کھلونے والا بابا اور 125کروڑ بچّے /حفیظ نعمانی

بات آج کی نہیں اس کا رشتہ 2014 ء سے جڑا ہوا ہے۔ الیکشن کے آتے آتے کانگریس کی مرکزی حکومت بدعنوانی، بے ایمانی اور چند در چند گھوٹالوں میں ایسی پھنسی کہ صرف سیاسی کھلاڑیوں کو ہی نہیں ملک کے ہر طبقہ اور ہر کلاس کے آدمی کی زبان پر لعنت لعنت آنے لگا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم جیسے جنہوں نے ہلکی سی جھلک 1937 ء کی عبوری حکومت کی بھی دیکھی تھی اور 1952 ء سے آج تک تو ہر حکومت کو اندر سے اور باہر سے اچھی طرح ٹھوک بجاکر دیکھا ہے وہ بھی یہ سوچنے لگے کہ اگر بی جے پی کی حکومت بھی آگئی تو شاید اتنی گندی تو وہ بھی نہ ہوگی۔ اور اس کے بعد 2014 ء کے الیکشن میں ہمیں بھی نریندر مودی کی تقریروں میں ہندوستان چمکتا ہوا دکھائی دینے لگا۔ نریندر مودی آر ایس ایس کے انتھک محنت کرنے والے ورکر تھے۔ انہوں نے صرف اور صرف اپنے بل پر پورا الیکشن لڑایا اور جن کے کہنے سے بی جے پی سیاہ و سفید کرتی تھی وہ بھی تماشائی بنے رہے اور ملک کا کوئی صوبہ کوئی شہر اور کوئی حصہ ایسا نہیں بچا جہاں مودی نے جاکر وعدوں کی جھڑی نہ لگائی ہو۔

2014 ء میں مودی کا کہنا صرف یہ تھا کوئی کچھ نہ کرے صرف بی جے پی کی اس کے اپنے بل پر حکومت بنوا دے پھر دیکھئے گا کہ جو حسرت اس کے دل میں ہوگی وہ پوری ہوگی۔ اور اب تک جو پوری نہیں ہوئی وہ صرف اس وجہ سے کہ حاکم کی نیت خراب ہے وہ جتنا تم سے وصول کرتا ہے اس میں آدھے سے زیادہ اپنی جیبوں میں رکھتا ہے اور آدھے سے کم ملک میں لگاتا ہے اس لئے تم بھوکے ہو، ننگے ہو، بیمار ہو، جاہل ہو اور بیکار ہو۔ میری حکومت بنوادو تو جو تم سے ملے گا اور جو پوری دنیا سے ملے گا وہ سب ملک میں لگے گا اور بے روزگار ڈھونڈے نہ ملے گا۔ ان کی بغل میں بابا رام دیو بیٹھے ہوتے تھے وہ ٹکڑا لگاتے تھے کہ مودی کے نہ جورو نہ جاتا وہ کس کے لئے بچائے گا اور جب دوسرے ملکوں سے ہمارا کالا دھن سے آئے گا تو ملک میں ڈھونڈے غریب نہیں ملے گا۔ مودی جی کا سارا زور کالے دھن پر تھا وہ کہتے تھے کہ ملک کی ساری دولت وزیروں اور ان کے ٹھیکیداروں نے دوسرے ملکوں میں جمع کررکھی ہے۔ حکومت بنتے ہی میں 100 دن کے اندر سارا روپیہ لے آؤں گا اور بانٹ دوں گا کہ تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا اور پندرہ پندرہ لاکھ سب کے کھاتے میں آجائے گا۔

ان کا ہر تقریر میں اچھے دن آئیں گے ایک نعرہ ہوتا تھا۔ انہوں نے کالا دھن، بھرشٹاچار، آتنک واد اور کنبہ پروری کو غربت اور بیکاری کا سبب بتایا۔ اور جو سنہرے سپنے دکھائے وہ کسے یاد نہیں ہوں گے۔ سب سے زیادہ مہنگائی کے بارے میں کہا کہ ہمارے آتے ہی وہ ختم ہوجائے گی۔ 125 کروڑ نے حکومت بنوا دی۔ شمالی ہند کے لوگوں نے مودی پر بھروسہ کرلیا جنوبی ہند نے اسے دھوکہ سمجھا۔ پھر دیوار سے ایک کیلنڈر اُترا تو ملک کی حالت پہلے سے زیادہ خراب ہوچکی تھی۔ دوسرا اُترا تو اس سے زیادہ خراب ہوچکی تھی۔ مودی جی نے سمجھا کہ کھیل بگڑنے والا ہے۔ وہ جہاں جہاں الیکشن لڑانے گئے زیادہ تر ہار گئے پھر ان کے سامنے پانچ صوبوں کا الیکشن آیا تو وہ پھر 2014 ء والے مودی بن گئے اور قوم کے سامنے رونے لگے کہ تم نے مرکز کی حکومت تو دے دی جب تک صوبوں میں بھی حکومت نہیں بنے گی، وہ خواب پورے نہیں ہوں گے جن کا تم سے وعدہ کیا تھا۔ اور اچانک انہوں نے 8 نومبر 2016 ء کو یعنی 17 مہینے من مانی حکومت کرکے ایک ہزار اور پانچ سو کے نوٹ غیرقانونی ہونے کا اعلان کردیا جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ اب جو الیکشن لڑے وہ ننگا بھوکا ہو اور اپنے پاس پورا خزانہ ہو۔

اور اپنے اس غلط فیصلے کو بھی کالے دھن سے جوڑ دیا اور کہہ دیا کہ ہر برائی کی جڑ کالا دھن ہے اور اسے ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ بڑے نوٹ منسوخ کردیے جائیں ۔ جب ملک میں جمہوری حکومت کے نام پر انانیت اور آمریت ہونے لگے تو ڈکٹیٹرازم سے بدتر حال ہوجاتا ہے۔ مودی جی نے بی جے پی کے ہر اس بڑے لیڈر کو کنارے بٹھا دیا جو انہیں عقل کی بات بتاتا، یا تجربہ کی وجہ سے نیک مشورہ دیتا انہوں نے ایک راج ناتھ سنگھ کو لیا اور ہوم منسٹر بنا دیا اور ارون جیٹلی کو لیا اور خزانہ کا وزیر بنا دیا اور سب کو کٹھ پتلیاں بناکر کمروں میں سجا دیا۔ اس کے بعد بھی جو الیکشن لڑے اُن پانچ میں سے تین میں ہارے اور دو میں بدترین فرقہ پرستی ہندو نوازی اور ہندو مسلمانوں میں تفریق کی دیوار کھڑی کرکے جیتا۔ ان کا سب سے اہم نشانہ اُترپردیش تھا جس پر قبضہ کے لئے وہ ہر چیز کو داؤ پر لگاسکتے تھے اور اسی کے لئے انہوں نے نوٹ بندی کی تھی۔ آج وہی صوبہ ان کے پسندیدہ نعرے ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کی لاش بنا ہوا ہے۔

الیکشن میں ہر جگہ تقریر میں کہا تھا کہ حکومت بنتے ہی کسانوں کا قرض معاف کر دیا جائے گا اور حکومت بنتے ہی سب سے پہلے صرف مسلمانوں میں ان لاکھوں کو بے روزگار بنایا جو گوشت اور جانوروں کا کاروبار کرتے تھے اور ان تمام سلاٹر ہاؤسوں پر جو سرکار ی تھے بلڈوزر چلوا دیئے اور بھول گئے کہ لاکھوں مسلمان کیا کھائیں گے؟ پھر اعلان کیا کہ کسانوں کا ایک لاکھ تک کا قرض معاف کردیا گیا۔ اس میں پہلا جھوٹ یہ شامل کیا کہ ایک لاکھ تک کی شرط لگائی۔ دوسرا جھوٹ یہ شامل کیا کہ جولائی میں بجٹ اجلاس ہوگا اس میں نیا ٹیکس لگاکر عوام سے پیسہ وصول کیا جائے گا وہ جب 36 ہزار کروڑ ہوجائے گا تو کسان کو قرض معافی کا روپیہ دیا جائے گا۔ اور تیسرا جھوٹ یہ بولا کہ سیلف ہیلپ گروپوں کے اور مشترکہ ذمہ داری گروپوں کے قرض معاف نہیں ہوں گے۔ ان کے علاوہ بھی دس قسم کے قرض ایسے ہیں جو معاف نہیں کئے جائیں گے۔ مودی نے کسی تقریر میں ایسے اور ویسے اور اتنے اور کتنے قرض نہیں کہے تھے بلکہ یہ کہا تھا کہ کسانوں کا قرض معاف کردیا جائے گا۔ یہ وہی داؤ بازی اور جھوٹے وعدوں میں سے ایک ہے جو 2014ء سے اب تک بار بار کئے گئے اور یہ ان کی فطرت ہے جس کی وجہ سے عام آدمی بے موت مارا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مودی کے تین سال منموہن سرکار سے کہیں زیادہ بدتر ثابت ہوئے۔ ہر آدمی جتنا ان کے زمانہ میں پریشان ہے اتنا تو کبھی نہیں ہوا اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے حکومت کی پوری عمارت جھوٹ پر کھڑی کی ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ بس حکومت بنوا دو سب ٹھیک ہوجائے گا جھوٹ ثابت ہوا پھر انہوں نے نوٹ بندی کرکے کہا کالا دھن بھرشٹاچار اور دہشت گردی اس کے بغیر ختم نہیں ہوسکتی وہ بھی جھوٹ ثابت ہوا اب انہوں نے جی ایس ٹی نیا ٹیکس لگاکر کہا کہ کالا دھن حوالہ دو نمبر کا کاروبار اور بھرشٹاچار اس کے بغیر ختم نہیں ہوگا۔ اب ہر آدمی کو انتظار کرنا چاہئے کہ تین وعدے جھوٹے ثابت ہونے کے بعد چوتھا اور پانچواں کیا ہوگا۔ شاید آخری دھماکہ یہ ہوگا کہ ہر پانچ سال کے بجائے پارلیمنٹ کا الیکشن دس سال میں ہوا کرے اور مودی سے 2024 ء تک کوئی نہ کہے کہ الیکشن کراؤ۔ اپنی زندگی اور آبرو کو دائو پر لگاکر اُترپردیش کو جیتنا من چاہا صدر بنانا ایک سنیاسی بابا کو وزیر اعلیٰ بنانا اور سارے کاروبار کرنے والوں کو جی ایس ٹی کے ذریعہ غلام بنانا کسی بڑے دھماکہ کا اشارہ ہے۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply