دہلی تلوار کی دھار پر۔۔۔۔ حفیظ نعمانی

دہلی کے ساتھ سب سے بڑا ظلم اس نے کیا تھا جس نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ دہلی کے دو شوہر ہوں گے۔ آدھی دہلی مرکزی حکومت کی ٹانگ کے نیچے ہوگی اور آدھی دہلی منتخب صوبائی حکومت کی ٹانگ کے نیچے۔ یہ اس وقت تک تو رحمت بنی رہی جب تک مرکز میں جس پارٹی کی حکومت ہوئی اس کی ہی دہلی میں منتخب حکومت ہوئی، لیکن اس دن عذاب بن گئی جس دن مرکز میں دوسری پارٹی کی حکومت آگئی اور دہلی میں کسی اور پارٹی نے حکومت بنالی۔ اور اس کا تو شاید فیصلہ کرنے والوں نے تصور بھی نہ کیا ہوگا جو اب ہورہا ہے کہ مرکز میں حکومت ایک پارٹی کی ہے اور مرکز میں ہی حزب مخالف دوسری پارٹی ہے لیکن دہلی میں ایک تیسری پارٹی کی حکومت ہے جس کی مرکزی حکومت بھی دشمن ہے اور حزب مخالف بھی۔

مرکز میں جب بی جے پی کی حکومت بنی تو کانگریس کے بنائے ہوئے جتنے بھی گورنر تھے رفتہ رفتہ سب کو ہٹا کر بی جے پی کے بے روزگار لیڈروں کو گورنر بنادیا۔ دہلی چونکہ پورا صوبہ نہیں گنا جاتا اس لیے اس کا گورنر بھی آدھا یعنی لیفٹیننٹ گورنر ہوتا ہے، جو مرکزی حکومت کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اگر مرکز اور دہلی میں ایک پارٹی کی حکومت ہو تو دونوں بھائیوں کی طرح مشوروں سے فیصلے کرتے ہیں اور اگر آج کی جیسی صورت ہو تو ہوتا یہ ہے کہ مرکزی حکومت ہر اس فیصلہ میں کیڑے نکالتی ہے جو صوبائی حکومت کرے اور صوبائی حکومت مرکز کے ہر حکم میں نقصان تلاش کرتی ہے۔

اور سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ پولیس مرکزی حکومت کے ماتحت ہے، جس کے اوپر سب سے زیادہ ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور کارپوریشن ہر شہر کی طرح الیکشن کے بعد جس پارٹی کی اکثریت ہو اس کی نگرانی میں ہوتا ہے اور یہ دہلی کی بدقسمتی ہے کہ کارپوریشن پر بھی بی جے پی کا قبضہ ہے۔ اس سال مہینوں سے دہلی ڈینگو اور چکن گنیااور ملیریا جیسی وبائی بیماریوں میں مبتلا ہے۔ عوامی حکومت کی نگرانی میں اسپتال ہیں جن کی ذمہ داری علاج کرنا اور وبا کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کرنا ہے۔

سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران سوال اٹھایا تھا کہ جو پیسے حکومت کارپوریشن کو بجٹ کے طور پر دیتی ہے ان پیسوں سے کتنا کام ہوا؟ صفائی ہوئی یا نہیں؟ محترم جج صاحب نے حکومت سے سوال کیا کہ آپ جو کارپوریشن کو سوکروڑ روپے دیتے ہیں تو پھر اگر کہیں کوڑا نظر آئے تو یہ معلوم کیوں نہیں کرتے کہ ان پیسوں کا کیا ہوا؟ ہمیں نہیں معلوم کہ اس کا کیا جواب دیا گیا، لیکن ہم دہلی سے ۵ سو کلومیٹر دور بیٹھے یہ دیکھا کرتے ہیں کہ دہلی کارپوریشن کا صفائی مزدور وزیر اعلیٰ کجریوال کو اپنا دشمن سمجھتا ہے اور اپنے کو وزیر اعظم کا سگا بیٹا۔

اسی سال کے ابتدائی مہینوں میں بار بار صفائی مزدوروں نے ہڑتال کی اور ہر بار ایک ہفتہ سے زیادہ سڑکوں اور کالونیوں میں اتنا کوڑا جمع کرایا گیا کہ سڑکیں چھپ گئیں اور اروند کجریوال کے گھر میں اور ان کے دفتر اور اسمبلی ہال میں کوڑا باقاعدہ پھینکا گیا۔ یہ وہ حرکت تھی کہ اگر عدالت عظمیٰ سے فریاد کی جاتی تو شاید وہ کوڑا جمع کرنے والے ملازم کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دے دیتی۔

سپریم کورٹ نے دہلی کے وزیر صحت پر ۲۵ ہزار روپے جرمانہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ کا ہر حکم حرف آخر ہے۔ اس کا ہر فیصلہ سر آنکھوں پر، مگر ہم جو کسی کے طرفدار نہیں ہیں ، یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ دہلی میں جو مرا ، یا بیمار ہوا اس کی ذمہ داری محترم وزیر اعظم پر ہے۔ انھوں نے دہلی کے الیکشن کو اس طرح لڑا جیسے امریکہ کا صدارتی ا لیکشن لڑا جارہا ہے۔ اور ہارنے کے بعد ان کی شخصیت کو اتنا نقصان پہنچا کی وہ آدھی رہ گئی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے دہلی میں بی جے پی کے درجنوں بے روزگار لیڈروں کے ہوتے ہوئے مسٹر نجیب جنگ کو لیفٹیننٹ گورنر رہنے دیا صرف اس لیے کہ کجریوال سے وہ انتقام لینا چاہتے تھے اور اعتراض کرنے والے کا یہ کہہ کر منہ بند کرنا چاہتے تھے کہ یہ ایک مسلمان نے کیاہے جسے کانگریس لائی تھی اور مودی صاحب جانتے ہیں کہ سرکاری مسلمان جتنا سرکار کا وفادار ہوتا ہے اتنا اپنے پروردگار کا بھی نہیں ہوتا۔ (اللہ معاف کرے)

اوریہ محکمہ صحت کے سکریٹری نے اپنے کردار سے ثابت کردیا کہ وزیر صحت کے کئی بار کہنے کے باوجود وہ میٹنگ میں شریک نہیں ہوئے۔ اور وزیر صحت کی مخالفت کے باوجود نجیب جنگ نے انہیں سکریٹری بنادیا اور سکریٹری نے چھٹی پر جانے سے پہلے نہ اپنے وزیر سے اجازت لینا ضروری سمجھا۔ اور نہ انہیں خبرکرنا۔ دہلی کی حکومت کے محکمہ صحت نے محلہ محلہ کلینک کھولنے کی کوشش کی تاکہ اسپتالوں میں بھیڑ کم سے کم ہو لیکن چندرا کر بھارتی سکریٹری نے برائے نام بھی اس میں دلچسپی نہیں لی۔

یہ سال تو اب ختم ہونے والا ہے، ڈھائی سال ابھی بی جے پی کی مرکز میں حکومت رہے گی اور ساڑھے تین سال دہلی میں کجریوال کی حکومت رہے گی۔ اگر ہم گندگی پھیلائیں اور تم سے بن پڑے تو وبائی امراض روکو‘‘،کا ٹورنامنٹ ایسے ہی چلتا رہا تو شاید دہلی میں نہ کوئی افسر بچے گا اور نہ کوئی وزیر جو بیساکھیوں اور واکر سے نہ چلے۔ اب بات جب سپریم کورٹ میں ہی آگئی ہے تو اسی سے فیصلہ کرانا چاہئے کہ کیا کیا جائے؟ مرکزی حکومت تو یہ چاہے گی کہ کجریوال حکومت کی نااہلی کی وجہ سے صدر صاحب حکومت برخاست کردیں لیکن ایک ایسی حکومت جو ۹۵ فیصدی کی حمایت سے بنی ہو، اسے گرانا جمہوریت کو جڑ سے اکھاڑنا ہے۔ اور سپریم کورٹ اسے کیسے برداشت کرے گا؟ لیکن اس کا حل بھی نکالنا ہوگا کہ گندگی سے بیماری پھیلانا اور علاج سے اچھا کرنا دو دشمنوں کے ہاتھ میں ہو تو فتح گندگی کی ہوگی۔ اس لیے ضروری یہ ہے کہ یا تو کارپوریشن صوبائی حکومت کے کنٹرول میں دے دی جائے یا اسپتالوں کو مرکزی حکومت اپنے ہاتھ میں لے لے اور پولیس ریاستی حکومت کو دے دے۔

اب تک دو فریق تھے ۔ سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد تین ہاتھوں میں مسئلہ آگیا۔ اب کل جماعتی میٹنگ بلا کر دہلی حکومت کے اختیارات پر نئے سرے سے غور کیا جائے یا پورا مسئلہ سپریم کورٹ کے سپرد کردیا جائے کہ وہ ۹۵ فیصدی کی حمایت کا بھی لحاظ رکھے اور اس کا بھی کہ مرکز کے پاس کیا رہے اور صوبائی حکومت کے پاس کیا کیا رہے؟ دستور میں جیسے بہت سی باتیں دور تک سوچے بغیر لکھ دی گئیں اور اب بار بار قینچی لگائی جارہی ہے۔ اسی طرح شاید ان رشتوں پر بھی زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ اور یہ سوچ لیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مرکز میں کسی اور پارٹی کی حکومت ہو اور آدھی دہلی میں کسی اور کی؟ لیکن اب یہ دیکھ لیا کہ اس کی بھی ہوسکتی ہے جس کے بارے میں سوچا بھی نہ ہو۔ اب پھوڑا پک گیا ہے تو اسے اچھا بھی کرنا ہے اوراس کا انتظام بھی کہ دوسرا پھوڑا نہ بنے۔

ملک الموت کو ضد ہے کہ میں جاں لے کے ٹلوں

Advertisements
julia rana solicitors london

سر بسجدہ ہے مسیحا کہ میری بات رہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply