سیاست دان ، منافقت اور امریکہ

امان اللہ خان جو امریکی ایمبیسی میں پولیٹکل ایڈوائزر تھے، اپنی کتاب tight rope walk ، صفحہ نمر 140 میں لکھتے ہیں کہ جتنے منافق پاکستانی سیاست دان ہیں اتنے کسی اور ملک کے نہیں، ان کے دو چہرے ہوتے ہیں، ایک وہ جو وہ عام پبلک کو دیکھاتے ہیں، دوسرا وہ جو وہ امریکیوں کو دیکھاتے ہیں۔قاضی حسین احمد صاحب، جماعت اسلامی کے امیر اینٹی امریکہ تھے، ہر وقت امریکہ کے خلاف بولتے رہتے تھے۔ امریکن ان سے بہت زیادہ ناخوش تھے۔ ایک دن ہمارے سفیر مونجو نے کہا کہ ایک میٹنگ قاضی صاحب کے ساتھ رکھتے ہیں اور ان سے پوچھتے ہیں کہ آخر ان کو ہمارے ساتھ مسلہ کیا ہے؟ جب ہم قاضی صاحب سے ملے تو میں نے سب سے پہلا سوال یہ کیا کہ قاضی صاحب آخر آپ اتنے اینٹی امریکن کیوں ہیں؟ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ آپ امریکیوں کے ساتھ بہت زیادہ تعصب رکھتے ہیں۔ آخر کیوں؟
قاضی صاحب کو توقع نہیں تھی کہ ایسا سوال پوچھا جائے گا۔ وہ کچھ شرمندہ ہوئے اور زور زور سے بولنے لگے، اوہ نہیں، میں تو امریکہ کا دوست ہوں۔ میں تو امریکیوں کو بہت پسند کرتا ہوں، امریکی میرے دوست ہیں، میں تو امریکہ کا دوست بننا چاہوں گا۔ جو کچھ میں پبلک میں کہتا ہوں، وہ جملے صرف عام عوام کے لیے ہوتے ہیں۔ مگر اصل میں، میں تو امریکہ کا دوست ہوں۔

ونڈی چیمبرلین جو امریکن سفیر رہی ہیں، 2001-2002 میں۔ ان کے ساتھ ایک دن قاضی حسین احمد کے بارے میں بات ہوئی تو ونڈی نے بھی یہ ہی کہا کہ قاضی صاحب نے کم و بیش یہ ہی الفاظ ان کو بھی کہے۔ کہ” میں امریکہ کا دوست ہوں۔ جو میں اینٹی امریکہ بیانات دیتا ہوں، وہ صرف پبلک کے لیے ہوتے ہیں، جبکہ حقیقت میں، میں امریکہ کا دوست ہوں”۔
اسی طرح ایک بار مولانا فضل رحمان سے بھی یہ ہی سوال پوچھا گیا کہ وہ امریکہ کے خلاف کیوں بیان دیتے ہیں، تو ان کا بھی جواب یہ تھا کہ”یہ سب کچھ میں پبلک کے لیے کہتا ہوں”۔

اب سوال یہ ہے کہ آخر پاکستانی سیاست دان کیوں اس قسم کے کھیل کھیلتے ہیں؟ پاکستان میں ایک عمومی خیال یہ ہے کہ امریکہ ہی پاکستان کو کنٹرول کرتا تھا، ہے اور کرتا رہے گا۔ اس لیے سیاسی فائدہ اُٹھانے کے لیے سیاست دان پبلک میں ہمیشہ کچھ اور بولتے ہیں اور عموماً یہ امریکہ کے خلاف بیان ہوتا ہے، یہ اس لیے امریکہ کے خلاف بیان دیتے ہیں کہ اس سے عام عوام خوش ہوتی ہے اور انہیں ووٹ دیتی ہے۔ مگر اسی کے ساتھ ہی سیاست دان یہ بھی چاہتے ہیں کہ امریکیوں کے ساتھ بھی میل جول اور اچھے تعلقات رکھیں۔ بہت سے پاکستانی آفیشل ، سیاست دان اور ارکانِ پارلیمنٹ اپنے مفاد کے لیے امریکیوں سے میل جول رکھتے ہیں۔ اپوزیشن کے لیڈر اس لیے ملتے ہیں کہ حکومت اور اسٹبلیشمنٹ کے خلاف اپنی بھڑاس نکال لیں۔ جبکہ حکومتی ارکان اس لیے ملتے ہیں کہ امریکیوں کو اپنا نکتہ نظر سمجھا سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں مضمون اس بات پر ختم کریں گے کہ” یہ پاکستانی سیاست دان اندر سے کچھ اور ، باہر سے کچھ اور ہیں ۔ عوام کے لیے کچھ اور، امریکہ کے لیے کچھ اور، اسٹیبلشمنٹ کے لیے کچھ اور۔ اس کو ہم اس طرح بیان کریں گے کہ منافقت پاکستانی سیاست دانوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
حوالہ؛
اس مضمون میں واقعات امان اللہ خان کی کتاب tightrope walk سے بیان کیے گئے ہیں۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply