ہمارا پرچم یہ پیارا پرچم۔ شاہد مسعود

امی اپنے پرانے دوپٹے سے آٹا چھان کر میدہ نکالتیں۔ پھر اس میں پانی ڈال کر چولہے پر رکھ دیا جاتا۔ تھوڑی دیر میں “لیوی” بن جاتی۔ کبھی گرم گرم لیوی میں ہاتھ ڈال کر ہاتھ جلا لیتے اور کبھی امی جی کی پیش بینی ہمیں بچا لیتی۔ یہ اکثر  چودہ  اگست سے پہلے آنے والے جمعے کا منظر ہوتا۔ اس وقت تک ذوالفقارعلی بھٹو کی مقرر کردہ جمعے کی تعطیل ابھی باقی تھی۔ ابا پاکستانی پرچم کی شبیہ لئے جھنڈیاں اور “گڈی کاغذ” بازار سے لاتے تھے۔ ڈوری کا بندوبست بھی کیا جاتا۔ پھر چھت پر یہ ڈوری تان دی جاتی۔ ہم سب بہن بھائی بے قراری سے ابا کے اردگرد چکر لگاتے اور وہ گڈی کاغذ سے بڑے اطمینان اور نفاست سے رنگ برنگی تکونی جھنڈیاں کاٹتے۔ تب تک لئی بھی ٹھنڈی ہو چکی ہوتی ۔ ہرکوئی حسب استطاعت لئی جھنڈیوں کے سرے پر لگاتا جاتا اور صاف پتا چل جاتا کی کون سی جھنڈی ڈوری پر کس نے چپکائی ہے۔

پاکستانی جھنڈیوں کی الگ لڑی تیار کی جاتی اور رنگ برنگی تکونی جھنڈیوں کی الگ۔ بہت ساری جھنڈیوں کی لڑیاں تیار ہوجاتیں۔ اور پھر چھت پر “مارشل لاء “لگ جاتا۔ نہ گیند بلا کھیلنے کی اجازت اور نہ پتنگ بازی کی۔ اور جھنڈیاں کہ سوکھنے کا نام تک نہ لیتیں۔ شام جب کھیل کود کا وقت نہ رہتا تو ابا جھنڈیا ں اتارتے۔ ترتیب اور قرینے سے انہیں تہ بہ تہ لپیٹے اور  چودہ  اگست کی تیاری کے سلسلے میں سنبھال کر رکھ لیتے۔ بس اب جھنڈیوں کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا تھا۔ ابا اکثر تو انہیں “منی ” (لکڑی کا بنا ہوا شیڈ جسے اردو میں شاید نیم چھتی کہتے ہیں) پر ہی رکھ دیتے کہ “بچوں کی پہنچ سے دور رہے”۔
تیرہ اگست کی شام، جو اس وقت اکثر گرمی کے موسم میں آتی تھی ، ہم ابا کو اور وہ جھنڈیوں کو جگاتے۔ کئی سالوں سے سنبھالا ہوا پاکستانی پرچم نکالا جاتا جس پر نہ کسی میزائل کی تصویر تھی نہ قائد اعظم کی تصویر بنانے کا ابھی رواج ہوا تھا۔ وہی سادہ اور باوقار چاند تارا، ہریالی اور سفیدی پر چمکتا دمکتا ۔ بچپن سے انسان کو بڑی محبت ہوتی ہے اور بچپن میں ہمیں چودہ اگست اور پاکستان کے پرچم سے بڑی محبت ہوتی تھی ( جو کبھی کم نہیں ہوئی) ۔ دو پتلے لیکن مضبوط بانسوں کو جوڑ کر ایک لمبا بانس تیار کیا جاتا۔ اس کے سرے پر پرچم لگایا جاتا ۔ دیوار کے سیمنٹی جنگلے کے ساتھ مکان کے کونے پر بانس ٹک جاتا اور ابھی ابا رسی باندھنا شروع ہی کرتے کہ سبز ہلالی پرچم خوشی سے جھومنا شروع ہو جاتا۔ جاتے ہوئے دن کی دھوپ پرچم کا سایہ لمبا کردیتی اور ہم کبھی دھوپ کبھی چھاؤں کے مزے لیتے۔ جس جگہ پرچم ختم ہوتا وہیں بانس کے پر جھنڈیوں کی لڑی باندھی  جاتی جس کا دوسرا سرا کچھ نیچے دیوار پر دور باندھدیا جاتا۔ پھر اس کے نیچے دوسری ، تیسری اور چوتھی لڑی بھی باندھی جاتی۔ دیوار کے جنگلے پر الگ سے  جھنڈیاں نیم دائرے کی شکل میں لٹکائی جاتیںَ اور جشن آزادی کی تیاری کا آغاز ہوجاتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم بھاگے بھاگے نانی اماں کے گھر جاتے اور اپنی خالاؤں اور کزن سے کہتے کہ جھنڈیاں لگ گئی ہیں آکر دیکھ لیں۔ ہماری بے تابی دیکھ کر وہ بھی فوراتیار ہوجاتیں اور ہم ان کے آگے آگے بھاگتے گھر آتے کہ “آنٹیاں آئی ہیں”۔
چودہ اگست کی صبح خودبخود ہی آنکھ بہت جلد کھل جاتی۔ بھاگم بھاگ جا کر پرچم اور جھنڈیاں چیک کرتے کہ کیا صورتحال ہے۔ راجہ شوکت حیات مرحوم (اللہ ان کی مغفرت فرمائے) اس وقت اپنے گھر کی دیوار پر جھنڈیاں لگا رہے ہوتے۔ وہ ذرا صاحب حیثیت تھے اس لئے جھنڈیاں بازار سے لاتے تھے۔ بہت خوبصورتی سے اور محنت سے اپنے گھر کی بیرونی دیوار اس طرح جھنڈیوں سے بھر دیتے لگتا کہ سبزہ اگ آیا ہے۔ ساتھ لہلہاتا سبز ہلالی پرچم۔ پرچم سے تو کوئی گھر خالی نہیں ہوتا تھا۔ جھنڈیاں بھی کم و بیش ہر گھر پر لگی ہوتی تھیَ ۔ سجاوٹ کا سب کا اپنا اپنا طریقہ تھا۔ بہر حال ہماری گلی میں قابل ذکر سجاوٹ ہمارے گھر اور راجہ شوکت صاحب کے گھر ہوتی تھی۔
آٹھ بجے سے بہت پہلے تیار ہوکر ٹی وی کے آگے بیٹھ جاتے۔ اظہر لودھی کی کمنٹری شروع ہوجاتی۔ کبھی لئیق احمد کی آواز آتی۔ سارے دوست ہمارے کی ٹیم سہیل رانا کی قیادت میں قومی ترانہ اور ملی نغمہ گانے کے لئے سٹیج پر پہنچ جاتی۔ صدر ِ پاکستان جنرل ضیاء الحق کالی شیروانی اور سفید شلوار پہنے سٹیج کی طرف بڑھتے۔ٹھیک آٹھ بجے ایک چاک و چوبند فوجی افسر جھنڈے کی ڈوری تھوڑی سی کھول کر کھڑا ہوتا اور اسی لمحے جنرل صاحب ڈوری تھام کر اسے کھینچنا شروع کردیتے۔ پاکستانی پرچم آہستہ آہستہ فضا میں بلند ہونا شروع ہو جاتا۔ بس اسی لمحے میں بھاگ کر چھت پر چلا جاتا۔ “اٹین شین” کھڑا ہو جاتا۔ قومی ترانے کی آواز آتی، بلدیہ گوجرخان کا سائرن بجتا، ہاتھ سلامی کے انداز میں خودبخود ماتھے تک پہنچ جاتا اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے۔ تب تو یہ بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ عین اسی لمحے آنکھوں میں یہ پانی کدھر سے اور کیوں آجاتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply