔ اس واقع کی وڈیونے بہت سوں کو حیران اور دکھی کردیا تھا۔ گرفتار ملزم طارق جتوئی نے اپنا اپنا اعترافی بیان دیتے ہوئے بتایا کہ گلوکارہ ثمینہ سندھو سٹیج پر بیٹھی ہوئی تھی اور اس دوران اس نے ہوائی فائرنگ شروع کر دی، ہوائی فائرنگ ابھی جاری تھی کہ یکا یک ثمینہ سندھو سٹیج پر اچانک کھڑی ہو گئی اور ان کے مطابق ان کی جانب سے کی جانے والی ہوائی فائرنگ کی زد میں آگئی اور اسے گولیاں جا لگیں۔کیا یہ بیان ایک مقتولہ کے ساتھ انصاف پر مبنی تھا؟ یہ توایک سیدھا سا قتل تھا۔اوپر جن واقعات کا ذکر کیا گیاہے۔ ایسے واقعات کے مقدمات اکثریت میں دبا دیے جاتے ہیں۔ایسی خواتین جو اپنے گیتوں اور میتوں سے اپنا آپ حیات رہنے کی جفاکش کرتی رہتی ہیں۔ایسے گلوکاراؤں کو اسی طرح سے قاتل ڈرا دھمکاکر گن پوائنٹ کا سہارا لیتے ہوئے ان کے ساتھ ان کی کلا کو بھی ہمیشہ کے لیے خاموش گیت بنا دیتے ہیں۔اور ان کے سروں کا احتجاج ہمیشہ کے لیے دب جاتا ہے۔

سسرزمین ِسندھ پر یہ واقع ان تمام واقعوں سے کچھ مختلف اور دُکھ دینے والا تھا۔اگر دیکھا جائے ایسے واقعات کی نوعیت روایتی انداز کی ہوا کرتی ہے۔ عام طور پر ایسی محفلوں میں ایسے اوباش لوگ خاص طور پر خواتین گلوکاروں اور رقص کرنے والی عورتوں سے مختلف فرمائشیں کیا کرتے ہیں۔ وہ پوری نہ  کرنے پر ایسی محفلوں کے بادشاہ دھمکانے کے لیے اسلحہ بھی دکھایا کرتے ہیں، انکار کرنے پر وہ فنکارائیں عمومی طور پر گولیوں کا شکار ہوتی ہیں۔ ایسے بہت سے واقعات ہمیں اخبارات میں ملیں گے۔ اور اس واقع میں ثمینہ کی کہانی بھی ایسی روایتی محفل کی طرح ہے۔ جس کا انت اس انا پر ہوا ہے، جس میں شراب کے نشے میں دْھت اوباش بگڑے ہوئے لوگوں کی اولادکو اپنی خواہشات کو منوانے کیے سوائے کچھ نظرنہیں آتا۔

پاکستان کے سماج میں خواتین فنکارا ؤں کے ساتھ ایسے واقعات ہمیں اس تمام جبر پر سوچنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔تاکہ ہم اپنا کوئی کردار ادا کرسکیں۔ ایسے شرابی لوگ ایسی محفلوں میں خواتین فنکاراؤں سے رقص کرنے کی جبراً ڈیمانڈ کرتے ہیں۔ غربت کی چکی مین پسی ہوئی ایسی مجبور خواتین فنکارائیں بعض اوقات نا چاہتے ہوئے بھی ایسے حکم ماننے پر ممجبور ہو جاتی ہیں۔ ایسے واقعات ہمارے سماج میں بہت ملیں گے۔شادی ہو یا اس طرح کی اور کوئی خوشی کی تقاریب ان میں فائرنگ کی برسات جاری رہتی ہے۔ تاریخ کا جائزہ لیا جائے، سندھ کی ایک اور گلوکار نگہت ناز، جو ایک وقت میں نگہت سلطانہ کے نام سے شادی بیاہ کی تقاریب میں رقص کیا کرتی تھیں۔ انہیں بھی ایک دفعہ اسی طرح گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک تقاریب میں شاید ان سے بھی اسی طرح کی ڈیمانڈ کی گئی تھی، انکار کرنے پر مقامی بادشاہ نے گولی چلا لی، وہ زخمی ہو گئی، بڑے عرصے تک وہ بیمار رہی جب تندرست ہوئی تو وہ اپنے اندر رقص کرنے والی صلاحیت شاید کھو بیٹھی، اور انہوں نے گانے کو ترجیح دی۔
ہم اگر صرف یہ سمجھیں کہ پختون سماج میں ان واقعوں پر خاموشی چھائی ہوتی ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ فن کے قدردان اور روشن خیال حلقوں کے کمزور ہونے کے باجود اپنے احتجاج کی جنگ کبھی نہیں چھوڑی، ہر مشکل گھڑی میں جدوجہد کرہے ہیں۔ ملک میں خصوصاًخیبرپختونخوا کے ثقافتی حلقوں نے ہمیشہ ایسے واقعات پر شدید تشویش کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔ہاں ان کی شکایت ہمیشہ احتجاج کی صورت آتی رہی ہے۔ خیبر پختونخوا میں شوبز کی دنیا میں جب بھی کوئی خوبصورت آواز یا چہرہ سامنے آیا تو بدقسمتی سے چند برسوں کے بعد اسے خاموش کرا دیا جاتاہے۔لیکن فن کے چاہنے والے اور فن میں شامل دونوں ملکر ہمیشہ فن کے لیے عملی بنیادوں پر جدوجہد جاری رکھے آرہے ہیں۔ایک طرف بنیاد پرستی کی ایسی وارداتیں ہوں اوردوسری جانب حال ہی میں ترقی پسندوں کا 2018 ء کے انتخابات میں خیبرپختونخوا میں دو نشستوں پر جیتنا اس بات کی دلیل ہے، ہر وہ علم، ادب اور فن جو بھی ترقی پسندی سوچ کو فروغ دیتا ہے، اس کے لڑنے والوں کی جیت کا موسم واپس آگیا ہے۔

ہمارے خطے کے دیگر ملکوں پر نظر دوڑائی جائے، فن کے دشمن لوگ اندھا دھند فائرنگ سے نسلِ آدم کا خون بہاتے ہیں۔ مقامی پنچائتوں اور جرگہ سسٹم کے ذریعے ایسے واقعات میں متاثریں ڈر کے مارے ایسے جوابدار قاتلوں کومعاف کردیتے ہیں۔ کیوں کہ سماج اور ہمارا قانوں اس وقت تک متاثرین کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، جب تک میڈیا میں اس خبر کی دھاگ بیٹھی ہوئی ہوتی ہے۔جیسے ہی وہ خبر میڈیا کے دھیان سے پوشیدہ ہو جاتی ہے،تو اشو ہی ختم ہو جاتا ہے۔ دیکھا جائے اگر تو ملک بھر میں عورتوں کے خلاف انسانیت سوز جرائم کا ایک نہ ختم ہونے والاسلسلہ جاری ہے جن کا سب سے زیادہ نشانہ عام محنت کار اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والی عورتیں بن رہی ہیں اور اس طرح کے واقعات کے بعد عمومی طور پر ان غریب گھرانوں کو ڈرا دھمکا کر خاموش کیا جاتا ہے، یا پھر انہیں من مانے فیصلوں کو قبول کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں، انصاف کے منصفوں اورملک کے حکمرانوں کی غفلت کو اس طرح کے واقعات کی بنیادی ذمہ داری سے بری الذمہ قرارنہیں دیا جا سکتا۔ یہ تمام ادارے اور سیاسی جماعتیں سماج میں پھیلے عورت دشمن طاعون کو ختم کرنے کے بارے میں کوئی واضح نقطہ نظراور حکمت عملی وضع کرنے سے کوسوں دور ہیں اورنہ ہی یہ ان کے ایجنڈے میں شامل ہے۔اس طرح کے گھناؤنے واقعات میں ملوث افرادکو دی جانے والی سزاؤں کو یقینی بنایا جائے، خواتین کے خلاف امتیازی، رجعتی قوانین، جرگہ سٹم، قبائلی اور جاگیردارانہ روایات اوررسومات کے خاتمے کے لیے بروقت اور ٹھوس اقدامات کی بجائے ہر نئے سانحے پر محض “نوٹیس لینے” اور زبانی جمع خرچ کرنے کی روایت نے وحشتوں کے اس چلن میں خوفناک حد تک اضافہ کر دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ پشتو زبان کی اس مقتول گلوکارہ ریشماں کے قتل میں ملوث جوابداروں کو جلد از جلد گرفتار کرکیانہیں ان کے جرم کے انجام تک پہنچایا جائے۔جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ اور بنیاد پرستی کی آڑ میں عورت دشمن اقدامات کو تحفظ فراہم کرنے جیسے آمرانہ دور کے اقدامات کا خاتمہ کیا جائے، عورتوں کے خلاف تمام امتیازی، رجعتی قوانین، جرگہ سٹم، قبائلی اور جاگیردارانہ روایات، رسومات کا خاتمہ کیاجائے اور ”وومن پروٹیکشن بل“ پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔خواتین فنکاروں کے قتل پر ایک کمیشن تشکیل دیا جائے۔ جن جوبداروں کو ابھی تک سزا نہیں ہوپائی عدالتوں کے منصفوں ان خواتین کے مقدمات پر نظردوڑانی چاہیے۔فنکار معاشرے کے سُکھ اور دُکھ کے گیت گاتے ہیں انہیں تحفظ دینا وقت کے حکومت کی ذمہ داری ہے۔فنکار ہمارے سماج کی روشنی ہیں، اس کو سمجھنے اور ان کو انصاف دینے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply