باجی چورن اور کھسرا

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے امتحانی پرچہ کا “سوال” دیکھا تو بس دیکھا کہ کیا فضول طریقہ ہے سوال پوچھنے کا۔ مضامین پرسینلٹیی پہ ہوتے ہیں، مقصد طلبا کی علمی استعداد، خیال کی پرواز اور انکی زبان پہ گرفت کا اندازہ کرنا ہوتا ہے۔ اب “فزیک” ڈال کر سوال کو خوامخواہ متنازعہ بنا دینا تو پیپر سیٹ کرنے والے کی بیوقوفی نظر آئی۔ سچ پوچھیے تو میں نے ایک اچھے گورے دوست سے پوچھا بھی کہ
?Buddy how will you explain your sister’s physique
یقین کیجیے کہ اچھا دوست ہونے کے باوجود اس نے بری نظروں سے ہی دیکھا اور کہا بھلا یہ کس قسم کا سوال ہوا؟ چونکہ اس کے ہاتھ میں بیئر کا بڑا والا مگ تھا تو حفظ ماتقدم کے طور پر اسے فورا سوالنامہ کی فوٹو دکھا کر شانت کیا کہ قصہ کیا ہے۔ میں تو فقط دیکھنا چاہتا تھا کہ کیا مجھے میرے “تھوڑے بہت باقی پاکستانی پن” کی وجہ سے ہی سوال عجیب لگا یا پھر سوال تھا ہی عجیب۔ دس سال سے زیادہ ہو گیا دیار فرنگ میں، یقین کیجیے کہیں ایسا فضول سا سوال نظر سے نہیں گزرا۔

پھر آصف محمود بھائی کے پروگرام میں یونیورسٹی کے ڈائریکٹر صاحب، جو اعلی تعلیم یافتہ ہی ہوں گے، کا موقف سنا جو “فزیک” کا ترجمہ صحت فرما رہے تھے۔ فورا اپنی انگریزی کے پائے لرزتے محسوس ہوے تو ڈکشنری کھولی، بات نا بنی تو تین چار اور بھی کھولیں، کہیں بھی فزیک، “صحت” نا نکلی، “سراپا” ہی رہی۔ دل میں کہا “در فٹے مونہہ، انکو تو خراب انگریزی کی وجہ سے نکال دینا چاہیے” اور پھر میں بھول گیا کہ بھلا یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے۔ مگر صاحب میں یہ بھی تو بھول گیا کہ یہ ملک “بیانیوں کا ملک” ہے۔

یکایک چمن میں جیسے باجیوں، مطلب بیانیوں کی بہار آ گئی۔ کسی کی غیرت جاگی کہ اس اسلامی ملک میں باجی پہ سوال لکھنے کی جرات کیسے کی؟ اور کہیں لوگ اپنی اپنی باجی لے آئے کہ ہماری باجی لمبی ہے، میانہ قد ہے، ویسی ہے، ایسی ہے، دیکھیں ہم تو بتا سکتے ہیں۔ کسی کو یاد آیا کہ ہم تو باجی کا نام بھی ہمشیرہ فلانے خاں کا نام لے کر لیتے ہیں اور کوئی اپنے گھر کی تصاویر لگا کر بتانے لگا کہ دیکھو میری بہن تو ایسی ہے۔ کسی کو یہ لبرل کی سازش لگی تو کوئی مضمون لکھنے لگا کہ ہئے عورت مظلوم کی فزیک پہ سوال کی بھی اجازت نہیں۔ کہیں سے “غیرت برگیڈ” کی پھبتی اٹھی تو دوسری جانب نے “بے غیرت برگیڈ” کو کوسا۔ بلکہ ہمارے فاروقی صاحب نے تو اس علمی و ادبی مسلئہ پر باقاعدہ عرق ریزی کرنے کے بعد “بے غیرت پلاٹون” کی اصطلاح تجویز کی، مکمل دلائل کے ساتھ۔ نہ جانے اردو ادب اس تحقیقی کام پہ کب تک انکا ممنون رہے گا۔ باجیوں اور بیانیوں کی یہ بہار دیکھ کر دل باغ باغ ہوا جاتا تھا کہ “شنایا اور ججا بدمعاش” کی وڈیو دیکھ لی۔

کون شنایا؟ بھئی وہی ہے جسے ہمارے معاشرے میں کھسرا، ہیجڑا، اور زرا احترام دینا ہوا تو جنت کی چڑی پکار لیتے ہیں۔ جو پیدا ہوں تو دائی چپ چاپ گرو کو دے آتی ہے یا پھر کچھ ہی سال بعد معاشرے کے ذلت آمیز سلوک کی وجہ سے یہ خود گُرو کے ڈیرے پہنچ جاتے ہیں۔ سیالکوٹ جیسے ماڈرن شہر کے نواح میں ایک بدمعاش نے بھتہ نا دینے پر اسی شنایا کو الٹا لٹا کر بیلٹوں سے مارا، اسکے سر پہ اپنا پیر رکھ کر اسے درس دیا کہ سرِ تسلیم خم کیسے رکھتے ہیں۔ اس “کھسرے” کی چیخوں میں ہر بیانیہ وہیں جاتا دکھائی دیا جہاں سے نکلتا ہے۔ یہ ہمارے عام عوام ہیں جو آپکے لبرل یا اسلامسٹ بیانیوں سے ناواقف ایک مجبور زندگی جیتے ہیں۔ نا ان مظلوموں اور نا ان پہ ظلم کرنے والوں کو اس سے غرض ہے، نا فرق پڑے گا کہ باجی پہ سوال اسلامی معاشرے کیلیے خطرہ ہے یا لبرل معاشرے کیلیے ضروری۔ اپنے اپنے “فکری اور معاشی ڈونرز” کو بتائیے کہ جو بیانیہ عوام کیلیے، عوام کی روز مزہ زندگی سے منسلک نہیں ہوتا، عوام اس کے ساتھ وہی کرتی ہے جو ججا بدمعاش شنایا کے ساتھ کر رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مگر ہر نان ایشو کو اپنے “بیانیے” کے ثبوت کیلیے بطور چورن بیچتے ہوے لوگ بھول جاتے ہیں کہ اس ملک کے اصل مسائل ہیں کیا۔ سو آپ باجی چورن بیچیں؛ شنایا اور اسکی ٹولی الٹی لیٹی رہے گی، کبھی ہوس کے نیچے تو کبھی ظلم کے نیچے۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”باجی چورن اور کھسرا

  1. کامریڈ! پہلی دفعہ سوال دیکھنے پر عجیب سا محسوس ہوا کہ کیا واہیات ہے, لیکن پھر یاد آیا کہ فاصلاتی تعلیم اور وہاں کے اساتذہ کا معیار ہی ایسا ہوتا ہے جیسا سستے ہوسٹلوں کا. آپ انکی ساکھ نہیں گرا سکتے کہ گرے ہوئے کو کیا گرایا جائے. آپ نے گورے دوست کی بات کر کے انکی پیٹھ پہ لات ماری ہے کہ ہر چیز کو تم اپنے دو ٹکے کہ بیانیے میں نہیں تول سکتے.مغرب میں آپ بھی مقیم ہیں, ثاقب بھی رہا اور عمیر فاروق بھی ہے لیکن آپکی سوچ متوازن ہے کہ آپ لوگ حالات و واقعات سے آگاہ ہو.
    ان شور مچانے والوں کی بابت مثل ہے کہ ” نہ توں بھیڈے بار نکلیوں نہ تینوں کتیاں پاڑیا”

  2. ھم نے ہیجڑوں کی فلاح اور روزی روٹی کے لئے کونسا ادارہ بنایا ھے ؟ آپ کے یہاں تو دارالامان بھی امان میں آئی ھوئی لڑکیاں باھر سپلائی کر کے کمائی کرتے ھیں ، یعنی ہیجڑے بھی اگر دارلامان میں داخل کرا دیئے جائیں تو وہ صرف روٹی پر جسم بیچیں گے جو ان کو دارامان فراھم کرے گا اور ان کو 1000 پندرہ سو پر رات بھر بیچ دے گا ، ججے بدمعاش پر تو حد کا نفاذ ھونا چاھئے

  3. عمدہ لکھا ۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ انعام رانا اب ماشااللہ ہر تحریر ہی ایسی اچھی تخلیق کر رہے ہیں کہ تعریف ایک رسمی کارروائی لگتی ہے۔ جیسے ایک زمانے میں جہانگیر خان اور پھر جان شیر خان سکو ائش کا ایک سے ایک ٹورنامنٹ یوں آسانی سےجیت لیتے کہ اخبار میں سپورٹس نیوز کے انچارج بھی عق نک ہوگئے تھے۔(سرائیکی محاورہ ہے،اردو کا بیزار سمجھ لیں) ۔ خیر ایک اور عمدہ تحریر کی مبارک قبول فرمائیں۔

Leave a Reply