• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گلگت بلتستان میں اخبارات کی منڈی اورخطے کا قومی بیانیہ۔۔۔۔شیر علی انجم

گلگت بلتستان میں اخبارات کی منڈی اورخطے کا قومی بیانیہ۔۔۔۔شیر علی انجم

آج کے اس دور میں اگر میڈیا کی بات کریں تو کہا یہ جاتا ہے کہ کسی بھی ملک یا خطے کی  معیشت کی بہتری اورقومی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کیلئے سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ میڈیا کا آزاد ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اس وقت دنیا میں میڈیا چاہے  ,پرنٹ ہو یا الیکٹرانک یا سوشل ,کہا یہ جاتا ہے کہ یہ ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ جس خطے کے پاس میڈیا جتنا آزاد اور طاقتور ہوگا وہ ممالک یا خطے اتنے ہی مضبوط ہو ں گے۔ لیکن نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر مملکت پاکستان   میڈیا کی طرف ایک نظر دوڑائیں تو سوائے مایوسی ،سیاسی جھگڑے فساد اور مذہبی منافرت کے  پرچار، ریٹنگ کی جنگ کے ساتھ مالی مفادات کیلئے ریاستی معاملات کی سودا بازی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔قومی میڈیا کا مسئلہ چونکہ بہت زیادہ وسیع ہے جس پر بڑے اچھے لکھنے اور بولنے والے بھی ان کے مقابلے میں سوشل میڈیا پر نظر آتے ہیں۔ میرا مقدمہ ہمیشہ سے گلگت بلتستان ہی ہے اور رہے گا۔ کیونکہ میں ایک ایسے خطےکاباشندہ ہوں جہاں نظام زندگی کی تعریف آج بھی مجھے مشکل لگتی  ہے ،کیونکہ میرا تعلق اُس قبیلے سے ہے جو تاریخی اعتبار سے صدیوں سے وسیع جعرافیہ اور ثقافت رکھتا  ہے ، مجھے خوشی ہے کہ میں سندھ، پنجاب اور کشمیر سے بھی قدیم تاریخ کا مالک ہوں ۔لیکن آج میری کوئی قانونی شناخت نہیں ۔یقیناًاس کی ایک بنیادی وجہ بھی میڈیا سے ہی مربوط ہیں ۔لہذا آج کی اس تحریر میں گلگت بلتستان میں پرنٹ میڈیا کی زبوں حالی پر گزشتہ سے پیوستہ چند باتیں دل سے کروں گا۔

محترم قارئین !مختصرتمہید کے بعد ، موضوع کی طرف چلتے ہوئے سب سے پہلے یہی کہوں گا کہ میں ایک ایسی  قوم کا فرد ہوں جو بے مقصد تعریف کے بخار میں مبتلا ہے، اور یہ بیماری اب لاعلاج ہوچکی ہے ۔تنازعہ کشمیر سے منسلک متنازعہ گلگت بلتستان جسے ایک سیاسی نعرے کے تحت ماتھے کا جھومر کہا جاتا ہے۔ لیکن درحقیقت اس خطے میں رہنے والے بیس سے بائیس لاکھ عوام جنہیں مردم شماری میں کم کرکے پندرہ لاکھ کے لگ بھگ دکھایا ہے، کی حیثیت طوائف کے  اُس گھنگرو کی بھی نہیں جسے پہن کروہ رقص کرتی ہے۔یہاں جس طرح نظام زندگی کے حوالے سے دیگر مسائل کا پرسان حال نہیں بالکل اسی طرح پرنٹ میڈیا کے نام پر ایک درجن سے زیادہ افراد نے اخبارات کے نام پر دکانیں کھول رکھی ہیں ، جسے اگر سڑی ہوئی خبروں کو مسالہ لگا کر فریش کرنے کی فیکٹری کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔کیونکہ ان اخبارات میں علاقے کے سُلگتے مسائل اور قومی شناخت کے حوالے سے کوئی خبر لگنا تو بہت دور کی بات ہے بلکہ قومی ایشوز پر لکھنے والوں کو بھی دیوار سے لگا کر ملکی اخبارات کے باسی مضامین چار صفحات کی خانہ پوری کیلئے لگا کر حق صحافت ادا کر رہے ہوتے ہیں۔

عجیب بات یہ بھی ہے کہ ان دکانوں کو زندہ رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے، یہی وجہ ہے کہ اشتہارات کے نام پر لاکھوں روپے ان افراد کو دیے جاتے ہیں ، حالانکہ اسی معاشرے میں مریض دوا نہ ملنے کےسبب ، بروقت ایمبولنس کی سہولت میسرنہ ہونے کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے  ہیں  اسی طرح بہت سے گاوں دیہات آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ایسے ہیں ، جہاں بنیادی تعلیم اور دیگر لوازمات ایک خواب سے   کم نہیں۔ دیکھا جائے تو صحافت ایک مقدس پیشے کا نام ہے جسے اگر دیانتداری کے ساتھ استعمال کریں تو قوموں کی قسمت بدل جاتی ہے ،معاشرہ احترام کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے لیکن صحافت کے اس مقدس پیشے کی آڑ میں کوئی کاروبار کرے تو اسے صحافتی طوائف کہتے ہیں، جسے گلگت بلتستان کی اصطلاح میں جیب بابا کہا جاتا ہے۔ یہاں ایک اور بات بھی واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ گلگت بلتستان میں اچھے صحافیوں اور لکھاریوں کی کوئی کمی نہیں جو اپنے تئیں قومی ایشوز پر جہاں بھی موقع ملے لکھنے بولنے میں کسی بھی قسم کی  جھجک محسوس نہیں کرتے۔مگر افسوس کی بات ہے کہ گلگت بلتستان میں اخبار مالکان سے لیکر صحافی اور مختلف پریس کلب کے صدور تک بھی سرکاری نوکری کرتے ہیں۔ اس حوالے سے چند ماہ پہلے محکمہ اطلاعات نے ایکشن لینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن تاحال اس حوالے سے کوئی اپڈیٹ نہیں۔اس وقت چند گنتی کے روپورٹرز ایسے بھی ہیں جو صحافتی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے خبر بناتے ہیں لیکن اُنکا بھی یہی شکوہ ہے کہ اکثر موقعوں پر مالکان ایسی خبروں کی اشاعت پر مصلحت پسندانہ رویہ اپناتے ہیں ، جو حکومت وقت، مسلط بیوروکریسی کے خلاف جاتا ہو۔

گزشتہ ہفتے راقم  نے  عوامی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین مولانا سلطان رئیس سے بھی خطے کے  پرنٹ میڈیا کے حوالے سے سوال کیا تو اُنکا بھی یہی کہنا تھا کہ مقامی اخبارات کسی بھی طرح حقیقی معنوں میں قوم کی ترجمانی نہیں کررہے  بلکہ مالکان کےمالی مفادات کے گرد صحافت   چکر لگا رہی  ہوتی  ہے، جس سے قوم کو بہت زیادہ نقصان ہورہا ہے کیونکہ اس وقت نئی نسل تک حقائق کی آگہی نہایت ہی ضروری ہے جو کہ بدقسمتی سے نہیں ہورہا ہے۔اس سے بھی بڑا المیہ ہے کہ جیسے ہم نے مختلف احتجاجی مظاہروں میں اپوزیشن نے رہنماؤں سمیت سیاسی سماجی اور مذہبی رہنماؤں کو مسلسل یہی کہتے سُنتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں اصل حکمرانی بیورکریسی کی ہے اور یقیناًمقامی اخبار مالکان اس بات کا ادارک رکھتے ہوں گے کہ بیورو کریسی کبھی نہیں چاہتی کہ مقامی اخبارات قوانین کے غلط استعمال پرخبریں لگائیں،سی پیک میں جس طرح گلگت بلتستان کو اپنے ہی لوگوں کے ذریعے مامو ں بنایا اس پر کوئی رپورٹ شائع ہو،کوئی سرکاری اداروں میں کرپشن اور اقرباء پروری پر لب کشائی کرے ،فورتھ شیڈول کی غیر منصفانہ نفاذ پر کوئی میڈیا تحریک چلائیں اس حوالے سے حقائق عوام کے سامنے لائیں۔

گلگت بلتستان کے ایک اہم سیاسی رہنما انجینئر شجاعت علی خان نے گلگت بلتستان کے مشہور معروف واٹس ایپ گروپ (جی بی تھنکرز فورم) میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ حفیظ الرحمن کی ٹیم کے اہم ذمہ داران کا کہنا ہے گلگت بلتستان میں حالیہ فورتھ شیڈول کے  نفاذ میں مسلم لیگ نون کی حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ یہ مختلف ایجنسیوں کی جانب سے لگایا گیا ہے۔ جب کہ عوامی سطح پر یہ خدشہ کیا جارہا ہے کہ فورتھ شیڈول کیلئے تازہ لسٹ کی تیاری میں مشیر وزیراعلیٰ سمش میر ،وزیر قانون اور ایک اہم سرکاری ملازم کا ہاتھ ہے۔ لیکن گلگت بلتستان میں اس طرح کے اہم مسائل پر انسٹگیٹو جرنلزم کا رواج ہی نہیں۔اس وقت المیہ یہ ہے کہ ایک طرف خطے کی ستر سالہ محرومیاں جو معاشرے میں لاوا بنتی جارہی ہیں مگر محرمیوں کے  ازالے کیلئے میڈیا کی جانب سے ایک مثبت کردار ادا کرنے کے بجائے یہاں جو نظریات مقامی اور غیر مقامی مفاد پرست مولوی حضرات کے ذریعے تقسیم کیا ہوا ہے ،جو مذہب اور مسلک کی بنیاد پر حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پرنٹ میڈیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جوذاتی مفاد کیلئے قومی تشخص اور اس خطے کی تاریخ کے حوالے سے بھی من گھرٹ کہانیاں تاریخ کا حصہ بنا کر نئی نسل کے ذہن خراب کرنے پر کمر بستہ ہیں۔

افسوس اس بات ہے کہ اس قسم کی ہزاروں مثالیں ہیں جو اس وقت گلگت بلتستان کے پرنٹ میڈیاکیلئے نان ایشو ہے لیکن اللہ بھلا کرے کہ جب سے سوشل میڈیا وجود میں آیا ہے، بلاگز نے کام کرنا شروع کیا ہے اُنکی حیثیت عوام اور پڑھے لکھے طبقے کی سطح پر ختم ہوتی جارہی ہے اور یہ صرف گلگت بلتستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا اب ای میڈیا بن چُکی ہے جہاں سوشل میڈیا کی وساطت سے خبر بغیر کسی اسکریننگ کے عوام تک براہ راست پہنچ جاتی ہے ۔یوں اگر گلگت بلتستان کے تناظر میں دیکھیں تو ان اخبارات کا کام حکمران طبقے کے جھوٹے اعلانات کو شہہ سرخی بنا کر سرکاری خزانے سے اشتہارات کے نام پر تنخواہ وصول کرنے سے بڑھ کر کچھ نہیں۔لہذا گلگت بلتستان کی نئی نسل کو سوچنے کی ضرورت ہے، مقامی پرنٹ میڈیا میں اپنے خطے کیلئے درد دل رکھنے والے جو صحافی ہیں اُنہیں چاہیے کہ اس نظام کے خلاف کھل کر سامنے آئیں اور اس مقدس پیشے کی حرمت کو بحال کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور اخبار ات کو مالکان کے مالی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے چلانے کی بجائے اس خطے کی صدیوں پُرانی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے تقسیم برصغیر کے بعد جو اس خطے کے ساتھ آج تک کیا جارہا ہے اسے سامنے رکھیں اور ایک نظام تشکیل دیں اور قومی حقوق کے حصول کو اپنا مشن بنائیں کیونکہ بغیر قومی شناخت کے کسی بھی ادارے کی تعریف مکمل نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے قومی امید ہے کہ آنے والے وقتوں میں کچھ فرض شناس صحافی اور تعلیم یا فتہ حضرات بھی اس مقدس پیشے کے حوالے سے عوام میں گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کیلئے اخبارات کا اجراء کرنے جارہے ہیں اور یقیناًہمارے عوام کی امیدیں صحافتی اقدار کی بحالی اور ذمہ داریوں کے حوالے سے اُن کی طرف مرکوز ہیں۔ اس وقت گلگت بلتستان میں قومی احتساب بیورو سرگرم عمل ہیں جو کہ نہایت ہی مثبت پیش رفت ہے کیونکہ گلگت بلتستان میں دہائیوں سے افسر شاہی راج رہا  ہے اور اداروں میں پراجیکٹس فائلوں میں تیار ہوکر فائلوں کے ذریعے ہڑپ کرتے رہے ہیں ۔ صرف یہ نہیں بلکہ اس وقت کئی اہم کاروباری شخصیات باقاعدہ اخبار چلاتے ہیں جس کا اصل مقصد عوام کی ترجمانی نہیں بلکہ اپنے مفادات کا  تحفظ ہے۔ ایسے میں گلگت بلتستان کا قومی بیانیہ کیا ہے؟ عوام آج تک لاعلم ہیں۔ کیونکہ اس خطے میں پرنٹ میڈیا صحافت کا نہیں بلکہ ctrl+c اور ctrl+v فارمولے کے تحت مداری کا کردار ادا کرکے مفادات حاصل کرنے میں خوش ہیں ۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply