• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سرگودھا الیکشنز نتائج اور مجموعی شعور ۔۔۔۔ولائیت حسین اعوان/حصہ دوم

سرگودھا الیکشنز نتائج اور مجموعی شعور ۔۔۔۔ولائیت حسین اعوان/حصہ دوم

سرگودھا الیکشنز نتائج اور شعور۔۔۔۔ولائیت حسین اعوان
پچھلے کالم میں سرگودھا میں حالیہ انتخابات کے حوالے سے مجموعی صورت حال اور این اے 90 شہر سرگودھا کے حوالے سے نتائج کا جائزہ لیا گیا۔۔آج این اے 88 سرگودھا 1 اور ملحقہ صوبائی حلقوں پی پی 72۔۔73 کے حوالے سے انتخابی نتائج کا جائزہ لیا جائے گا۔
این اے 88 بھلوال بھیرہ میانی پھلروان اور ملحق دیہاتوں پر مشتمل 4،87000 ووٹرز کے ساتھ ایک بڑا انتخابی حلقہ ہے۔
پی ٹی آئی نے اس حلقہ سے سابق رکن قومی اسمبلی پیپلز پارٹی کے سابق جنرل سیکرٹری ندیم افضل چن کو انتخابات سے کچھ دن پہلے جماعت میں شامل کر کے قومی اسمبلی کی سیٹ کے لیئے نامزد کیا۔ندیم افضل چن بلاشبہ قومی سطح کے سیاستدانوں میں شمارہوتے ہیں۔ایک اچھے سپیکر سلجھے ہوئے ،ذہین سیاستدان اور ایک محنتی اور مخلص سیاسی ورکر ہیں۔انکا سب سے بڑا کارنامہ اپنے 5 سالہ دور میں علاقہ میں سوئی گیس کی فراہمی تھی۔انکے مقابلے میں نون کے سابق ایم پی اے ڈاکٹرمختار بھرت تھے۔اس علاقہ میں جماعت اور نظریات سے زیادہ برادری ازم اور دھڑے بندیاں   اہم کردار ادا کرتی ہیں۔بھلوال شہرمیں البتہ نون کی اکثریت ہے۔مزید یہ کہ دو بڑے اور نامور سیاسی خاندان نون لیگ سے وابستہ ہیں۔نون فیملی اور پیر فیملی۔

این اے 88 میں پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کی چھلانگیں ندیم چن کی غلط سیاسی حکمت عملی اور ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی شکست کی وجہ بنی،دو تین سال سے تحریک انصاف سے وابستہ مہر ظفر لک سابق  آئی جی موٹروے کا ٹکٹ منسوخ کروا کے پی پی پی سے ندیم کے ساتھ آنے والے خالق داد پڈھیار کو ٹکٹ دینا اور پھر مہر ظفر لک کے مخالف مہر دستگیر لک سابق ایم پی اے کی حمایت حاصل کرنا ندیم افصل چن کے لیئے بھی مقامی سطح پر مشکلات پیدا کر گیا اور انکے اپنے ہی صوبائی امیدوار کی پوزیشن بھی کمزور کر گیا۔

ندیم چن کو اپنی قومی سیٹ کے ووٹ کے لیئے سابق نون لیگی ایم پی اے اور ظفر لک کے سیاسی مخالف مہر غلام دستگیر سے انتخابی اتحاد مہنگا پڑا۔پہلے یہاں ندیم افضل چن کی سفارش پر خلق داد پڈھیار کو ٹکٹ دیا گیا۔بعد میں حلقہ کی درست معلومات اور زمینی حقائق جاننے کے بعد اور مہر ظفر عباس کی  جماعت کی قیادت کو قائل کرنے کے بعد تحریک انصاف نے ٹکٹ ظفر لک کو دینے کا فیصلہ کیا۔جب اس بات کی خبر آزاد امیدوار مہر غلام دستگیر لک کو پہنچی تو انھوں نے اپنے ہی رشتہ دار ظفر لک جو کہ انکے دیرینہ سیاسی مخالف بھی رہے  کا ٹکٹ منسوخ کرانے کی شرط پر ندیم افضل چن کی حمائیت کرنے کا وعدہ کر لیا۔مہر دستگیر لک جو سابق صوبائی وزیر ٹراسپورٹ بھی رہ چکے ہیں کا موقف تھا کہ انکی ظفر عباس لک سے چند مشترکہ۔دوستوں نے صلح اس شرط پر  کرائی کہ ظفر لک آزاد حیثیت سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑیں گے اور انکے ساتھ مہر دستگیر لک آزاد حیثیت سے صوبائی کا۔لیکن اندر خانے مہر ظفر لک نے پی ٹی آئی سے لابنگ کر کے انکو دھوکہ دیا لہذ ا وہ بھی اب  انکی سیاسی مخالفت کریں گے۔ اس طرع  دوبارہ خالقداد پڈھیار کا ٹکٹ کنفرم ہو گیا۔ مزید دو تین آزاد صوبائی امیدوار ایسے بھی تھے جنھوں نے قومی پر ندیم کی حمایت کر کے اور اسکے  اوراپنے اکٹھے اشتہارات تقسیم کر کے تحریک انصاف کو ووٹ دینے والوں کو یہ تاثر دیا کہ ندیم چن اور وہ اکٹھے ہی ہیں ۔اور اس کا فائدہ آزاد امیدواروں کو ہوا اور نقصان پی ٹی آئی کے صوبائی امیدوار کو۔

گروپ بندی خاندان برادری اور ذاتی مفاد کی سیاست اور کم شرح خواندگی اس علاقے کے بڑے مسائل ہیں۔آخری دنوں میں ندیم چن کے خلاف مذہبی منافرت بھی پھیلائی گئی جسکا نقصان چند جگہوں پر چن صاحب کو ہوا۔2013 میں اسی حلقہ سے تحریک انصاف کے امیدوار کو 9 ہزار ووٹ ملے ۔ندیم۔چن کو پی پی کے ٹکٹ پر 67 ہزار ووٹ ملے اور اب تحریک انصاف کے ٹکٹ پر 1 لاکھ پندرہ ہزار ووٹ ملے۔
پی پی 72 بھیرہ سے ڈاکٹرمختار بھرت کے بھائی صہیب بھرت نون کے ٹکٹ پر تحریک انصاف کے امیدوار سابق ضلع ناظم سرگودھا  انعام پراچہ کے بیٹے حسن انعام پراچہ سے 8000 ووٹوں کی برتری سے جیتے۔یہاں پی پی پی کے امیدوارنے 5 ہزار اور تحریک لبیک کے امیدوار نے 4000 ووٹ لیئے۔سب سے مایوس کن نتیجہ اس حلقہ میں قومی  اسمبلی و صوبائی اسمبلی کے متحدہ مجلس عمل کے امیدواروں کا رہا۔جو کہ ایک نومولود جماعت اور تنہا الیکشن لڑنے والی تحریک لبیک سے بھی پیچھے رہے۔اس حلقہ میں جماعت اسلامی کی معروف اور فعال شخصیت زبیر گوندل نے صرف 2000 ووٹ حاصل کیئے۔اور قومی اسمبلی کی سیٹ پر مختلف مذہبی جماعتوں کے اتحاد کے امیدوار نے 4 ہزار سے بھی کم ووٹ حاصل کیے۔میرے اندازے کے مطابق زبیر گوندل کی شخصیت ایسی تھی کہ وہ آزاد الیکشن بھی لڑتے تو انکو اس سے زیادہ ووٹ حاصل ہو جاتا۔پنجاب کی عوام نے خاص طور پر اور کے پی کے کی عوام نے بھی عمومی طور پر جماعت اسلامی کے مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں بنے اتحاد کے نیچے الیکشن لڑنے اور 5 سال کے۔پی کے میں تحریک انصاف کے اتحادی رہنے کے باوجود انکے خلاف پروپیگنڈہ کرنے پر انکو بری طرع مسترد کر دیا۔

پی پی 73 سرگودھا  2 سے نون لیگ کے ٹکٹ پر یاسر ظفر سندھو کامیاب قرار پائے جنھوں نے اپنے مقابل تحریک انصاف کے امیدوار خالقداد پڈھیار کے 30 ہزار ووٹ کے مقابلے میں 45000 سے زائد ووٹ لے کر انکو بھاری مارجن سے ہرایا۔پی پی پی کے امیدوار سید اعجاز شیرازی نے 11000 سے زائد ووٹ لیئے۔جبکہ ازاد امیدواروں میں چوہدری سہیل اختر نے 17000 سے زائد ووٹ حاصل کیئے۔ایم ایم اے نے یہاں سے 4600 ووٹ حاصل کیا۔ظفر عباس لک جو کہ پی ٹی ائی قیادت سے ناراض ہو گئے تھے انکو آزاد حیثیت سے 8 ہزار ووٹ ملے۔
اس حلقہ میں مرکزی قیادت کی طرف سے غلط ٹکٹ کے علاوہ الیکشن سے پہلے کوئی جلسہ نہ کرنا بھی شکست کی وجہ بنا۔جبکہ نون کی مرکزی قیادت نے بھلوال میں ایک بڑا جلسہ کر کے علاقہ کے ووٹروں کو اپنی جانب راغب کیا۔

مجموعی طور پر دونوں بڑی جماعتوں کے امیدواروں نے بھرپور اور پرجوش انتخابی مہم چلائی۔لیکن   آخر میں فتح ایک کو ہی ملتی ہے۔امید ہے ہارنے والے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں گے اور جیتنے والے عوام سے کئے وعدوں پر پورا اتریں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو بھی اپنی  غلطیوں کا جائزہ لینا ہو گا اور آئندہ قیادت کو ٹکٹ کے خواہشمندوں کے لیئے کم از کم 2 سال جماعت سے وابستگی ضروری قرار دینی چاہیئے۔ اگر ندیم افضل چن الیکشنز سے 6 ماہ پہلے بھی تحریک انصاف کا حصہ ہوتے تو آج رزلٹ شائد مختلف ہوتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے!

Facebook Comments

ولائیت حسین اعوان
ہر دم علم کی جستجو رکھنے والا ایک انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply