بابے دا جہاز۔۔۔۔محمود چوہدری/سچی کہانی

سن تھا 1947ء۔ گاﺅں کے اوپر سے ایک فوجی ہیلی کاپٹر گزرا۔بچے شور مچانا شروع ہوگئے ”وہ دیکھو بابے دا جہاز“۔ ”بابے کا جہاز“ کی آوازرضیہ کے کانوں میں پڑی تووہ آنکھیں ملتی ہوئی اٹھ بیٹھی، اس نے پاگلوں کی طرح گلیوں میں دوڑ لگادی اورجہاز کے پیچھے بھاگنا شروع ہوگئی ۔رضیہ کی عمر صرف چار سال تھی ۔کل رات وہ روتے روتے سو گئی تھی ۔رونے سے اسکے سرخ و سپید گالوں پرآنسو جم گئے تھے ۔ رونے کی وجہ بڑی عجیب تھی اس کی ممانی نے اس کے سامنے روٹی اور سالن رکھا تو وہ رونا شروع ہوگئی۔ وہ محمد دین گجر کی بیٹی دودھ مکھن سے پالی گئی تھی ۔اسے صرف سفید رنگ کی ترکاری کا پتہ تھا ۔باجرے کی روٹی پر مکھن کا پیڑا ، لسی کے گلاس میں مکھن کی پیڑا ،گرم دودھ کے اوپر سفید ملائی ۔ مرچ مصالحے والی رنگین ترکاری سے اسے نفرت تھی ۔ اس کے ماموں مکھن تو لے آئے لیکن اب اس کی ایک اور ضد تھی اسے تو بابا کی گود میں بیٹھ کر کھانے کی عادت تھی لیکن بابا ہی تو نہیں تھے ۔وہ اس کے ساتھ نہیں آئے تھے ۔

رات کے اندھیرے میں رضیہ کی ماں اس کی بہن اور بھائی کو گھوڑے پر بٹھا کر لے آئی تھی ۔وہ بابا کے بنا ایک پل نہیں رہتی تھی ۔ بابااسے کندھوں پر بٹھا کر کھیتوں کی سیر کراتے تھے ۔ اسکے دادانبی بخش پورے گاﺅں کے چوہدری تھے ۔انکے گاﺅںکا نام بھی ان کی برادری کے نام پر تھا۔ ”بانیاں “ یہ ایک چھوٹا سا گاﺅں تھا ۔تقسیم کے بعد انڈیا میں آئے گا یا پاکستان میں،کوئی نہیں جانتا تھا ۔ آس پاس کے اکثر دیہات برہمنوں سکھوں اوربروالوں کے تھے ۔ گاﺅں میں دو چارہی کمیوں کے گھر تھے ۔ان کے سارے کام ساتھ والے گاﺅں سے ہندو بروالے آکر کرتے تھے ۔ان کی زمینوں میں کھیتی باڑی کرتے ان کے ڈھور ڈنگروں اور گھوڑیوں کے چارے کا بندو بست کرتے ۔بروالی عورتیں ان کاپانی بھرتیں اور ان کے گھر کی صاف ستھرائی کا کام کرتیں۔۔

چوہدری نبی بخش کا گھرانہ آس پاس کے گاﺅں میں بھی بڑا عزت دارسمجھا جاتا تھاکیونکہ اس کا چچا زاد بھائی ذیلدار تھا اس کا اکلوتا بیٹا محمد دین اور اس کے بھتیجے اکبر علی اور نیاز علی زمینداری سنبھالتے تھے ۔ اس کا بھتیجا احمد خان پٹواری،برکت علی تحصیلداراور رحمت علی پونچھ میں تھانیدار تھا جبکہ خود نبی بخش بھی نمبردار تھا ۔ ارد گرد کے مسلمان دیہاتوں میں ان کی عزت کی وجہ ان کی فیاضی ،سخاوت ،خدا خوفی اوردین سے لگاﺅتھی۔ ملک تقسیم ہو نے والا تھا ۔ دیہاتوں کی فضا میں خوف کے سائے لہرا رہے تھے ۔ دوست دشمن بننے لگے تھے ۔ہرشام ساری برادری اکٹھی ہوتی اور چوہدری نبی بخش کے ڈیرے پر بیٹھک سجتی ، ایک دن ڈرتے ڈرتے چوہدری احمد خان پٹواری کہنے لگا چاچا جی فضا ءتبدیل ہو رہی ہے آس پاس کے دیہاتوں میں مسلمانوں پر حملے ہو رہے ہیں سنا ہے کہ ہندو جتھوں کی صورت میں حملہ کرتے ہیں اور سب کو تہہ تیغ کر دیتے ہیں۔کم و بیش سارے دیہاتوں میں مسلمان گجرات ہجرت کر گئے ہیں۔اور ہمیں تو ہجرت کی بھی ضرورت نہیں گھر کی ساری خواتین گجرات سے ہیں تو کیوں نہ ہم بھی کچھ دنوں کے لئے اپنے بچوں کوننھیال بھیج دیں ۔چوہدری نبی بخش نے بھتیجے کی طرف دیکھا اور کہنے لگا” کیا ہم حملوں کے ڈر سے اپنا گاﺅں چھوڑ دیں ۔ دھرتی ماں ہوتی ہے ماں کو بھی بھلا کوئی چھوڑتا ہے ۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ یہ ساتھ کے گاﺅں والے بروالے جن کے خاندانوں کو ہم بچوں کی طرح پال رہے ہیں یہ ہمارے اوپر ہتھیار اٹھائیں گے “

گاﺅں سے آہستہ آہستہ مسلمان رخصت ہورہے تھے ۔لیکن نبی بخش کے گھرانے میں کسی کو ہجرت کی اجازت نہیں تھی ۔ اس کے بھتیجے رحمت علی اور برکت علی اپنی اپنی سرکاری نوکریوں کے سلسلے میں پونچھ میں تھے ۔گھرکے نوجوان گاﺅں سے تیس میل دور گجرات شہر میں پڑھتے تھے ۔اکبر علی ، نیاز علی، محمد دین ، احمد خان پٹواری اور رحمت خان ذیلدارکے بیٹوں سمیت گھر میں اب کل بار ہ مرد، ان کی خواتین اور ان کے چھوٹے بچے تھے جس میں چوہدری اکبرعلی کا اکلوتا بچہ اصغر علی اور محمد دین کے بچے محمد حسین ، ارشاد بیگم اور رضیہ بھی شامل تھے ۔رات کو عشاءکی نماز کے بعد بیٹھک برخواست ہوئی اور چوہدری نبی بخش اپنے ڈیرے پر سونے چلے گئے سارے بھائی سونے کی تیاری میں تھے کہ ساتھ والے گاﺅں سے چوہدری اکبر علی کا دوست غلام حسین بٹ آدھی رات کو گھوڑی دوڑاتا آگیا۔ چوہدری اکبر علی نے پوچھا خیر تو ہے اس وقت ؟ غلام حسین بٹ کہنے لگا کہ اکبر علی پاکستان بن چکا ہے اور میرے پاس پکی اطلا ع ہے کہ آجکل میں کسی بھی رات کو تمہارے گاﺅں پر بھی حملہ ہوسکتا ہے ۔ احمد خان کہنے لگا کہ یار ہماری جرات نہیں ہے کہ ہم اپنے چاچا جی کے سامنے اونچی آواز میں بات بھی کریں۔اور نہ ہی ہم بھگوڑے بن سکتے ہیں۔ غلام حسین بٹ ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا اور گویا ہوا ”چوہدری اکبرعلی یہ میرے ہاتھوں کی طرف دیکھو اگر تم لوگ نہیں جانا چاہتے تو مت جاﺅ لیکن کم ازکم ان چھوٹے بچوں کا تو خیال کرو اپنی عورتوں کا تو سوچو ۔ تم جانتے ہو جب بلوائی ایسے حملے کرتے ہیں تو عورتو ں اور بچوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں ۔اس خیال سے ہی سارے بھائیوں کی روح کانپ گئی۔

چوہدری اکبر علی نے احمد خان کو کہا کہ وہ عورتوں اور بچوں کو لیکر نکلے چاچا جی ڈیرے پر سوئے ہیں وہ اب صبح فجر کے وقت ہی اٹھیں گے ۔صبح میں انہیں سمجھا لوں گا احمد خان نے انکار کیا اکبر علی کہنے لگا اپنے بڑے بھائی کی بات تمہیں ماننا ہوگی گھوڑیوں پر کاٹھیاں ڈالی گئیں ، بچوں کو جگایا گیا اور انہیں چوہدری احمد خان اورغلام حسین کشمیری کے ساتھ رخصت کر دیا گیا ۔یہ سوچ کر کہ حالات ٹھیک ہوں گے تو واپس آجائیں گے ۔ رات کاپچھلاپہرہوگا جب نتھو دھوبا بھاگتا ہوا آیا اورچوہدری اکبر علی کو کہنے لگا چوہدری صاحب بلوائی پوری تیاری سے آئے ہیں محمد دین کہنے لگا اب آگئے ہیں تو بھاگ کر نہیں مریں گے بلکہ لڑ کر مریں گے ۔نتھودھوبا کہنے لگا مقابلے کا تو آپ سوچو بھی نہیں ۔بروالے ساتھ والے دو تین گاﺅں سے برہمنوں اور سکھوں کے جتھے اکٹھے کر کے لائے ہیں۔

چوہدری اکبر علی نے جلدی جلدی ایک بوری میں گھر سے زیورات ۔ نوادرات اور سکے ڈال کرگھوڑی پر رکھے اور محمد دین کو کہنے لگا تم گھوڑی لیکر نکلو اگر ہمیں کچھ ہوگیا تو کم ازکم بچوں کی زندگی بہتر گزرسکے ۔محمد دین کہنے لگا نہیں اکبر علی میں نہیں جاﺅں گا تمہارا ایک ہی بیٹا ہے تم جاﺅ ۔اکبر علی کہنے لگا محمد دین جانتے ہو تمہیں کیوں بھیج رہا ہوں؟ ”رضیہ کے لئے ۔۔۔ وہ تمہیں اتنا پیار کرتی ہے کہ اگر تمہیں کچھ ہو گیا تو وہ زندہ نہیں بچے گی۔میری بات مانواور نکلو یہاں سے اکبر علی نے دھکا دیتے ہوئے کہا ۔جب رضیہ کابابا گھوڑی لیکر نکلا تو گاﺅں میں جو بولے سو نہال ، جئے شری رام کے نعرے بلند ہو رہے تھے ۔چوہدری اکبر علی دروازے کی طرف کلہاڑی لینے لپکا۔ لیکن دیر ہو چکی تھی بلوائیوں نے ایک ساتھ دھاوابولا اور گھر کے تمام مردوںکو گاجر مولی کی طرح کا ٹ ڈالا ۔ مرنے والے مردانہ وار لڑے یا نہیں۔ کوئی نہیں جانتا البتہ اسی حویلے کے صحن میں پڑی ان کی لاشیں ظاہر کرتی تھیں کہ وہ بھگوڑے نہیں تھے ۔ گھر کے بیٹوں نے اپنی جانیں تو دے دیں لیکن جیتے جی بلوائیوں کو چوہدری نبی بخش کی بیٹھک کی طرف جانے سے روکے رکھا ۔

فجر ہو چکی تھی ادھر ڈیرے پر چوہدری نبی بخش وضو کر رہا تھا ۔جب اس کے سامنے ہندو بروالے ہاتھ باندھ کر نمستے کہہ رہے تھے۔ ایک کہنے لگا ”سن چوہدری تیرے اکبر علی کو مار دیا ہے ۔تیرے نیاز علی کو بھی مار دیا ہے تیرے چچا زاد ذیلدار کواور اس کے بیٹوں کی بھی مار دیا ۔ہاہاہاتیرے گھر کے سارے جوان مار دئیے ہیں ۔چوہدری نبی بخش اٹھ کر کھڑا ہوا اطمینان سے شہادت کی انگلی اٹھائی اور کچھ پڑھنے کے بعد کہا پھر کس بات کا انتظار ہے۔ مجھے بھی مار دو۔۔۔ ۔ چوہدری نبی بخش کی شکل میں رعب دبدبہ اور اطمینان کی ملی جلی کیفیت دیکھ کربروالے حیران ہو کر کہنے لگے ”نہیں چوہدری ۔تمہیں نہیں مارنا ۔ ابھی تو تیری آنکھوں کے سامنے تیری اس سلطنت کو لوٹنا ہے “۔ حویلی میں بلوائیوں کے قہقہے تھے ۔ وہ لوٹ مار کے لئے کمروں میں گھس گئے۔ چوہدری نبی بخش نے سوچا بیٹوں کو رونے کے چکر میں پڑگیا تومیری فجر قضا ہو جائے گی۔ وہ سیدھا مسجد میں چلاگیا ۔ مسجد کے اندر جانے کی دیر تھی کہ ہندوﺅں نے سوچا یہی موقع ہے انہوں نے مسجد کو باہر سے آگ لگا دی ۔چوہدری نبی بخش ایسا نماز ی ثابت ہوا جو مسجد کے اندرتو گیا لیکن واپس کبھی نہیں آیا ۔

ادھر دوسرے گاﺅں میں رضیہ جہاز کے پیچھے دوڑی ”میرے بابے دا جہاز“ ”میرے بابا کا جہاز“ ۔گاﺅں کے بچے ہنسنا شروع ہو گئے ۔کہنے لگے یہ تمہارے بابے کا جہاز نہیں یہ بابے قائد اعظم کا جہاز ہے ۔دراصل بچے ہر گزرنے والے جہاز کو بابے قائد اعظم کا جہاز کہتے اور سمجھتے تھے۔ اگلے دن نتھو دھوبا آیااس نے آکر بتایا کہ رضیہ کا بابا اب کبھی نہیں آئے گا۔ چوہدری محمد دین گھوڑی دوڑاتے گاﺅں سے نکل رہا تھا کہ راستے میں ایک مسلمان نوجوان گاﺅں سے جان بچا کر بھاگ رہا تھا ۔ محمد دین نے گھوڑی روکی اور اسے بھی بٹھانا چاہا لیکن نوجوان گھڑ سوار نہیں تھا ڈر اور خوف سے اتنا گھبرایا ہوا تھا کہ کوشش کے باوجود گھوڑی پر بیٹھ نہیں پا رہا تھا ۔ اتنے میں بلوائیوں نے ان دونوں کو ندی کنارے جا گھیرا۔ نتھو دھوبا کہنے لگا وہ مجھے بھی مار دینا چاہتے تھے لیکن میں نے برہمنو ں کو واسطہ دیا کہ میں تو آپ کا بھی کمیں ہو اوران مسلوں کا بھی کمیں ہوں ۔ ان میں سے ایک بولا یہ ٹھیک کہتا ہے ا سکو مارنے کا کوئی فائدہ نہیں اس کو ساتھ لے چلتے ہیں یہ ہمارے کام آئے گا چوہدریوں کے گھروں سے سامان اٹھوائیں گے۔ پھر سارا دن وہ مجھ سے آپ کے گھروں سے سامان نکلواتے رہے رات کو وہ سب شراب کے نشے میں دھت اپنی فتح کا جشن منا رہے تھے اور میں آنکھ بچا کر بھاگ آیا۔رضیہ نے جب یہ سنا کہ اس کا بابااب کبھی نہیں آئے گا ایک فلک شگاف چیخ اس کے حلق سے نکلی اور اس نے اپنی ننھی جان جان آفرین کے سپرد کر دی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ ۔ اس کالم میں چوہدری اکبرعلی میرے داداجان ہیں اور رضیہ میری خالہ ہیں جو صرف چار سال کی عمر میں اپنے با پ محمد دین کی موت کے غم میں فوت ہو گئی ۔ اس کالم کا مقصد نوجوان نسل کو بتا نا مقصود تھا کہ اس کی بنیادوں میں کتنے لوگوں کا لہو شامل تھا اس وطن کی قدر کریں اس سے پیار کریں۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply