اس وقت مجھے بھٹکا دینا. جب سامنے منزل آ جائے

مورخہ 29 جون 2011ء قلعہ پھروالا جانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے مجھے بے ساختہ یہ شعر یاد آ گیا .
اس وقت مجھے بھٹکا دینا
جب سامنے منزل آ جائے
انتہائی دشوار گزار کچا راستہ تھا. راستے میں کہیں اکا دکا گھر نظر آ جاتے تھے اور کبھی کبھار کسی بکری یا گائے سے سامنا ہو جاتا. راستے میں انتہائی دلکش و دلنشیں مناظر تھے مگر وہاں جانا بہت جوکھم کی بات ہے۔ رستے میں کہیں کہیں کنکریٹ کی بنی سو دو سو میٹر کی پٹی آ جاتی تو ہماری جان میں جان آتی وگرنہ وہاں گاڑی کُجا ،بائیک پر جانا بھی بہت مشکل ہے اور جب سامنے منزل آ جاتی ہے یعنی قلعہ، لگ بھگ ایک کلو میٹر رہ جاتا ہے تو بائیک بھی نہیں جا سکتی اور یہی وہ مقام تھا جہاں پر میرے ہمسفر آگے بڑھنے سے انکاری ہو گئے اور مجبوراً مجھے بھی واپسی کی راہ لینی پڑی ۔
قلعے کی طرف جاتا دشوار گزار راستہ دیکھ کر میں ظہیر الدین بابر بادشاہ اور سکھوں کے ان لشکروں کو داد دئیے بغیر نہ رہ سکا جنھوں نے اس قلعے کو تسخیر کیا ، رستہ گھاٹیوں سے گزرتا ہے اور حملہ آور لشکر کو ہر آن پہاڑیوں سے تیراندازی اور ناگہانی حملے کا خطرہ رہتا ہو گا اور اتنے تنگ رستے پر پیادہ کے لئے چلنا ہی بہت مشکل ہے تو گھڑ سفار ،فیل بان اور منجنیقیں اور توپیں وہاں سے کیسے گزاری ہونگی ، مقامی لوگوں نے مغلوں اور سکھوں کو دنوں تک یہاں الجھائے رکھا اور انھیں ناکوں چنے چبوائے لیکن بالآخر حملہ آوروں نے یہ مشکل قلعہ فتح کر ہی لیا کیونکہ ہر سیر پر سوا سیر ہے ، وہ معمار بھی قابلِ تعریف ہیں جنھوں نے ایسی جگہ 175 ایکڑ رقبہ پر ایک فوجی شاہکار تعمیر کیا۔
قلعہ پھر والا کے متعلق کچھ معلومات آپ سے شئیر کرنا چاہوں گا جو کہ انٹرنیٹ سے حاصل کی گئیں انھیں پڑھ کر آپکو اندازہ ہو گا کہ ہماری حکومتیں اتنے قیمتی تاریخی ورثے سے کس طرح لاپرواہ اور غافل ہیں ۔
قلعہ پھروالہ ایک تاریخی قلعہ ہے جو خطہ پوٹھوار میں واقع ہے۔ راولپنڈی سے مشرق کی جانب 27کلو میٹر اور اسلام آباد ہائی وے سے 17کلومیٹر کے فاصلہ پر لہتراڑ روڈ چراہ گاؤں کے قریب تحصیل کہوٹہ میں واقع ہے، یہ چار مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ قلعہ قدرتی طور پر ایک طرف کوہ ہمالیہ کی پہاڑی اور دوسری جانب دریائے سواں ہونے کی بناء پر محفوظ مقام پر واقع ہے۔ گکھڑوں کا یہ قلعہ پندرہویں صدی میں راجپوت گکھڑ قبیلہ کے حکمران ہاتھی خان نے بنوایا تھا۔ مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے 1519ء میں اسے فتح کیا بعد ازاں سکھوں نے 1825ء میں اس پر قبضہ کر ڈالا۔ یہ قلعہ گکھڑوں کا دارالخلافہ بھی رہا ہے۔ اس قلعہ کے چھ دروازے ہیں جن کے نام لشکری، قلعہ، ہاتھی، باغ، زیارت اور بیگم دروازے ہیں۔
ہاتھی دروازہ شمال مشرق جبکہ بیگم دروازہ جنوب مغرب کی طرف کھلتا ہے جو بری طرح تباہ ہوچکا ہے ۔یہ دروازہ دریائے سواں سے نکلتے ہوئے پہلی اونچی چٹان پر واقع ہے۔ قلعہ کے مغرب میں ایک مسجدموجود ہے جس کا شمار برصغیر کی قدیم ترین مساجد میں ہوتا ہے۔مسجد کے ساتھ ایک دفتر کے آثار دکھائی دیتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں قلعہ کے لوگ نماز پڑھنے کیلئے قلعہ سے مسجد جاتے تھے اور درمیان میں جو دریا موجود ہے اس وقت شاید یہ موجود نہ تھا۔گکھڑ قبیلے کے آخری سلطان مقرب خان کا مقبرہ بھی قلعہ میں موجود ہے۔قلعہ کی عقبی دیوار شمال کی جانب برگد کا ایک بہت پرانا درخت موجود ہے جس کے نیچے چند ایک پرانی قبریں موجود ہیں ۔
مقامی افراد کے مطابق ان قبروں کے ساتھ بیٹھنے کی جگہ بنی ہوئی ہے۔تاریخ دانوں کے مطابق اس بیٹھک پر داتا گنج بخش ہجویری ،البیرونی ،سخی سبزواری بادشاہ جلوہ افرز ہوتے رہے ہیں۔ مختلف کتابوں میں اس بات کا بھی تذکرہ ملتا ہے کہ قلعہ پھروالہ میں ہر وقت گکھڑوں کی 500نفوس پر مشتمل فوج موجود رہتی تھی جبکہ 50ہاتھی اور100گھوڑے دفاعی ضروریات کے پیش نظر ہر وقت قلعہ میں موجود رہتے تھے۔

Facebook Comments

راجہ محمد احسان
ہم ساده لوح زنده دل جذباتی سے انسان ہیں پیار کرتے ہیں آدمیت اور خدا کی خدائی سے،چھیڑتے ہیں نہ چھوڑتے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply