متحدہ ہندوستان کی آخری امید ۔۔۔ بوس (چوتھا حصہ)

سبھاش چندر بوس کو جب انگریزوں نے ان کے گھر میں نظر بند کیا تو انہوں نے انگریز سرکار کی نظروں سے بچ نکلنے کے لیے ایک شاندار منصوبہ بنایا۔ سبھاش جی کی ذہانت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کانگریس میں اپنے دور صدارت کے دوران تجویز پیش کی تھی کہ ہندوستان کے صنعتکاروں اور سائنس دانوں پر مشتمل کمیٹیاں بنائی جائیں جو ملک کے سماجی مسائل کے حل کے لیے کام کریں۔ اس تجویز کی نہرو نے بھی حمایت کی تھی تاہم اس پر پیش رفت نہ ہو سکی۔ بہرحال جب سبھاش چندر کے گھر پر پولیس اور سی آئی ڈی کا پہرہ تھا تو انہوں نے پشاور کی مزدور کسان پارٹی کے ساتھ خفیہ رابطہ کیا اور ہندوستان سے فرار ہونے کا منصوبہ تشکیل دیا۔ صوبہ سرحد کے کمیونسٹوں کی جانب سے مثبت جواب ملنے پر سبھاش جی نے اپنے گھر میں "مون ورت" رکھنے کا اعلان کردیا اور کہا کہ وہ سیاست اور دنیا داری چھوڑ کر سادھو بنیں گے اور اس سلسلے کی پہلی کڑی یہ "مون ورت" ہوگا۔ جو قارئین اس اصطلاح سے ناواقف ہیں، وہ اسے ایک طرح کا اعتکاف سمجھ سکتے ہیں جس کے دوران سبھاش جی اپنے کمرے میں بند رہیں گے ، کھانا صرف ایک وقت کھائیں گے، نہ کسی سے ملیں اور نہ کسی سے بات کریں گے۔ یہ ڈراما دراصل پہرے پر موجود پولیس اور سی آئی ڈی کو دھوکا دینے کے لیے کیا گیا اور اس دوران انہوں نے داڑھی مونچھیں بڑھا کراپنا حلیہ تبدیل کیا۔

انگریز جاسوسوں کو مطمئن کرنے کے بعد 17 جنوری 1941 کی شب دیر گئے بوس اپنے بھتیجےکی مدد سے گھرسے فرار ہوئے اور سفر کے مختلف انداز اختیار کرتے ہوئے کئی روز بعد پشاور پہنچ گئے۔ پشاور سے مزدور کسان پارٹی نے انہیں کابل پہنچایا جہاں سے ان کا ارادہ سوویت یونین کے سفارتکاروں کی مدد سے ماسکو جانے کا تھا لیکن بات نہ بن سکی تو وہ اطالوی سفیر کی مدد سے اٹلی کے پاسپورٹ پر ماسکو اور روم سے ہوتے ہوئے جرمنی پہنچے۔ اس سفر میں انہوں نے کبھی انشورنس ایجنٹ ضیاءالدین کا روپ دھارا تو کبھی گونگے پشتون قبائلی کا اور آخرکار کاؤنٹ اورلینڈو مازوٹا کے روپ میں جرمنی پہنچے۔ کلکتہ سے جرمنی پہنچنے کی روداد نہایت دلچسپ لیکن طویل ہے جس کے یہ صفحات متحمل نہیں ہوسکتے۔

بوس ہندوستان کی آزادی کے لیے انتہائی پرجوش تھے اور انگریز سامراج سے نجات کے لیے شیطان سے بھی ہاتھ ملانے پر رضامند۔ اسی لیے ان کے ناقدین انہیں ہوش سے زیادہ جوش سے کام لینے والا قرار دیتے ہیں تاہم یہ حقیقت نظرانداز کر دیتے ہیں کہ 1921 سے 1941 تک، بیس برس کے دوران بوس نے جوش کے ساتھ ہوش کا دامن نہیں چھوڑا لیکن جب مہاتما گاندھی اور دائیں بازو کے کانگریسیوں نے ان کی ایک نہ چلنے دی، ان کے ہر اقدام کو رد کیا، ان کی ہر تجویز کی مخالفت کی، حتیٰ کہ پارٹی کے منتخب صدر کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا تو ان کے پاس سوائے تنہا جدجہد کے کوئی راستہ باقی نہ تھا اور انہوں نے ایک غیرت مند مرد کے مانند اسی کا انتخاب کیا۔ ان پر ہوش کھونے کا الزام لگانے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ بوس ہی تھے جنہوں نے کانگریس کا صدر بننے سے پہلے اور بعد ہندوستان کے مستقبل کے حوالے سے نمایاں انگریز سیاستدانوں کے ساتھ طویل گفت وشنید کی تھی جن میں لارڈ ہیلی فیکس، سٹیفورڈ کرپس، جارج لینزبری اور کلیمنٹ ایٹلی جیسے اہم رہنما شامل تھے۔ برطانیہ کی لیبر اور لبرل پارٹیوں کے ساتھ ان کے روابط تھے تاہم کنزرویٹیو پارٹی کے رہنماؤں نے ان کے ساتھ ملاقات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

جرمنی کے سفر کے دوران ماسکو میں بوس نے سوویت حکام کے ساتھ بھی اپنے منصوبے پر تبادلہ خیال کیا۔ انہیں امید تھی کہ سامراج مخالف سوویت یونین برطانوی استعمار کے خلاف جدوجہد میں ان کا ساتھ دے گا لیکن بین الاقوامی حالات کے پیش نظر روسی ردعمل سرد مہری کا شکار تھا۔ البتہ جب وہ برلن پہنچے توجرمن وزارت خارجہ اور وزیر خارجہ وان ربن ٹراپ نے کافی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا۔ انہیں نازی حکومت کے ایک محکمے "سپیشل بیورو فار انڈیا" کے ساتھ منسلک کردیا گیا جس کی سربراہی وان ٹراٹ کے سپرد تھی۔ یہی محکمہ آزاد ہند ریڈیو چلانے کا ذمہ دار بھی تھا۔ بوس نے برلن میں "فری انڈیا سنٹر" قائم کیا اور ہندوستان کی آزادی کے لیے "انڈین لیجن" کی بنیاد رکھی۔ انڈین لیجن میں ابتدائی طور پر 3000 ہندوستانی سپاہی اور افسر شامل تھے جو شمالی افریقہ میں انگریزوں کے لیے لڑتے ہوئے جرمنی کے جنگی قیدی بنے تھے۔ بوس نے ان جنگی قیدیوں کے دلوں میں وطن کی محبت اور انگریز سامراج سے نجات کے لیے جدوجہد کی شمع روشن کی۔ انڈین لیجن کے فوجیوں کے حلف نامے کے الفاظ کا مفہوم کچھ یوں تھا : "میں اللہ، ایشور، خدا کی قسم کھا کر عہد کرتا ہوں کہ ہندوستان کی آزادی کے لیے سبھاش چندر بوس کی قیادت میں اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے سے گریز نہیں کروں گااور نیتا جی کا وفادار رہوں گا۔" بوس کا منصوبہ تھا کہ انڈین لیجن کی طاقت بڑھا کر سوویت روس کے راستے ہندوستان پر حملہ کیا جائے۔ اس حملے میں نازی افواج بھی شامل ہوں گی لیکن ہراول دستے کا کام انڈین لیجن کرے گا تاکہ ہندوستانی عوام بھی آزادی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور ہندوستانی فوج انگریزوں سے بغاوت کرتے ہوئے ان کے ساتھ آ ملے۔ اس منصوبے کے ناقد کہتے ہیں کہ اگر یہ ممکن بھی ہوجاتا تو ہندوستان انگریزوں سے آزاد ہوکر نازیوں کے قبضے میں چلا جاتا۔ البتہ بوس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ جو آزاد ہند فوج انگریزوں کو برصغیر سے نکال میں کامیاب ہوتی، وہ جرمنوں کو بھی ہندوستان میں نہ رہنے دیتی۔ بہرحال یہ منصوبہ کبھی بروئے کار نہ لایا جاسکا کیونکہ جس راستے سے بوس نے انڈین لیجن کے ذریعے ہندوستان پر حملہ آور ہونا تھا، وہ بند ہوگیا ۔۔۔ یعنی ہٹلر نے سوویت یونین پر حملہ کرکے بوس کے منصوبے کو آغاز سے قبل ہی ناکام کردیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سوویت یونین پر نازی حملے نے بوس کو دہرے صدمے سے دوچار کیا۔ ایک تو ان کا منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا اور دوسرے ایک سچے سوشلسٹ کی حیثیت سے انہیں روس پر نازی حملے سے دکھ پہنچا کیونکہ اس طرح دنیا بھر میں استعماری قوتوں کے قدم مضبوط ہوتے تھے۔ بوس کی مایوسی میں اس وقت اضافہ ہوا جب مئی 1942 میں ان کی ہٹلر سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں ہٹلر نے بوس کے کسی بھی منصوبے میں دلچسپی لینے کی بجائے، انہیں جرمن حکمت عملی کا حصہ بنے رہنے کی ہدایت کی۔ بوس کو اندازہ ہوگیا کہ نازی انہیں اور انڈین لیجن کو جنگ کی بجائے محض پراپیگنڈا کے محاذ پر استعمال کرنا چاہتے ہیں تاکہ برطانیہ کو عالمی سطح پر نیچا دکھایا جا سکے۔انہوں نےہٹلر سے درخواست کی کہ انہیں طیارے کے ذریعےجاپان بھجوادیا جائے تاکہ وہ مشرقی ایشیا کے راستے ہندوستان پر حملے کا کوئی طریقہ اپنا سکیں۔ ہٹلر نے جنگ کے دوران فضائی راستے کے انتخاب کی مخالفت کی اور انہیں آبدوز کے ذریعے بھجوانے کا وعدہ کرلیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن آبدوزوں "یو بوٹس" نے سمندروں میں دہشت پیدا کر رکھی تھی تاہم سبھاش چندر کو بھجوانے کا انتظام کرنے میں کئی ماہ گزر گئے اور آخر کار فروری 1943 میں ایک جرمن یو بوٹ آبدوز انہیں لے کر روانہ ہوئی۔ جنوبی افریقہ کا چکر کاٹتے ہوئے اس آبدوز نے 26 اپریل 1943 کوبوس کو بحر ہند میں مڈغاسکر اور موزمبیق کے قریب جاپانی بحریہ کی آبدوزکے سپرد کیا جو انہیں لے کر جاپان روانہ ہوگئی۔ یوں بوس ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرتے ہوئے6 مئی 1943 کو جاپانی بحریہ کے سابانگ اڈے پر پہنچے جو سماٹرا (موجودہ انڈونیشیا) میں واقع تھا۔ اس سفر میں ان کے قریبی ساتھی اور معاون کار زین العابدین حسن المعروف عابد حسن بھی شریک تھے جو بعد ازاں آزاد ہند فوج میں میجر کے عہدے پر تعینات رہے، علاوہ ازیں انہوں نے آزاد ہند عبوری حکومت کا قومی ترانہ بھی لکھا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران دو مختلف ممالک کی بحری افواج کے درمیان آبدوزوں کے ذریعے سویلین افراد کے تبادلے کا یہ واحد واقعہ ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

ژاں سارتر
کسی بھی شخص کے کہے یا لکھے گئے الفاظ ہی اس کا اصل تعارف ہوتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply