عالمی یوم باپ اور یتیموں کی زندگی

فجر کی نماز کے بعد فیس بک دیکھی تو ہر فرد نے اپنے والد کے ساتھ تصویر لگائی ہوئی تھی یہ منظر بڑی خوشی کا باعث تھا لیکن مجھ سے یہ دیکھ کے آنکھوں کے آنسو رک نا پائے موت کا وقت معین ہے لیکن پھر بھی دل میں یہ خواہش اٹھی کہ اے کاش میرے والد بھی زندہ ہوتے ۔بچپن کے وہ دن نہیں بھولتے ابّا جان انگلی پکڑ کر مسجد اور بازار لے جایا کرتے تھے۔ رات اپنے ساتھ سلا یا کرتے تھے رات اچھی باتیں اور کہانی سنایا کرتے تھے۔ تھوڑا بڑا ہوا تو علاقے کے سب سے اچھے اسکول میں ایڈمیشن کروا دیا خود نا پڑھے لیکن یہی خواہش تھی کہ بیٹا بڑ ا آدمی بنے ۔انگلی پکڑ کر اسکول چھوڑنے جایا کرتے تھے ۔بازار ساتھ جاتا تو جو کھلونا بھی کہتا اپنا پیٹ کاٹ کر بھی وہ لے دیتے ۔۔
اسکول سے فارغ ہوا تو تو شہر کے سب سے اچھے کالج میں داخلہ کروا دیا ۔دن گزر تے گئے کالج سے بھی پاس ہوگیا تو اب انکی خواہش یہ تھی کہ شہر کی سب سے اچھی یونیورسٹی میں داخلہ ہوجائے، آخر کار یہ بھی ہوگیا، دنیا کی تمام دولت اور ڈگریاں ایک طرف اور باپ کی ایک نگاہ شفقت ایک طرف ۔ میرے ابّا جان اپنا پیٹ کاٹتے رہے اور ہماری خواہشیں پوری کرتے رہے شام 5 بجے ڈیوٹی سے گھر پہنچتے ہی سب سے پہلا کام کرتے کہ مجھے فون کرتے اور پوچھتے کہ کہاں ہو اب روز 5 بجے یہ انتظار رہتا ہے، لیکن کوئی فون نہیں آتا ۔
اب تو عید بھی عید نہیں لگتی ماں اور بہن جیسے ہی عید کی نماز پڑھ کے آتی ہیں تو گلے ملتے ہی رو پڑتی ہیں میں تو رو بھی نہیں سکتا اگر میں بھی رو پڑوں تو پھر چپ کون کروائے۔ میں پھر اکیلا کمرے میں جا کے سسکیاں روک کے رو لیتا ہوں اب تو رشتہ دار بھی گھر نہیں آتے کہ یتیموں کو کچھ دینا نہ پڑ جائے ، میرا باپ تو اپنے کپڑے نہ لاتا تھا لیکن ہمارے کبھی نہ بھولتا تھا ۔نبی کریم ﷺکی زندگی کی طرف دیکھتا ہوں تو کچھ اطمینان ہوتا ہے ۔ابھی ماں کی کوکھ میں تھے کہ والد محترم دنیا سے چلے گئے ،کچھ ہی عرصہ گزرا تو والدہ بھی دنیا سے چلی گئیں۔ اب کفالت دادا کے ذمے آئی ،وہ بھی کچھ عرصہ بعد دنیا سے چلے گئے ، ایک بارحضور ﷺ عید کی نماز پڑھنے جا رہے تھے،راستے میں ایک بچے کی طرف دیکھا جو نئےکپڑے پہنے بچوں کی طرف حسرت کی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ،حضور ﷺ اس بچے کے پاس گئے اور پوچھا کہ تم نے آج عید کے دن بھی پرانے کپڑے کیوں پہنے ہیں تو اس بچے نے کہا کہ میرے ماں باپ اس دنیا میں نہیں رہے تو حضور ﷺ نے کہا ،کیا تم آج سے ہمارے گھر رہو گے تو اس بچے نے فورا ہًاں کر دی اسنے کہا میرے لئے اس سے خوشی کی اور کیا بات ہوگی تو حضور ﷺ اسکی انگلی پکڑ کر گھر لے گئے حضرت آمنہ سے کہا اس بچے کو نئے کپڑنے پہنا دو یہ آج سے ہمارے ساتھ ہی رہے گا ۔اسے نہلایا نئے کپڑے پہنا ئے اور انگلی پکڑ کر ساتھ لے گئے، اب وہ بچہ خوشی سے جھو م رہا تھا ۔ایک طرف یہ کردار ہے اور دوسری طرف آج ہمارا کردار یہ ہے کہ جو یتیم ہوجائے ان کے گھر جانا چھوڑ دیتے ہیں یتیم بچیوں سے شادی نہیں کرتے کہ یہ جہیز کم دیں گے ۔
ارے بھائی یتیم کے تو صرف سر پر ہاتھ بھی رکھ دیں تو وہ خوش ہوجاتا ہے کیا ہی اچھا ہو کہ ہم عالمی یوم باپ پر ایک عہد کریں کہ ہم میں سے ہر ایک، ایک یتیم بچی کی شادی اپنے ذمے لے۔ ایک یتیم کی کفالت اپنے ذمے لے لے ،اگر یہ نہیں تو پھر پاکستان میں ایسی بہت ساری فلاحی تنظییمں کام کر رہی ہیں جو یتیموں کی کفالت کر رہی ہیں انکی کچھ مدد کر دیں ۔
مجھ کو چھاؤں میں رکھ دیا اور خود جلتا رہا دھوپ میں
میں نے دیکھا ہے ایک فرشتہ باپ کے روپ میں

Facebook Comments

امیر حمزہ
ایڈووکیٹ،لاہور ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”عالمی یوم باپ اور یتیموں کی زندگی

Leave a Reply to Amir Wattoo Cancel reply