ملک میں الیکشن کا دور دورہ ہے عوامی الیکشن کے بعد پاکستان انجینئرنگ کونسل کے الیکشن کی زور و شور سے مہم جاری ہے۔ الیکشن 12 اگست 2018 کو پورے پاکستان میں منعقد ہوگا اور پی ای سی سے رجسٹرڈ انجینئرز ملک بھر میں نامزد نادرا آفسز میں اپنا ووٹ کاسٹ کریں گے۔ http://verification.pec.org.pk/EngineersVerification
اوپر دئیے لنک سے آپ کنفرم کر سکتے ہیں کہ آپ ووٹ دینے کی اہلیت رکھتے ہیں یا آپ کی رجسٹریشن میں کوئی مسئلہ ہے۔ نادرا آفس میں انجینئرز کا بائیو میٹرک ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے اصلی شناختی کارڈ کی موجودگی اور انجینئرز رجسٹریشن نمبر کا معلوم ہونا ضروری ہوگا۔ پی ای سی رجسٹریشن کارڈ نا ہونے کی صورت میں بھی آپ ووٹ دینے کے اہل ہوں گے۔
انتخابات کی بات کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل ماضی میں کتنا کامیاب ادارہ رہا ہے۔ ایک ایسا ادراہ جس کی منظوری کے بغیر کوئی یونیورسٹی کسی بھی انجینئرنگ ڈسپلن کی ڈگری جاری نہیں کر سکتی۔ لیکن بحیثیت پاکستانی انجینئر شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ٹاپ 100 انجینئرنگ یونیورسٹیز میں کسی پاکستانی یونیورسٹی کا نام دور دور تک نظر نہیں آتا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ پی ای سی ایسی یونیورسٹیز کی ڈگری ریکگنائز کیوں کرتی ہے جو عالمی معیار پر پوری نہیں اترتی ؟ یا ایسے قوانین کیوں مرتب نہیں کئے جاتے کہ یونیورسٹیز عالمی چیلنجز اور رینکنگ کا مقابلہ کرسکیں۔ جن یونیورسٹیز کا ایسا پست معیار ہے وہاں سے ہم کیسے امید کر سکتے ہیں کہ ہاکنگ ، ارشمیدس ، نیوٹن یا فرائیڈے جیسے قابل سائنسدان سامنے آ کھڑے ہوں گے۔ کیا پی ای سی الیکشن صرف اور صرف ایک ایسا اکھاڑہ بن چکا ہے جہاں دولت کے ہیر پھیر سے ایسے لوگ سامنے لائے جاتے ہیں جن کا مقصد انجینئرز کے حقوق کی بجائے اپنا کاروبار چمکانا ہوتا ہے۔ غیر معیاری انجینئرنگ یونیورسٹیز کا مطلب پی ای سی کا مکمل فیلئر ہے وجوہات کچھ بھی ہو سکتی ہیں آپ کے پاس نااہل لوگ ہیں یا آپ کے پاس پالیسی میکرز کا فقدان ہے یا آپ کی توجیہات کچھ اور ہیں۔
موجودہ چئیرمین لیوپرڈ کورئیر کمپنی کو بغیر کسی ٹینڈر کے کنٹرکٹ دیتے ہیں پی پی آر اے کے رولز کی خلاف ورزی پر کوئی ان سے سوال نہیں کر سکتا ؟ ایسی کوئی گورننگ باڈی کیوں نہیں ہے کہ جو پی ای سی پر چیک اینڈ بیلنس رکھ سکے ؟ لگ بھگ دو سو اسسٹنٹ رجسٹرار کنٹریکٹ بنیادوں پر پی ای سی کے ملازم کس قانون کےزمرے میں آتے ہیں۔؟ سو سے زائد لور سٹاف بغیر کسی ایڈورٹائز منٹ کے کس طریقے سے اپوائنٹ بلکہ سیلیکٹ کئے جا سکتے ہیں اگر اسی ادارہ میں میرٹ کی دھجیاں اڑائیں جائیں گی جس نے میرٹ قائم کرنا ہے تو پھر خدا ہی حافظ ہے۔
سب انجینئرز کی ایک مشترکہ شکایت اور دکھڑا ہے کہ بی اے، بی کام پاس افراد مختلف آرگنائزیشن میں بطور انجینئر کیسے تعینات ہیں اور پی ای سی کوئی ایکشن کیوں نہیں لیتی۔ بی اے بی کام سے کوئی مسئلہ نہیں مسئلہ صرف میرٹ کا ہے جہاں بی کام کی ضرورت ہو وہاں انجینئرکو اکاؤنٹنٹ تعینات کردینا انکی حق تلفی ہو گی اور جہاں انجینئر کا کام ہے وہاں بی کام کو گھسیڑ دینا نا صرف اس انجینئر کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ پوری قوم کے ساتھ ایک مذاق ہے کہ نان ٹیکنیکل افراد کو آگے لا کر ریسرچ اور ڈیوپلمنٹ کے راستے مسدود کردئیے جائیں۔ عید قربان قریب ہے تو مثال یہ بھی دی جاسکتی ہے کہ نائی استرے چلانا تو خوب جانتا ہے لیکن بکرا ذبح کرنے کی کوشش میں حرام گوشت ہی کھلائے گا۔ پی ای سی نے ہی یہ مسائل دیکھنے تھے لیکن افسوس انکے اپنے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کا کرتا دھرتا ایک مکینیکل انجینئر ہے جو کنٹریکٹ پر لاکھوں روپے کا معاوضہ تو لے رہا ہے لیکن اس سسٹم کے لئے کسی بھی لحاظ سے موزوں نہیں۔
لاکھوں انجینئرز غیرممالک تلاش معاش کے لئے برین ڈرین کا سبب بن رہے ہیں جو یہاں مقیم ہیں انہیں نوکریوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ پی ای سی ابھی تک ایسی پالیسی مرتب نہیں کر سکی کہ آرگنائزیشنز کو انجینئرز پیکج کے لئے باؤنڈ کیا جا سکے۔ فریش انجینئرز، دو سالہ پانچ سالہ 15 سالہ انجینئرز کی کم از کم تنخواہ متعین کرنے کے لئے کیا پالیسی بنائی گئی ؟ میڈیکل اور لائف انشورنس پر کیا چیک اینڈ بیلنس رکھا گیا؟ ایسی کمپنیز پی ای سی سے لائسنس کیسے حاصل کرسکتی ہیں جو کمپنیز کو ایک دوکان کی طرح چلاتی ہیں ان کے پاس فنڈز نہیں کہ وہ انجینئرز کو کوئی میڈیکل فیسیلیٹی دیں سکیں یا ان کا سارا زور صرف اور صرف مال بنانے پر ہے تو چیک اینڈ بیلنس کون رکھے گا۔ کیا کوئی پی ای سی نے ایسا سیل قائم کیا جہاں کسی کمپنی سے بیزار کوئی انجینئر اپنی شکایت درج کرائے اور اس کمپنی کا لائسینس منسوخ ہونے کی نوبت آ جائے ؟
پی ای سی میں دو پینل ہی گزشتہ 6 اور 10 سال سے براجمان ہیں اس لئے میں توقع رکھتا ہوں کہ عوامی الیکشن کی طرح انجینئرز نئے چہرے اور نئے پینل کو متعارف کرائیں کھوٹے سکے بار بار آزمانے سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں