سرخ لکیریں۔۔۔۔شہزادسلیم عباسی

کچھ چیزیں اگر طہ کر لی جائیں تو بہتر ہے۔ بعض سرخ لکیروں کو عبور نہ کیا جائے۔ Civil Supermacy ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کے قریب ہے۔یہ انتہائی موضوع وقت ہے کہ تمام سیاسی، دینی ومذہبی جماعتیں اورادارے طہ کرلیں کہ Red lines کیا ہیں؟مذہب میں سرخ لکیریں کیا ہیں؟ معاشرت، معیشت، ریاست اور وطن میں سرخ لکیروں کی کیا اہمیت ہے؟ اور جو انہیں عبور کرنے کی کوشش کرے گا چاہے وہ عامی ہو یا خاص، سخت سزا کا مستحق ہوگا۔معاملہ فہمی کے لیے یہاں چند مثالوں کاتذکرہ ازحد ضروری ہے۔ کچھ سرخ لکیریں اخلاق باختہ ہوتی ہیں، جیسے کہ شیخ رشید اورپرویز خٹک کے طرز تکلم میں بے ہودگی اور اخلاقی گراوٹ،اورسوشل میڈا پر دونوں بڑی جماعتوں کے خیر خواہوں کا ایک دوسرے کے خلاف غلیظ ترین گالیاں لکھ کر فضا کو آلودہ کرنا شامل ہے۔ اسی طرح دین و مذہب میں بھی کچھ سرخ لکیریں ہیں جن کا پاس رکھنا ہر صورت لازم ہے نہیں تو نفس امن کا خطر ہ ہے جیسے کہ ٹویٹر پرعرصہ دراز سے ایک پیج ”بھینسا“Bhensa کے نام سے Blasfemy lawکی مخالفت کر رہاہے، وہ کبھی شان رسالت ﷺ میں گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے، کبھی قرآن کی بیحرمتی کرتا ہے اور کبھی اسلام کامذاق اڑاتا ہے۔اسی طرح مدارس کے اندر یا باہر مسلکی بنیادوں پر لوگوں پر کفر کے فتوے داغنا اور وطن کی محبت اور اداروں کے احترام کو پس پشت ڈالنا بھی سرخ لکیروں کا شاخسانہ ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جو جمود اور سکوت توڑا ہے اور میڈیا کے سامنے جن خدشات اور حقائق پر سے پردہ اٹھایا ہے وہ خوفناک حد تک عوام میں مایوسی کی راہ ہموار کررہی ہے۔ داخلہ و خارجہ پالیسیوں کا قانون کے مطابق ہونا، عدالتوں کا بغیر کسی ڈر اور خوف کے بروقت فیصلے کرنا اور دیگر اداروں کا آزادانہ اور منصافانہ انداز میں کام کرنا ہی ہمیں انارکی، خانہ جنگی اور افراتفری سے باہر نکال سکتا ہے۔خیر معاملہ جو بھی ہے جب تک پارلیمنٹ اور دیگر ادارے خود احتسابی کے عمل سے نہیں گزریں گے،عوام اپنا غم و غصہ چوکوں، چوراہوں، میڈیا ہاؤسز اور خفیہ ہتھکنڈوں سے نکالتے رہیں گے جو کہ خاکم بدہن ملک کے تباہ کن ہو گا۔کہنے کو تو ہمارے ملک کا قانون اسلامی ہے مگر رویے یہود و ہنود سے بھی بد تر ہیں۔ دیکھنے میں تو ہم اسلام کا قلعہ ہیں اور سب سے بڑی اسلامی ایٹمی طاقت ہیں،مگر حقیقت میں ایٹمی پاور ہونے کے باوجود بھی 80% عوام غربت و افلاس کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

سرخ لکیروں کے عبور کرنے کی کچھ وجوہات ہیں جو دیمک کی طرح ہمارے معاشرے کی جڑوں کو کھوکلا کر رہی ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں یعنی ہمارا اندونی و بیرونی کیمو فلاج مختلف ہے۔امیر اور غریب کے لیے جدا پالیسی ہے۔مجموعی طور پر طبقاتی نظام ہے۔ بے ایمانی اور کرپشن سے ہمارا ملک اٹا ہے، سزا کا کلچر نہیں ہے یہاں تک کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے جج اورمنصف بھی خود کو احتساب کے لیے پیش کرنے سے خائف ہیں اوربیوروکریسی کی زہریلی جڑیں مضبوط ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حل طلب نقطہ یہ ہے کہ جن صوبوں یا علاقوں میں Reservesہیں، رائلٹی بھی انہیں دیکر چھوٹے صوبوں کی احساس کمتری ختم کی جائے۔ ایم کیو ایم، اے این پی اور کاالعدم تحریکوں کو اعتماد میں لیا جائے اور غموں اور زیادتیوں کا ازالہ کر کے قومی دائرے میں شامل کیا جائے۔ بلوچستان کی محرومیوں کو دور کرنے کے لیے اے پی سی بلائیں اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایمرجنسی بنیادوں پر بلوچستان کے 50سال سے غصب شدہ حقوق دلوائے جائیں۔ ملک کے جوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پید ا کریں وگرنہ وہ متفر ہو کر سرخ لائین کراس کرنے کا سوچیں گے۔ عوام کی طاقت کو ہی اللہ کی طاقت کے بعد حتمی مانا جائے۔ اگر ایسا نہ ہوسکا تو خدانخواستہ کل اسفند یا راور محمود خان اچکزئی پھرسے پاک فوج کے خلاف ہرزا سرائی کریں گے،ایم کیو ایم دم پر سے پاؤں ہٹتے ہی پرانی روش پر آجائے گی۔یقیناانصاف اور قانون کی حکمرانی ہی ملک کی تقدیر بدلنے کا آخری اور Ultimateحل ہے اور سرخ لکیر وں کے خاتمے کا سبب بھی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply