ایک خواہش جو مہنگی پڑ گئی۔۔۔۔ انوارالحق مغل

دو سال پہلے ہوم پر گھومتی ایک تحریر نظروں سے گزری جس میں لکھنے والے نے اپنی آپ بیتی تحریر کر رکھی تھی اور اپنی محنت پر پانی پھرنے کی وجہ سے نوحہ کناں تھا۔

خیر تحریر پڑھی جو سیدھا دل میں اتر گئی، کیونکہ جو واقعہ اس نے بیان کیا تھا اکثر صحافتی فیلڈ میں کام کرنے والے ورکرز کو بھی پیش آتا ہے کہ جب کبھی کوئی رپورٹر اندر کی خبر نکال کر لائے اور اس کو اوپر بیٹھے ایڈیٹر کی طرف سے روک لیا جائے تو شاید رپورٹر کی زندگی وہ بدترین اور غمگین دن ثابت ہوتا ہے اور پھر روکنے کی وجہ اندرون خانہ برگیننگ ہو تو پھر وہ رپورٹر خون کے آنسو رونے پر بھی مجبور ہوجاتا ہے۔

جہاں تحریر میں دلچسپی کا سبب یہ واقعہ تھا وہیں الفاظ کا چناؤ، جملوں کی ترتیب اور پیراگراف میں توازن بھی تحریر میں نکھار پیدا کر رہے تھے۔

اس وقت تحریر لکھنے والا نقاب پوش تھا، جس کی وجہ شاید اپنی جان کا تحفظ تھا، پھر دھیرے دھیرے وہ شخص سوشل میڈیا پر دھوم مچانے لگا، کراچی کے مہاجروں، جمعیت علماء اسلام کی آواز بننے اور پی ٹی آئی سمیت بعض اداروں پر کھلی تنقید کرنے کی وجہ سے اس کی مقبولیت بڑھنے لگی اور اس کی رائے کو غیرمعمولی حیثیت ملنے لگی یہاں تک کہ ایک موقع پر ایک بڑے چینل نے اس کے تبصروں کو سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے طور پر ٹیکرز میں بھی چلایا۔

وہ جیسے سوشل میڈیا پر مہان شخص ثابت ہوا ایسے ہی وہ پرنٹ میڈیا پر بھی عملی طور پر ایک نامی گرامی صحافی کے طور پر پہچانا جاتا تھا مگر صحافت جب سے تجارت میں تبدیل ہوئی اور اخبارات، چینلز نے خود بھی کھاؤ ہمیں بھی کھلاؤ کا اصول اپنایا سینئرز سے سنا ہے تب سے ورکر صحافی معاشی بحران کا شکار ہوگئے ہیں اس لیے یہ شخص بھی مالی طور پر اس قدر مستحکم نہ تھا اور نہ کسی بڑے خاندان یا امیر گھرانے کا فرد تھا۔

مگر اس کے دل میں ایک ایسی خواہش نے سر اٹھایا جس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے اس کو پورا کرنے کیلئے پر تولنا شروع کر دیئے، وہ فلم بنانا چاہتا تھا جس کیلئے اس نے پوری ٹیم تشکیل دی، فنانس کیلئے دو چار دوستوں اور ایک پروڈکشن کمپنی کی خدمات حاصل کیں سکرپٹ اس کا اپنا تھا تاہم بیچ میں فلم کے دوسرے لوازمات دوسروں کے ذریعے پورے ہو رہے تھے، چند ماہ کی سرتوڑ کوششوں کے بعد پھر ایک وقت آیا جب فلم کی تیاری مکمل ہو رہی تھی، فلم کا ٹرائل بھی تیار کرلیا گیا تھا، تشہیری مہم بھی شروع ہو چکی تھی جبکہ فلم منظر عام پر لانے کی تاریخ کا اعلان بھی کر دیا تھا۔

مگر خدا کو کچھ اور منظور تھا، ان دنوں ایک دوسرے شخص نے جس کو رنگین سکالر کہیں، اینکر کہیں یا سیاسی وہ آپ کی مرضی پر بزغم آں شخص وہ سب کچھ ہے اس نے اس شخص کی اس فلم کو اپنے پروگرام کا موضوع بنایا اور ایسا الزام عائد کر دیا جس کے بعد حساس اداروں نے اس شخص کو اپنی گرفت میں لے لیا اور یوں 30 اکتوبر 2017 کو وہ منظر سے غائب ہوگیا، چونکہ فلم کی ساری بنیاد اسی شخص پر تھی جب وہ منظر سے ہٹا تو فلم کا منظرعام آنا ممکن نہ رہا تھا۔

خیر اس کو سوشل میڈیا سے گئے جب دو چار دن گزرے تو اس کے بارے چہ میگوئیاں ہونے لگیں اور پروپیگنڈہ کر کے اس کو مشکوک بنا دیا گیا، ہوا ہوں کہ جب وہ اداروں کی گرفت میں آیا اور اس سے رابطہ کا کٹ گیا تو ایک معروف ایکٹوسٹ نے خبر پھیلادی کہ یہ شخص فلم کے نام پر کروڑوں کا فراڈ کر کے بیرون ملک روپوش ہوگیا ہے، چونکہ اکثر لوگوں کا اس سے واحد رابطہ یا فیس بک تھی یا ٹوئٹر تھا اور وہ وہاں دستیاب نہ تھا، جس کی وجہ اس پروپیگنڈے نے اپنا اثر دکھایا اور بدگمانیاں پھیلنے لگیں، افسوسناک امر یہ بھی تھا کہ اصل صورتحال اور گھر بار معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اس عظیم شخص کیلئے مجھ سمیت کسی نے نہ آواز اٹھائی اور نہ اس پروپیگنڈے کا جواب دیا۔

خیر وقت گزرتا رہا کبھی کبھی سوشل میڈیا کے دوست اکھٹے ہوتے تو بیچ میں اس کو بھی موضوع بنا لیا جاتا اور اس طرح نو ماہ مکمل ہوئے اور پھر چار روز قبل اچانک اس کی آئی ڈی سے اس کی تازہ تصویر ظاہر ہوئی جس سے اس کی نو ماہ کی گمشدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔

اگلے روز اس شخص نے نو ماہ کی کارگزاری لکھی جس کے مطابق اوپر سطور میں مذکور اینکر نے اس کی فلم پر الزام عائد کیا تھا کہ یہ لسانیت اور اداروں سے نفرت پر مبنی ہے، دوسرا الزام یہ تھا کہ اس شخص کا تعلق ایم کیو ایم لندن سے ہے اور وہاں سے اس کو فنڈنگ کی گئی ہے، تیسرا الزام جو بقول اس کے صحیح تھا کہ تین پروگرام اس نے سوشل میڈیا پر کیے جس میں صحافتی اصولوں کی پاسداری نہ کی گئی اور جانبداری کا مظاہرہ کیا گیا جس کی وجہ سے فوج و دیگر اداروں کی ساخت متاثر ہوئی جس کا اعتراف اس نے کیا اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا بھی عہد کیا اور اول الذکر دونوں الزامات جھوٹ ثابت ہوئے جس بناء پر اس کو چھوڑ دیا گیا۔

جب سے واپس آیا تب سے ہر طرف اسی کے چرچے ہونے لگے ہیں وہ لوگ جو اس کے بارے میں پیسہ بٹور کر راہ فرار اختیار کرنے کے پروپیگنڈے کر رہے تھے ان کے چراغ بجھنے لگے ہیں کیونکہ اس شخص نے واپس آتے ہی تمام پرپیگنڈہ میکروں کی اصلیت سر راہ کھول دی ہے اور تسلسل سے خود پر لگنے والے الزامات کا دھلائی کر رہا ہے اور الزامات لگانے اور لگوانے والوں کی بہترین نشاندہی کر رہا ہے۔

ایک خواہش کی خاطر نو ماہ تک مشکلات سہنے والا یہ شخص علی سجاد شاہ ہے جو اب بیڈ ریسٹ پر ہے مگر اتنی پریشانی دیکھنے کے باوجود اب بھی اس کی خواہش باقی ہے کہ وہ فلم ریلیز کرے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ کریم شاہ صاحب کو صحت کاملہ عطا فرمائے اور ان لوگوں کو ہدایت عطا کرے جو اس سوشل میڈیا ہر پسندیدگیوں، تبصروں اور واہ واہ کی خاطر دوسروں کی پگڑیا اچھال رہے ہیں۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply