جے آئی ٹی پہ برہم نہ ہوں

جے آئی ٹی پہ برہم نہ ہوں
طاہر یاسین طاہر
جے آئی ٹی میں پانامہ لیکس ایشو اور پیسوں کی غیر قانونی ٹرانزیکشن کے حوالے سے حکمران خاندان اور اس سے متعلقہ مختلف افراد پیش ہو رہے ہیں۔جب سپریم کورٹ نے پانامہ کیس اور اس سے متعلقہ معاملات کی مزید تحقیق کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ دیا تھا تو مسلم لیگ نون اور اس کے متعلقین نے مٹھائیاں تقسیم کی تھیں،ایک دوسرے کو مبارک بادیں دی تھیں اور یہ تاثر دیا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ، اصل میں نون لیگ کی فتح ہے۔ دلیل یہ دی جارہی تھی کہ وزیر اعظم صاحب اس کیس سے متعلق پہلے ہی اپوزیشن کو یہ آفر دے چکے ہیں کہ اس کیس کے حوالے سے ایک کمیشن تشکیل دینے کو حکومت تیار ہے، نون لیگ کے بقول جے آئی ٹی در اصل اسی کمیشن کی ہی ایک شکل ہے۔بعد میں جب سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے اراکین کی تشکیل کی اورجے آئی ٹی نے اپنی تحقیقات کا آغاز کیا تو حکمران خاندان کو آہستہ آہستہ جے آئی ٹی پہ تحفظات ہونے لگے۔یہ تحفظات اس وقت شروع ہوئے جب وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز کو جے آئی ٹی میں پیش ہونا پڑا۔انھیں جے آئی ٹی میں انتظار کرنا پڑا اور پھر ان کی ایک تصویر میڈیا پر وائرل ہوئی۔
اس کے بعد نون لیگ کے وزرا،رہنما اور دیگر ،جے آئی ٹی پہ آہستہ آہستہ برسنا شروع ہو گئے۔نون لیگ کے ایک سینیٹر نہال ہاشمی نے تو باقاعدہ دھمکیاں دیں، جس کا سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا،اور مذکورہ سینیٹر کو پارٹی کی بنیادی رکنیت سمیت پارٹی سے بھی فارغ کر دیا گیا۔چونکہ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق جے آئی ٹی کو 60 دنوں میں اپنی حتمی رپورٹ پیش کرنی ہے، اس لیے جے آئی ٹی کے کام کرنے کی رفتار تیز ہے ۔جے آئی ٹی کی جانب سے بھی ایک درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی گئی، جس میں موقف اختیار کیا گیا،کہ جے آئی ٹی کو نہ صرف ریکارڈ نہیں دیا جا رہا بلکہ بعض ادارے ریکارڈ میں ٹمپرنگ بھی کر رہے ہیں۔ اسی طرح حسین نواز نے بھی جے آئی ٹی کے دو اراکین پر اعتراض کیا تھا جسے عدالت ِ عظمیٰ نے مسترد کر دیا۔یوں دیکھا جائے تو جے آئی ٹی شروع دن سے ہی ہدف ہے کہ کسی نہ کسی طرح اسے متنازع بنا دیا جائے۔
یاد رہے کہ جے آئی ٹی میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف بھی پیش ہو چکے ہیں۔اب جے آئی ٹی نے اپنی تحقیقات کے آخری ہفتے میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار، اور مریم نواز کو بھی طلب کر لیا ہے۔جبکہ وزیر اعظم کے صاحبزادے حسن نواز تیسری بار گذشتہ روز جے آئی ٹی میں پیش ہو چکے ہیں اور حسین نواز کو چھٹی مرتبہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے۔نیز جے آئی ٹی کے دو اراکین قطری شہزادے سے بیان ریکارڈ کرنے دوحہ روانہ ہو گئے ہیں۔یاد رہے کہ اس کیس،یعنی منی لانڈرنگ کے سب سے اہم گواہ اسحاق ڈار ہیں۔گذشتہ روز وہ جے آئی ٹی میں پیش ہوئے اور پیشی کے بعد وہ میڈیا پہ آکر جے آئی ٹی اور عمران خان پہ خوب گرجے برسے۔ان کا کہنا تھا کہ” جے آئی ٹی مریم نواز کو بلانے کے بجائے سوالنامہ بھجوائے۔ہم نے حساب دے دیا اب تماشا ختم ہونا چاہیے۔وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ پانامہ کا معاملہ نواز شریف اور حکومت کے خلاف سازش ہے۔انھوں نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ جھوٹے اور بزدل ہیں۔وہ ٹیکس چور ہیں اور جوا کھیلتے ہیں۔جبکہ وزیر اعظم صاحب کے صاحبزادے حسن نواز نے کہا سمن کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے،ہم پہ کیا الزام ہے؟ ہمیں یہ تو بتایا جائے،کم از کم موٹر سائیکل چوری ہی ڈال دیں”۔دریں اثنا عمران خان نے کہا کہ وزیر خزانہ لوٹ مار کے سہولت کار ہیں، چہرے سب کچھ بتا دیتے ہیں،اسحاق ڈار بچ نہیں سکتے۔
جے آئی ٹی طلب کر کے حکمران خاندان سےکیا سوالات پوچھ رہی ہے؟ یہ تو واضح نہیں ہو سکا، البتہ یہ واضح ہے کہ جے آئی ٹی میں پیشی کو حکمران خاندان اور نون لیگی اپنی توہین سمجھ رہے ہیں اور اس سارے سلسلے کو ایک عالمی سازش سے جوڑ کر ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش میں ہیں۔یہ امر واقعی ہے کہ پانامہ ایک عالمی ایشو ضرور ہے مگر یہ میاں نواز شریف صاحب کے خلاف بین الاقوامی سازش نہیں کیونکہ میاں صاحب کا بین الاقوامی سیاست میں کوئی کردار نہیں ہے۔
یہ معاملہ در اصل پاکستان میں اداروں کی بالادستی اور کرپشن و منی لانڈرنگ کے خلاف ایک مزاحمت کا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ جے آئی ٹی پر بر ہم ہو کر نون لیگ مزید اپنے آپ کو اس حوالے سے یوں متشکل کر رہی ہے کہ،ہم اداروں کے بجائے شخصیات کے اسیر ہیں اور ایک شخص کو بچانے کے لیے ہم کسی بھی ادارے کو بد نام کر سکتے ہیں۔یاد رہے کہ نون لیگ والے جس قدر عدالت عظمیٰ کی نمائندہ جے آئی ٹی کو متنازعہ بنانے کی کوشش کریں گے اسی قدر نون لیگ کے اس کردار کو یاد کیا جائے گا،جب انھوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا۔ اس وقت جوش کے بجائے ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے،کہ یہی ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply