آپ بھی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں!

میرے لیئے سب سے زیادہ افسوسناک اور تشویشناک امر یہ ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے اور مبینہ طور پر سمجھدار لوگ بھی محض بغضِ نواز میں انور لودھی اور اس کی زیم ٹی وی ٹائپ واہی تباہی، بے سروپا افواہیں پھیلانے والی ویب سائٹس سے جھوٹا مواد اندھا دھند اپنی والز پر شیئر کرتے چلے جاتے ہیں، تحقیق کی تو خیر ضرورت ہی کبھی محسوس نہیں کی گئی۔ اگر کسی کی توجہ اس جانب دلاؤ تو آگے سے جواب ملتا ہے، ’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے، نواز شریف تو چور ہے‘‘۔ مطلب اگر نواز شریف چور ہے تو اس سے آپ کو جھوٹ بولنے اور جھوٹ پھیلانے کا لائسنس مل جاتا ہے، اور بغیر تصدیق بات آگے نہ بڑھانے کے بارے میں قرآن کریم کی واضح ہدایات کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی (معاذ اللہ)۔ اخلاقی پستی کا یہ عالم شاید ہی کبھی ہماری قوم میں رہا ہو, دلیل سے بات کرنا تو کب کا متروک رواج بن چکا۔

حال یہ ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کی پالیسیوں کے بارے میں کوئی سنجیدہ، تحقیقاتی تحریر لکھی جائے تو بھولے سے بھی کوئی انصافی جواب دینے نہیں پھٹکتا، ہاں جیسے ہی عمران خان پر کوئی طنزیہ پوسٹ کردی جائے تو گالیاں دینے والوں کی لائن لگ جاتی ہے۔ مزے کی، یا افسوس کی بات یہ ہے کہ آپ کو کسی کی ذاتی زندگی پر تنقید کرنے پر عار بھی گالی دے کر دلائی جاتی ہے۔ اگر جواب میں آپ ان کو اخلاقیات کے وہ شہ پارے دکھائیں جو ان کے سوشل میڈیا پیجز سے نواز شریف اور اس کے گھر والوں کے بارے میں تقسیم کئے جاتے ہیں تو رسپانس ایک بار پھر وہی ملتا ہے کہ نواز شریف نے قوم کا پیسہ کھایا ہے۔

اب آج کل اسحاق ڈار کی باری ہے جس کے بارے میں پوسٹس چلائی جارہی ہیں کہ اس کے والد سائیکلوں کے پنکچر لگایا کرتے تھے، پھر یہ ’’کھرب پتی‘‘ بن گئے! ارے بھائی اس کا باپ سائیکل کے پنکچر ہی لگاتا تھا نا، کرپشن کے الزام میں سرکاری نوکری سے تو نہیں نکالا گیا۔ پھر اس کے بعد ایک نظر سیاست میں آنے سے پہلے کے اسحاق ڈار کی پروفیشنل زندگی پر بھی ڈالنے کی کوئی زحمت گوارہ نہیں کرتا۔ان کا اپنا حال یہ ہے کہ ذرائع آمدن کا کچھ پتہ نہیں کہ گھر کا چولہا جلانے کا خرچ کہاں سے آتا ہے۔ نہ کوئی بزنس ہے نہ زرعی آمدن۔ کئی سال ہو گئے ’’کروڑوں کا کمنٹری کانٹریکٹ‘‘ بھی ہاتھ نہیں لگا، بس ایک 92 کے ورلڈکپ کا پیسہ ہے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا! مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اس قدر پراسرار طریقے سے پرتعیش زندگی بسر کرنے والا کس طرح کسی دوسرے کی آمدن پر سوال اٹھانے کی ہمت کرسکتا ہے! کیونکہ جب پلٹ کر یہی سوال موصوف کی جانب لوٹتے ہیں تو اعلیٰ حضرت خود تو کبھی نتھیا گلی تو کبھی ناران کے پہاڑوں پر پائے جاتے ہیں اور اپنے اوپر لگنے والے ایک بھی الزام کا کبھی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔

مخالفین کو شوکت خانم ہسپتال پر تنقید کرنے پر شرم دلانا اپنا فرض سمجھتے ہیں، جبکہ خود عوام کی جانب سے امانتاً عطا کئے گئے زکوٰۃ کے پیسے سے(خبروں کے مطابق) تھائی لینڈ اور دبئی میں پراپرٹی پر سٹہ کھیلنے میں انہیں ذرا عار نہیں آتی، بلکہ میڈیا پر برملا اظہار کرتے ہیں کہ تھائی لینڈ میں پیسہ لگایا تھا! شوکت خانم میں 5 ارب روپے مفت علاج پر خرچ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کل کلینکل اخرجات 4.75 ارب روپے کے ہیں جس میں سے بھی 3.38 ارب روپے مریضوں سے واپس حاصل کر لیے جاتے ہیں۔ تفصیل ادارے کی اپنی آڈٹ شدہ سالانہ رپورٹس میں دیکھی جاسکتی ہیں (سال 2016-2015)۔ غرض یہ کہ ہر وہ الزام جو یہ دوسروں پر لگاتے ہیں، پلٹ کر ان پر آتا ہے، جس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا مگر ان کے مقلدین انہیں قائد اعظم ثانی ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔

میں کسی سے اپنی سیاسی وابستگی تبدیل کرنے پر اصرار نہیں کرتا۔ اگر اتنے واضح براہین کے بعد بھی آپ اس خستہ حال تبدیلی ایکسپریس سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں تو شوق سے لگے رہیے، کسی کو کوئی اعتراض نہیں، مگر جھوٹ کا سہارا تو نہ لیں۔ جو واہی تباہی آپ اپنے مخالفین کے بارے شئیر کرتے ہیں، اس کی تصدیق کی زحمت تو گوارہ کر لیا کریں تاکہ آپ کی ذات سے اس عمل کا صدور نہ ہو جس کو قرآن کریم نے فسق قرار دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ(یہ مصنٖف کی ذاتی رائے ہے،ادارے کااس سے اتفاق ضروری نہیں)۔

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply