ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری سے رہائی تک کی داستان

حال ہی میں چھپنے والی کتاب میں ریمنڈ ڈیوس نے سنسنی خیز انکشافات کیے ہیں اس کتاب میں اس نے لکھا ہے کہ وہ کس طرح گرفتار ہوا اور پھر کس طرح رہا ہوا ، حالیہ امریکی الیکشن کی وجہ سے اسے پہلے روکا گیا تھا تاکہ ہیلری کلنٹن اس سے سیاسی فائدہ نہ اٹھا سکے لیکن اب یہ کتاب پبلش کر دی گئی ہے ۔ریمنڈ ڈیوس لکھتا ہے اس نے 23 جنوری 2011 کو لاہور میں دو نوجوان اچانک میرے سامنے آگئے میں سمجھا وہ مجھے قتل کرنا چاہتے تھے تو میں نے ان کوگولیاں مار کے وہیں قتل کر دیا میں وہاں سے نکلا تو تیز رفتاری کی وجہ سے مزید ایک لڑکا میری گاڑی کے نیچے آ کر مر گیا ۔یوں یہ داستان شروع ہوئی اور بڑی دور نکل گئی اس کہانی کے سب سے ڈرامائی سین آخری دن کی عدالتی کارروائی ہے ۔

ریمنڈ ڈیوس اپنی کتاب دی کنٹریکٹر میں لکھتا ہے کہ اس کے رہا ہونے میں سب سے اہم کردار جنرل پاشا نے ادا کیا۔ریمنڈ ڈیوس اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ وہ بہت خوف زدہ تھا اور آخری پیشی کی رات سویا نہ تھا مجھے ڈر تھا کہ صبح مجھ پر فرد جرم لگا کہ پھانسی کی سزا سنا دی جائے گی ۔23جنوری 2011 امریکی چیف آف آرمی اور پاکستانی چیف آف آرمی کی ملاقات پہلے سے طے شدہ تھی لیکن اس کا ایجنڈا افغانستان کی صورت حال تھا ،اس دن صرف یہ بات ہوئی کہ قانون میں کوئی طریقہ نکال کہ مجھے نکالا جائے یہ ملاقات عمان میں ہوئی ۔ ریمنڈ ڈیوس مزید لکھتا ہے کہ پاشا امریکی سفیر کیمرون اور سابق سربراہ سی آئی اے لیون پینٹا سے مسلسل رابطے میں تھے ۔

جماعت اسلامی کے وکیل اسد منظور بٹ میرے خلاف یہ مقدمہ مفت لڑ رہے تھے اور بڑے مضبوط دلائل دے رہے تھے اس کا کہنا تھا کہ میں نے فیضان حیدر کو ناجائز قتل کیا ہے اور مجھے اس کی سزا ملنی ضروری ہے ۔ مقتولین کے ورثا صلح کو تیار نہ تھے اور اسد منظور بٹ ا ن کو مسلسل انصاف دلوا نے کی یقین دہانی کروا رہا تھا ، 14 مارچ 2011 کو جنرل شجا ع پاشا نے مقتولین کے گھر کے 18 لوگوں کو اٹھا لیا اور کوٹ لکھپت جیل میں بند کر دیا اور ان کے گھروں کو تالے لگا دیے اور ا ن سے کہا کہ دیت لے کر صلح کر لیں ورنہ نتائج کے لیے تیار رہو ، اس ساری کارروائی سے پاکستانی فوج ، صدر پاکستان آصف زرداری اور نواز شریف کو آ گاہ کر دیا گیا تھا۔ بلآخر 16 مارچ 2011 کو آخری پیشی والے دن میرے لئے سب سے حیرت کی بات یہ تھی کہ وکیل استغاثہ اسد منظور بٹ کمرہ عدالت میں موجود نہ تھے بعد میں انہوں نے بتایا کے ان کو کئی گھنٹوں تک قید میں رکھا گیا تھا ۔

عدالتی کارروائی شروع ہوئی تو مجھے میری امریکی ساتھی نے بتایا کہ عدالت کو شرعی عدالت میں تبدیل کر دیا گیا ہے میں بہت پریشان تھا صحافیوں سمیت سب کو باہر نکال دیا لیکن جنرل شجاع پاشا وہیں موجود رہا اور عدالتی کارروائی سے کیمرون منٹر اور امریکی حکام کو میسج کر کے آگاہ کرتا رہا۔پھر بلآخر ورثا آتے گئے اور دیت کی رقم وصول کرتے گئے ان کو یہ بھی کہہ دیا گیا تھا کہ میڈیا کے سامنے کچھ نہ کہنا ورنہ ۔۔۔دیت کی رقم 23 کروڈ روپے ادا کی گئی جو کہ حکومت پاکستان نے ادا کی ۔آخر میں مجھے پچھلے دروازے سے باہر نکال دیا گیا میں لاہور ایئر پورٹ پہنچا اور مجھے خصوصی طیارے کے ذریعے امریکہ پہنچا دیا گیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جنرل شجاع پاشا کی مدت ملازمت اس پیشی کے دو دن بعد پوری ہو رہی تھی لیکن پھر ایک سال مزید توسیع کر دی گئی ۔۔. ریمنڈ مزید لکھتا ہے کہ میری رہائی میں صدر پاکستان آصف زرداری ، امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی ، اور نواز شریف نے بھی بھرپور کردار ادا کیا ۔ ریمنڈ ڈیوس نے یہ بھی لکھا کہ پاکستان میں صرف جماعت اسلامی میرے خلاف مظاہرے کر رہی تھی اور حکومت سے بار بار میری سزا کا مطالبہ کر رہی تھی لیکن جوں ہی یہ تحریک تھوڑی مانند پڑی مجھے فوری طور پر نکال دیا گیا ۔
پھر یوں ہوا کہ ریمنڈ ڈیوس امریکہ واپس پہنچ گیا لیکن آج یہ کتاب لکھ کر ہمارے قومی دفاع کے اداروں ، عدالتوں ، اور سیاست دانوں کا جنازہ نکال گیا ہے ۔
ہمیں تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا.

Facebook Comments

امیر حمزہ
ایڈووکیٹ،لاہور ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply