پاکستان قدرت کا عظیم شاہکار۔۔۔۔لئیق احمد

پاکستان مدینہ طیبہ کے بعد دنیا کا وہ واحد ملک ہے۔ جو نظریاتی طور پر اسلام کے نام پر اور کلمے کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ پاکستان کا خواب اس امت کے نبض شناس حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال نے دیکھا۔ اور اس خواب کی عملی تعبیر 27 رمضان المبارک بروز جمعہ قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں عطا ہوئی۔
تحریک پاکستان کی تاریخ اور پاکستان کے روحانی پہلوؤں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ لیکن یہ تحریر صرف پاکستان کے قدرتی حسن کے پوشیدہ پہلوؤں کو آشکار کرے گی۔ جو قارئین کی توجہ اس جانب مبذول کروانے کی ایک ادنیٰ سی کاوش ہوگی کہ یہ ملک کوئی عام ملک نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی قدرت کا عظیم شاہکار ہے گویا اس خطے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنی فیاضیوں ، نعمتوں اور رحمتوں کی انتہا کردی۔ ہر طرح کا موسم ، لہلہاتے کھیت ۔ بڑے سمندری ساحل ، دنیا کی بڑی پہاڑیاں  ، قیمتی پتھر ،گلیشئیر، جھیلیں ، تانبے کوئلے اور سونے کے ذخائر، تیل ، گیس اور کئی طرح کے معدنی ذخائر ، دریا ، آب پاشی و نہری نظام ، نایاب جنگلی حیات و نباتات اور بہترین ریگستانی اور میدانی علاقے غرض یہ کہ جو قدرتی امیری اس خطے کے حصے میں آئی  ہیں، شاید ہی کسی خطے کو نصیب ہوئی ہوں۔ لیکن یہ ہماری بدبختی ہے کہ قائداعظم کے بعد ہمیں کوئی ایسا حکمران نہیں ملا جو اس ملک سے حقیقی طور پر مخلص ہو۔ ورنہ جس ملک پر خدا کی فیاضیوں کی اس قدر انتہا ہو وہ کبھی بھی اقوام عالم میں پیچھے نہیں رہ سکتا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنے رقبے کے اعتبار سے دنیا کا 36واں بڑا ملک ہے۔ اور اس کا رقبہ تقریبا آٹھ لاکھ مربع کلو میٹر ہے۔ پاکستان سندھ ، پنجاب ، بلوچستان ، خیبر پختون خواں کے علاوہ گلگت بلتستان پر مشتمل ہے۔ یہ ملک خوبصورت لینڈ اسکیپ کا شاہکار ہے۔ جو ماحولیاتی نظام سے آراستہ قدرت کا حسین تحفہ ہے۔ جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
1.ہر طرح کا موسم:
دنیا کے گنے چنے ایسے خطے ہیں جن کو اللہ کی یہ نعمت میسر ہے کہ وہاں پر ہر طرح کا موسم پایا جاتا ہے۔ اور پاکستان ایسے ممالک میں سر فہرست ہے۔ جس کے خطے میں کم و بیش ہر طرح کا موسم ملتا ہے۔ جو دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک یا وسیع علاقے میں پایا جاتا ہے۔
مرطوب بحری ہوا سے لے کر خشک صحرائی ماحول تک، میدانی علاقوں سے لےکر پہاڑی مقامات تک، بارش سے لےکر برف باری تک ، سنگلاح چٹانوں سے لےکر عظیم الشان برفانی تودوں اور گلیشئیر تک۔ غرض کہ وہ کونسا موسم ، وہ کونسی آب و ہوا ہے جو اس ملک میں موجود نہیں۔ لیکن دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ایسے انواع و اقسام کے جغرافیائی حالات اور آب و ہوا کے لیے عام طور پر کسی ملک کا وسیع رقبہ درکار ہوتا ہے۔ لیکن قدرت نے مختصر جغرافیائی حدود کے باوجود ہمیں تمام موسموں سے نوازا ہے۔ جو پاکستان کے قدرتی حسن کی دلیل پر دلالت کرتا ہے۔

2.پہاڑی چوٹیاں:
پہاڑی چوٹیوں کے حوالے سے قدرت نے پاکستان کو نہایت ہی فیاضی سے نوازا ہے۔ اس لیے پاکستان کو کوہ پیماؤں کی جنت کہا جاتا ہے۔ یہاں دنیا کے تین پہاڑی سلسلے ہمالیہ ، قراقرم اور ہندوکش ملتے ہیں۔ دنیا کی 800 میٹر بلند 14چوٹیوں میں سے پانچ پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔ جبکہ 6500 میٹر سے بلند چوٹیوں کی تعداد انگنت ہیں۔

3.سمندری رقبہ:
پاکستان کا کل بحری رقبہ 2,40,000مربع کلو میٹر تھا لیکن 2015میں اقوام متحدہ نے کمیشن برائے بین الاقوامی سمندری حدود نے پاکستان کے سمندری حدود میں اضافے کی منظوری دی۔ جس کے سبب پاکستان کے سمندری رقبے میں پچاس ہزار مربع کلو میٹر کا اضافہ ہوا اور بحری رقبہ 2,40,000 مربع کلو میٹر سے 2,90,000 مربع کلو میٹرہوگیا۔ جو رقبے کے حساب سے صوبہ پنجاب کے بعد دوسرے نمبر پر بڑا علاقہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سمندری حدود میں اضافے سے جہاں پاکستان کا دفاع مضبوط ہوا ہےوہیں یہ سمندری علاقہ معدنی وسائل سے بھی مالا مال ہے۔ماہرین کی رائے کے مطابق تیل اور گیس کے علاوہ دیگر معدنیات ملنے کی بھی توقع ہے۔ جو ملک کی معیشت پر مثبت اثر ڈال سکتے ہیں۔
پاکستان کا پورا سمندری علاقہ قدرتی وسائل سے بھرپور ہے۔ پاکستان  کی موجودہ ماہی گیری اور سمندری خوراک کا کل تخمیںہ تقریبا ڈیڑھ ارب امریکی ڈالر ہے۔ علاوہ ازیں حیاتیاتی وسائل جیسے الجی (سمندری گھانس) ، مینگرووز اور متعدد اقسام کی مچھلیاں بھی پاکستان کے ساحلی علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔ ساحلی علاقوں کی آبادی کے روزگار اور معیشت براہ راست ان وسائل سے جڑی ہوئی ہے ۔ سمندری تہہ میں موجود وسائل جیسے لوہا ، مینگنیز نوڈیوٹر اور کرسٹ ، گیس اور گیس کے ھائیڈروئٹس شامل ہیں۔

4.دریا:
دریائے سندھ دنیا کے طویل دریاؤں میں سے ایک ہے۔ 2900 کلو میٹر طویل اس دریا کے علاوہ راوی، چناب، جہلم اور ستلج بھی بڑے دریا ہیں۔ شمالی علاقے جات میں پائے جانے والے دریاؤں میں کنہار ، برالڈو ، شیوک وغیرہ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے ملکی و غیر ملکی سیاحوں میں کافی مقبول ہیں۔

5.تیل اور گیس کے زخائر:
پاکستان میں تیل اور گیس کے ‍‍ذخائر بھاری مقدار میں موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں گیس کا ذخیرہ ۔885 ارب کیوبک میٹر ہے۔ سوئی گیس پاکستان کی گیس کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ سوئی پاکستان کی 26 بز گیس بناتا ہے۔ اور روزانہ کی گیس پروڈکشن19 ملین کیوبک میٹر ہے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ بلوچستان کے پہاڑوں اور سندھ کی ریت میں تیل اور گیس کا ایسا ذخیرہ موجود ہے۔ جس کو آج تک کسی نے چھووا بھی نہیں۔ گیس کے ذخیرے میں پاکستان ایشیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ اور شیل آئل کے ذخیرے کے لحاظ سے دنیا کے بہترین 10ممالک میں شامل ہوگیا ہے۔

6.جھیلیں:
پاکستان اس لحاظ سے دنیا کا خوش قسمت ملک ہے۔ بڑی تعدادمیں جھیلیں پائی جاتی ہیں۔ کراچی کے ساحل سے لےکر پنجاب کے میدانوں تک اور یہاں سے شمال کے بلند و بالا پہاڑوں تک بے شمار جھیلیں اپنی وسعت کی وجہ سے قابل دید ہیں۔ صرف 4 جھیلوں کا مختصر ذکردرج ذیل ہے۔
* کلری(کینجھر جھیل):
ٹھٹھہ شہر سے22 کلو میٹر کے فاصلے پر وسیع و عریض جھیل کلری واقع ہے۔یہ 22 کلو میٹرطویل اور6 کلو میٹر چوڑی ہے۔اس جھیل سے کراچی اور ٹھٹھہ کا پانی فراہم کیا جاتا ہے۔یہ جھیل اپنی وسعت اور لہروں کی وجہ سے سمندر کا منظر پیش کرتی ہے۔
* ھالیجی جھیل:
کراچی سے82 کلومیٹر کے فاصلے پر نیشنل ہائی وے پر ھالیجی جھیل واقع ہے۔ یہاں بگلا ، تیتر اور چکور کے علاوہ تقریبا 190اور دیگر اقسام کےپرندے آتے ہیں۔


* بنا جھیل:
کوئٹہ شہر سے10کلو میٹر کے فاصلے پر بنا جھیل2 مربع کلو میٹر کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ اسکی خوبصورتی سبزی مائل پانیوں میں آس پاس کے بھورے پہاڑوں کے عکس میں پنہاں ہے۔ جھیل کے مرکز میں ایک چھوٹا سا جزیرہ بھی ہے۔ جہاں تک جانے کے لیے کشتیاں چلتی ہیں۔
* منچھر جھیل:
سہون شریف حضرت لال شہباز قلندر کے مزار کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ یہاں کی ایک اور وجہ شہرت پاکستان کی سب سے بڑی جھیل منچھر ہے۔ منچھر جھیل میں پانی دریائے سندھ اور برسات کے موسم میں کیرٹھ کی پہاڑیوں سے آتا ہے۔ جب جھیل مکمل بھری ہوتی ہے۔تو اس کا رقبہ510 مربع کلو میٹرہوتا ہے۔
ان جھیلوں کے علاوہ سیف الملوک، شنگریلہ، کرومبر، شیذود، صد پارہ، شبومر وغیرہ اپنے حسن میں لاثانی جھیلیں ہیں۔

7.آب پاشی و نہری نظام:
پاکستان کی28فیصد جگہ آب پاشی کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ اور دنیا میں پاکستان کا irrigation system سب سےبڑا ہے۔جس میں کارٹن ، گندم ، چاول ، گنے ، آئل سیڈ ، مکئی ، روغم ،جو ، دالیں ،بھوٹا ، پھل اور سبزیاں شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پنجاب کی ‍‍‍‍ذرخیز زمین میں پاکستان کی اس آبادی جو لگ بھگ 23کروڑ ہے۔ اگر اس کے دوگنا تقریبا 50 کروڑ بھی ہوجائے تو پال سکتی ہے۔ دریائے سندھ سے 1 کروڑ 6 لاکھ ایکڑ کی زمین آب پاشی کیلئے استعمال ہوسکتی ہے۔ اور پاکستان کے نہری نظام کی لمبائی 50000 کلو میٹر سے بھی زیادہ ہے۔

8.گلیشئیرز:
پہاڑی علاقوں میں پائے جانے والے برف کے دبیز تہہ کو گلیشئیرز کہتے ہیں۔ اسے برف کے دریا سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ گلیشئیر پانی کا بہترین منبہ ہوتی ہے۔ قطبین کے علاوہ دنیا کے کسی بھی مقام پر اتنے طویل گلیشئیر نہیں پائے جاتے جو پاکستان کو قدرت نے عطا کئے۔ یہ گلیشئیر تقریبا دس ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے چند یہ ہیں۔ بالتورو 68 کلو میٹر طویل ، بیافو61کلو میٹر طویل ، یتورو 58 کلو میٹر طویل اور سیاچین 75 کلو میٹر طویل۔ انکے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے گلیشئیرز پائے جاتے ہیں۔

9.جنگلی حیات و نباتات:
یہ خطہ آب وہوا میں قدرتی طور پر نشونما پانے والے پیڑوں ، پودوں اور فصلوں کے لیے نہایت مناسب ہے۔ پاکستان میں قدرتی نباتات کی اتنی بڑی تعداد پائی جاتی ہے کہ شاید اس کا درست طور پر اندراج کرنے کے لیے ایک پورا انسائیکلو پیڈیا بھی ناکافی ہے۔ شمالی علاقہ جات کے پہاڑوں اور ان کے دامن میں پائے جانے والے درخت فر، پائن چنار، جونیپر کے علاوہ نانگا پربت کے دامن اور دیوسائی میں بہت نایاب جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں۔ مارخور آئی بیکس ، برفانی چیتا اور سطح مرتفع دیوسائی میں پائے جانے والے ہمالیاتی بھورے ریچھ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ شارک ، شیل فش اور دریائے سندھ میں پائے جانے والے نابینا ڈولفن بھی نایاب جنگلی حیاتیات میں شامل ہیں۔ ان نایاب نسل کے حیوانات کی بقا کے لیے ورلڈ وائلڈ لائف فیڈریشن نے کئی علاقوں کو نیشنل پارک قرار دیا ہے۔ جن میں ھنگول ، کیرتھر ، لال سونہرا، خنجراب ، سنٹرل قراقرم اور دیوسائی نیشنل پارک قابل ذکر ہیں۔

10.تانبے اور سونے کے زخائر:
Rekodiqایک ریتیلی چوٹی ہے۔ جو دراصل ایک قدیم آتش فشاں پہاڑتھا۔ جو اب قدرتی خزانوں سے مالامال ایک پہاڑ ہے۔ اس میں شیل گیس کے ساتھ ساتھ سونے اور تانبے کے ‍ذخائر بھی موجود ہیں۔ اس کا کچھ حصہ افغانستان کے علاقے میں بھی آتا ہے۔ ریکوڈک دنیا کی دوسری اور پاکستان کی پہلی بڑی سونے کی کان ہے۔ اس میں 5کروڑ 40 لاکھ ٹن کا سونا موجود ہے۔ جگہ کے لحاظ سے یہ 100 کلو میٹر تک وسیع ہے۔ اس لحاظ سے یہ سونا 2 کھرب امریکی ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ سونے اور تانبے کا ایک بہت بڑا ‍ذخیرہ بلوچستان کی تحصیل سیندک میں واقع ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سیندک کے پاس 412 ملین ٹن کا ذخیرہ ہے اور سرکاری اندازے کے مطابق یہ کان 15800 ٹن کا لسٹر کوپر سالانہ پروڈیوس کرسکتا ہے۔اور ساتھ میں ڈیڑھ ٹن کا سونا اور 2.8 ٹن کی چاندی پروڈیوس کرسکتا ہے۔

11.یورینیم کے زخائر:
پاکستان میں ڈیرہ غازی خان کے مغربی علاقے میں سوالک پہاڑی یورینیم کے ذخائر سے مالا مال ہے۔
2006کے مطابق پاکستان میں 45 ٹن کا یورینیم پروڈیوس ہوا۔ یورینیم وہ دھات ہے جو ایٹامک ہتھیار بنانے میں کام آتی ہے۔ دنیا میں یورینیم کی production کے لحاظ سے پاکستان کا نمبر 15 ہے۔ جبکہ پہلے نمبر پر قزغستان ہے۔

12.پاکستان کے ریگستان  :

کراہ ارض پر موجود بنجر زمین کو ریگستان کہا جاتا ہے ، دنیا بھر میں سینکڑوں کی تعداد میں ریگستان موجود ہیں، جن میں سے کچھ بہت زیادہ گرم اور کچھ ٹھنڈے ہیں

پاکستان  کے 5  ریگستانوں کی تفصیل درج ذیل ہے

صحرائے تھر :

صحرائے تھر پاکستان کے جنوب مشرقی اور بھارت کے شمال مغربی سرحد پر واقع ہے، اس صحرا کو ’’ عظیم ہندوستانی صحرا‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اس کا رقبہ دو لاکھ مربع کلومیٹر یا ستتر ہزار مربع میل ہے۔اس کا شمار دنیا کے نویں بڑے گرم ترین صحرا میں کیا جاتاہے۔

صحرائے چولستان :

یہ صحرا  بہاولپورشہر اور پنجاب سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، اس علاقے کو پنجاب کا اہم ترین صحرا جانا جاتا ہے اورمقامی طور پریہ علاقہ ’’روہی‘‘ کے نام سے مشہور ہے،  جنوب مشرق میں یہ صحرا راجھستان سے جاکرملتا ہے، عام طور پر یہاں رہنے والے مقامی افراد کو خانہ بدوش کہا جاتا ہے۔

ہر سال اس صحرا میں پاکستان کی سب سے بڑی جیپ ریلی منعقد کی جاتی ہے جسے دنیا کے مختلف ممالک سے لوگ خصوصی طور پر دیکھنے آتے ہیں۔

صحرائے تھل :

یہ کوہِ نمک کے جنوب میں دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے درمیان میانوالی ، بھکر ، خوشاب اور مضظرگڑھ کے علاقوں پر واقع ہے،خوشاب سے میانوالی کے جنوب کا سارا علاقہ تھل صحرا کا ہے۔

دریائے سندھ سے نکالی جانے والی ایک نہر کے باعث یہاں کے لوگوں کو پانی کی قلت کا سامنا نہیں ہے، مقامی لوگوں کی محنت صحرا کو آہستہ آہستہ زرعی علاقے میں تبدیل کررہی ہے، جس سے اس علاقے کا قدرتی حسن ماند پڑتا جا رہا ہے

صحرائے وادی سندھ :

صحرائے وادیِ سندھ پاکستان کے شمالی علاقے میں غیرآباد صحرا ہے۔ دریائے چناب اور دریائے سندھ کے درمیان اور پنجاب کے شمال مغربی علاقے پر 19500 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔

عام طور پر یہ صحرا سردیوں میں بے حد ٹھنڈا اور گرمیوں میں ملک کے گرم ترین علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے، موسم کی تبدیلیوں کے باعث یہ صحرا غیرآباد علاقہ ہے۔

صحرائے خاران :

یہ  صحرائے صوبہ بلوچستان کے جنوب مغرب میں واقعہ ہے، اس صحرا کو عام طور پر ’’مٹی کا صحرا‘‘ کہا جاتا ہے۔ پاکستان نے 30 مئی 1998 کو  اپنے دوسرا جوہری تجربہ ’’ چاغی‘‘ کا تجربہ بھی اسی صحرا میں کیا تھا۔

13 ۔پاکستان کے قیمتی پتھر  :

بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قیمتی پتھروں کے اربوں ٹن کے قدرتی ذخائر موجود ہیں جن پر آج تک بھرپور توجہ نہیں دی گئی۔ متعدد سروے اس بات کے گواہ ہیں کہ گلگت بلتستان اور بلوچستان میں دنیا کے بہترین قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کے وسیع ذخائر موجود ہیں لیکن یہ ذخائر آج بھی ۲۰۰ سال پرانے طریقے سے بارود کے ذریعے دھماکہ کرکے نکالے جاتے ہیں۔ اس طریقہ کار سے تقریباً ۹۵ فیصد قیمتی ذخائر ضائع ہوتے ہیں اور صرف ۵ فیصد پتھر ہی حاصل ہوتا ہے جو بغیر کسی ویلیو ایڈیشن کے ۱۰۰ فیصد خام شکل میں فروخت کردیا جاتا ہے۔
ان قیمتی پتھروں کے تاجروں کا کہنا ہے کہ وفاقی وزارت تجارت کے ادارے ٹریڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی اور جیم اینڈ جیولری ڈیویلپمنٹ کمپنی کی جانب سے ملک میں پائے جانے والے قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کی صنعت پر توجہ دے جائے تو پاکستان کے تمام اندرونی اور بیرونی قرضے صرف ایک پتھر کی تجارت سے ختم کرکے ملک کو دنیا کی مضبوط معیشتوں میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
بلوچستان میں قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کے تاجروں کا کہنا ہے کہ صرف ضلع چاغی میں تقریباً ۱۰۰ اقسام کے کیلسائٹ اسٹون، ۲۰ اقسام کے معدنی پتھر، ۵۰ نیم قیمتی اور ۲۰ اقسام کے قیمتی پتھروں کے اربوں ٹن پر مشتمل ذخائر موجود ہیں، لیکن متعلقہ اداروں کی بے توجہی اور نمائشی سرگرمیوں کے باعث یہ ذخائر پہاڑ کی شکل میں کھڑے ملک اور قوم کی حالت پر افسوس کررہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق بلوچستان کے قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں میں سے ۹۵ فیصد پتھر کان کنی کے فرسودہ طریقوں کی وجہ سے ضائع ہورہا ہے جبکہ ۵ فیصد پتھر بھی مقامی سطح پر کٹنگ اور پالشنگ کی جدید سہولیات کے فقدان اور تربیت یافتہ ہنرمندوں کی کمی کے باعث خام شکل میں ہی ۳ سے ۴ مڈل مینز کے ذریعے مقامی مارکیٹ میں فروخت کردیئے جاتے ہیں

14۔ کوئلے کے ذخائر  :

Advertisements
julia rana solicitors

ملک میں موجود کوئلے کے ذخائر کے صرف 2 فیصد استعمال سے 40 سال تک 20 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں کوئلے کے ذخائر کا اندازہ 850 کھرب کیوبک فٹ ہے جبکہ ایران اور سعودی عرب کے تیل کے ذخائر کا مجموعی تخمینہ 375 ارب بیرل ہے۔یوا ین پی کے مطابق توانائی کے حوالے سے حسنات احمد نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں کہا کہ پاکستان میں کوئلے کے ذخائر کے صرف 2 فیصد کے استعمال سے چالیس سال تک 20 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کوئلہ توانائی کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے اور ملک میں کالے سونے (کوئلے) کے وسیع ذخائر موجود ہیں جن میں سے صوبہ میں موجود ذخائر کا اندازہ 184.623 ارب ٹن ہے اور صوبہ بلوچستان جو معدنی وسائل سے مالا مال ہے وہاں پر مختلف مقام پر کالے سونے (کوئلے) کے موجود ذخائر کا اندازہ 0.217 ارب ٹن اور 15.42 ملین ٹن سے زائد ہے۔ اسی طرح خیبر پختونخواہ میں 0.091 اور کشمیر میں 0.009 ارب ٹن ذخائر موجود ہیں اور صوبہ سندھ کے علاقے لاکھڑ میں بھی اربوں ٹن کوئلے کی موجودگی کی تصدیق کی گئی ہے۔

Facebook Comments

لیئق احمد
ریسرچ سکالر شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ کراچی ، ٹیچنگ اسسٹنٹ شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ کراچی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 9 تبصرے برائے تحریر ”پاکستان قدرت کا عظیم شاہکار۔۔۔۔لئیق احمد

  1. Beautiful informafion i have never know before reading that artical that i am living in that country in which every thing is available in excessive and richi form . Thank u so much Allah Almighty for blessing a country

Leave a Reply to Fatima ahmad Cancel reply