جمشید دستی ظلم و جبر کے خلاف مظلوم طبقے کی آواز

“پاکستانی سیاست کا رابن ہڈ”

ایک محیر العقول کردار جس پہ ہاورڈ یونیورسٹی میں رِیسرچ ہوئی کہ آخر وڈیروں ،جاگیرداروں، سرمایہ داروں پہ مشتمل نام نہاد اشرافیہ کے گرد گھومتی ہوئی پاکستانی سیاست میں ایک غریب لوئر مِڈل کلاس شخص کیسے جگہ بنا گیا جو دو بار ایم این اے منتخب ہوا،شیخ رشید اور جاوید ہاشمی اور نوازشریف کے بعد یہ واحد سیاستدان ہے جو قومی اسمبلی کی دو نشستوں سے بیک وقت کامیاب ہوا مگر جمشید دستی کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ آزادانہ حیثیت سے سے کامیابی حاصل کی جس کی مثال پاکستانی سیاست میں نہیں۔جمشید دستی نے جس قبیلے میں آنکھ کھولی وہ زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھا اس وجہ سے اکثر لوگ جرائم میں ملوث تھے۔خونریزی، قتل کا انتقام نسل در نسل چلتا ۔۔ایسے ماحول نے جمشید دستی کو بھی ڈر خوف سے آزاد کر دیا۔۔رسک لینا، خطروں سے کھیلنا اس کی جبلت بن گئی۔
خطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں۔۔
وہ قیامگاہ کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیّاد!

اسی خاندانی قتل و غارتگری خونریزی کی روایت کے سبب جمشید دستی نے 18 سال کی عمر میں قتل کے جھوٹے مقدمے میں جیل کاٹی۔جنگل کے قوانین زدہ معاشروں میں طاقت بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور صحافت بھی طاقت کے حصول میں ممد و معاون ہے 20 سال کی عمر میں جمشید دستی نے ہفت روزہ اخبار شاہوانی کی بنیاد رکھی جوآئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کے چئیر مین یوسف شاہوانی کے نام پر اور ان کی سرپرستی میں شائع ہوا۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ ہفت روزہ مظفرگڑ میں سرکاری و غیر سرکاری کرپٹ مافیا کے گلے کا پھندہ بن گیا ۔اس معمولی سے اخبار میں اس نے مظفر گڑھ کے سیاسی وڈیروں، جاگیرداروں مقتدر لوگوں کے کالے کرتوت اور سرکاری افسران کی کرپشن کی سٹوریز عوامی زبان میں شائع کرنی شروع کیں ،بڑے بڑے فرعونوں سے ٹکر لی وہاں سے یہ شخص عوام میں اور خواص میں متعارف ہوا ،دبلا پتلا وجیہہ و شکیل نو جوان جسے دیکھ کے لوگ حیران ہوتے کہ یہ وہ جمشید دستی ہے جس نے کھروں، گورمانیوں، نوابوں کو وقت ڈال رکھا ہے
یوسف شاہوانی نے دستی کی سرپرستی کی اور آئل ٹینکر ایسوسی ایشن کا عہدہ دے کر ہر ٹینکر کو پابند کیا کہ یونین کی مد میں جمشید دستی کو کچھ رقم یونین فنڈ کی صورت میں دی جائے جو اس کی گزر بسر کا ذریعہ تھی اور ا س طرح دستی غمِ روزگار سے آزاد ہو کے وقت کے فرعونوں ،شدادوں ،نمرودوں سے نبرد آزما ہوا
(بعد ازاں دستی آئل ٹینکرز ایسوسی ایشنوں کا سرپرست ِاعلی بنا دیا گیا،سیاسی مخالفین کے ہاتھ جب کچھ نہ لگا تو انہوں نے اسے بھتے کا نام دے دیا اور یار لوگ بھی ان کے پروپیگنڈے کا شکار ہو گئے) ۔آئل ٹینکر ایسوسی ایشن لیبر یونین تھی وہیں سے یہ سیاست میں آیا لیبر کونسلر بنا ،پھر یونین ناظم یہاں سے سیاست کا کامیاب سفر شروع ہوتا ہے ،مشرف دور میں جب ضلعی حکومتوں کو با اختیار بنایا گیا تب دستی نے اس وقت پیپلزپارٹی کے ایم این اےقیوم جتوئی کو مشورہ دیا کہ”ایم این اے شپ چھوڑ کے ضلعی نظامت کا الیکشن لڑو ،ناظمین سے ووٹ دلوانا مجھ پہ چھوڑ دو”۔

قیوم جتوئی پنجاب میں پیپلزپارٹی کا واحد ضلعی ناظم بنا جہاں سے قیوم جتوئی قومی سیاست میں چمکا، بعد ازاں دفاعی پیداوار کا وزیر بنا۔ اس کے عزیز ایم این اے معظم جتوئی کو بھی وفاقی وزارت دی گئی۔یہی مظفر گڑھ پنجاب کا لاڑکانہ کہلایا جہاں سے 4 ایم این اے اور کئی ایم پی اے پیپلزپارٹی کے کامیاب کروائے گئے، یہ سب جمشید دستی کی جراتمندانہ انقلابی سیاست کا کارنامہ تھا۔ بے نظیر نے شہادت کے جلسے سے پہلے آخری جلسہ مظفر گڑھ میں دستی کی دعوت پہ کیا ۔ دستی صاحب قومی سیاست میں وارد ہوئے ،اسمبلی میں فریال تالپور کو گالی دینے پہ فیصل صالح حیات کو للکارا۔۔ نوبت دست و گریبان تک پہنچی، یہاں سے زرداری کی آنکھ کا تارا بنا، پیپلزپارٹی کا طاقتور دبنگ ایم این اے جو برسرِ عام وزیراعظم گیلانی، وزیر داخلہ رحمان ملک پہ تنقید کرتا، ڈاکٹر عاصم جیسےزرداری کے پیارے منسٹر کو للکارتا یہاں تک کہ پارٹی سربراہ صدرِ مملکت زرداری کو بھی آڑے ہاتھوں لیتا۔

سپورٹس سٹینڈنگ کمیٹی کا چئیرمین بنا تو صدر زرداری کے رشتے دار پی سی بی کے چیئرمین اعجازبٹ کو ناکوں چنے چبوائے ،ایسا دبنگ جراتمند شخص ملکی سیاست میں نہیں ملے گا جو اپنی جماعت کی کرپشن نا اہلی پہ کھل کے تنقید کرتا ہو۔یہ سب عوام میں مقبولیت کی وجہ سے تھا۔نا اہل ہوا، پھر الیکشن لڑا، منتخب ہوا، عوام میں اتنا مقبول کہ آنکھوں پہ بٹھاتے، دستی کے لئیے تھانے جیلیں بھر دیتے۔سکینڈلز دستی کا پیچھا کرتے رہے اور یہ سکینڈلز کا،مگر دستی مقدر کا سکندر ہے
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں ۔۔
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے!

ریڑھی بان کو ٹکر مارنے پہ ایس پی سے بھِڑِ جانا ہو،ڈاکٹرز کی غفلت سے بچہ مرجانے پہ ڈاکٹرز کو رگڑا دینا(ڈاکٹرز تشدد کیس )جعلی ڈگری کیس ہو، پارلیمنٹ لاجز میں شراب و شباب کی محفلوں پہ احتجاج کرکے حکمران اشرافیہ کی مخالفت مول لینا یا مختاراں مائی کی اصلیت بے نقاب کرنے پہ این جی اوز کی توپوں کا رُخ اپنی جانب پھیر لینا ۔کرپشن پہ ڈپٹی ڈی او تعلیم کو دفتر میں جا کے سرزنش کرنا،یہ سب دستی کی افتادِ طبع ہے ،جب اس نے دیکھا پاکستان میں محروم مہقور نچلے طبقے کی داد رسی ہونا ناممکن ہے اور عدل و انصاف کا فرسودہ نظام مظلوم کو انصاف دینے کی بجائے مجرم کو تحفظ فراہم کرتا ہے، کرپٹ حکمران اشرافیہ اور ریاستی ادارے عوام کے جان و مال کے تحفظ اور انصاف و حقوق کی فراہمی میں ناکام ہیں تو دستی کی سوچ میں انقلاب آیااس نے اپنی بساط کے مطابق مظلوم مجبور طبقے کے لئیے فوری انصاف اور ظالم جاگیردار سرمایہ دار اشرافیہ سے حقوقِ بزورِ بازو چھین لینے کی حکمتِ عملی اختیار کی۔

وہ متاثرہ فریق کو ساتھ لیتا اور اس کے مسئلے کے حل کے لئیے قانونی دباؤ ڈالتا، ناکامی کی صورت میں اپنے طریقے سے گردن پہ پاؤں رکھ کے انصاف فراہم کرتا،دستی کی یہ ڈگر قانون و انصاف اور اخلاقیات کی رُو سے بے شک غلط ہو مگر عوام میں دستی کو پذیرائی ملی،اس طرح جمشید دستی پاکستانی سیاست کا رابن ہڈ کہلایا۔یہ بھی پاکستان میں پہلی بار ہے کہ کسی سیاستدان نے جو عوام کے لئیے مفت ٹرانسپورٹ کی سروس مہیا کی جس سے ہزاروں غریب مزدور اور ملازمت پیشہ اشخاص فائدہ اٹھا رہے ہیں،لوگ کہتے ہیں شہباز شریف نے میٹرو بس کا آئیڈیا جمشید دستی فری بس سروس سے لیا مگر نہیں ،میٹرو ایک سفید ہاتھی ہے جو عوام کے خون پسینے کی کمائی سے بنی اور اس پہ عوام کرایہ ادا کر کے سفر کرتی ہے جبکہ جمشید دستی نے عوام کے لئیے فری بس سروس فراہم کی جس پہ گورنمنٹ سے کوئی امداد نہیں لی گئی۔

عوامی فلاح کے متعدد منصوبے شروع کئیے،اپنے حلقے میں گیس اور بجلی کے اربوں روپے کے پراجیکٹ مکمل کئیے،اسمبلی میں بِل پیش کیا کہ میرے حلقے میں تین تھرمل ہاوسز ہیں جن سے زہریلی گیس کے اخراج سے لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں، قومی مفاد میں ہم انہیں برداشت کرتے ہیں مگر تھرمل ہاوسز سے پانچ کلومیٹر تک رہائش پذیر عوام کو بجلی کی مد میں 100 یونٹ تک فری دئیے جائیں ۔یہ منفرد انقلابی سوچ تھی،عوام کے لئیے ہر وقت دستیاب دستی ان کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے۔بہت سے لوگ جمشید دستی کو ڈرامہ باز کہتے ہیں،کبھی جوتے پالش کر رہا ہے تو کبھی گدھا بانی تو کبھی باربر شاپ پہ لوگوں کی زلف تراشی تو کبھی جھاڑو اٹھا کے شہر کی صفائی۔۔۔جب ان سے اس بابت سوال کیا جاتا ہے تو بڑے مدلل اور دلچسپ جواب دیتا ہے۔کہ “میں یہ کام اس لیئے کر لیتا ہوں کہ انہی کے طبقے کا فرد ہوں میرا باپ مزدور تھا، مجھے اسی طبقے کے لوگ ووٹ دیتے ہیں مجھ سے محبت کرتے ہیں میں ایسا کر کے ان میں اعتماد ، عزتِ نفس، شعورِ ذات اجاگر کرتا ہوں کہ یہ پیشے کمتری کی علامت نہیں، میں نے ایم این اے شپ غریب آدمی کے قدموں میں رکھ دی ہے پھر یہ کہ میرے آقا ﷺ سے معزز و محترم کون ہے جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے جوتے مرمت کیئے، گدھے پہ سواری پیغمبروں کا طریقہ ہےجو لوگ اس کو ڈرامہ سمجھتے ہیں انہیں کہیں ذرا یہ ڈرامہ کر کے دکھائیں”۔

میرے خیال میں جو لوگ دستی کو ڈرامہ یا نوٹنکی کہتے ہیں وہ جدید سیاست سے نابلد ہیں،یہ سب چیزیں علامتی ہوتی ہیں۔۔۔ان سے عوام کو پیغام دینا مقصود ہوتا ہے ۔ اسمبلی میں عوام کے حقوق کے لئیے بولتا ،اسلامی قانون سازی کے لئیے آواز بلند کرتا ،کرپشن پہ سزائے موت کا بِل پیش کرنے والے جمشید دستی نے جب حکمرانوں کی کر پشن کے خلاف آواز اٹھائی تو اسے ایک معمولی مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا،جب اس نے کسانوں کی مرتی ہوئی فصلوں کو سیراب کرنے کے لئیے نہر کا پانی کھولا جو کسانوں کا حق تھا، جس کے لئیے وہ محکمہ انہار کو مالیانہ ادا کرتے ہیں ،مزدوروں کے لئیے جدوجہد پہ دستی کو چی گویرا سے مماثل قرار دیا جا رہا ہے، امیر غریب ذات پات کی زنجیروں کو توڑنے ،اشرافیہ اور مہقور طبقاتی تقسیم کو چیلنج کرنے پہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پردستی کو ضمیر کا قیدی اور نیلسن منڈیلا سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دستی کو جو بھی کہیں حقیقت یہ ہے کہ جمشید دستی غریب مزدور کسان مظلوم و مہقور اچھوت سمجھے جانے والے طبقے کی آواز بن کے ابھرا ہے طاغوتی ظلم و جبر کی قوتوں کے خلاف جدوجہد کا استعارہ ہے،ا یک ایسا کردار ہے جس کی زندگی ، کامیابی، عزم ، جرات، سیاست، بصیرت سب عوام کے گرد گھومتی ہے، جس کی زندگی ناقابل ِ یقین واقعات و حقائق سے بھری پڑی ہے۔

Facebook Comments

گل ساج
محمد ساجد قلمی نام "گل ساج" مظفر گڑھ جنوبی پنجاب ۔۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply