میں کون ہوں اے ہم نفسو/سرگزشت

جناب”احمد اقبال” صاحب کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ،مکالمہ آج سے ان کی زیرِ طبع سرگزشت کی ہفتہ وار اشاعت کا سلسلہ شروع کر رہا ہے۔قارئین کی دلچسپی کے لیئے احمد اقبا ل صاحب کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔
آپ کا اصل نام اقبال احمد خاں ہے۔ جائے پیدائش 25 مارچ 1937 اجمیر ہے۔ابتدائی تعلیم راوالپنڈی سے حاصل کی، گریجوایشن ایڈورڈز کالج پشاور ایم اے معاشیات کراچی سے مکمل کیا ۔ 1965 میں لاہور میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے، کچھ عرصہ معلم رہے،عرصہ 50 سال سے سنجیدہ و مزاحیہ شاعری،کہانی ،ناول لکھ رہے ہیں ،اور گزشتہ دس سال سے اسلام آباد میں مقیم ہیں ۔

“میں کون ہوں اے ہم نفسو”۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی زیر ترتیب سرگزشت حیات کا ممکنہ عنوان ہے۔
اس داستان کا باب اول
——————
“ملزم احمد اقبال حاضر ہو”۔۔

یہ کراچی کے گارڈن روڈ والے سرکاری کوارٹرز میں جولائی کی ایک شدید گرم اور حبس زدہ دوپہر تھی۔ ۔سرکار والا تبار نے قیام پاکستان کے بعدہجرت کرکے آنے والے افسران کوہنگامی ضرورت کے تحت قیام کی سہولت فراہم کرنے کےلیئے یہ ریت کے بلاک کی دیواروں اور ٹین کی مخروطی چھت والے “بنگلے” کھڑے کردئیے تھے جو 28 سال بعد عدم توجہی کے باعث مہاجر کیمپ جیسی زبوں حالی سے دوچارتھے لیکن اس جھگی نشینوں کی اکثریت والے شہر میں اپنی کشادگی سے اب بھی افسری کا بھرم رکھے ہوئے تھے۔کھانے کے بعد سنت پوری کرنے کیلئے میں حسب عادت قیلولہ میں مصروف تھا۔یاد تو نہیں لیکن دور کچھ ایسے خواب دیکھنے کا تھا کہ میں تالیوں سے گونجتے ہال کے اسٹیج پر ادب کا نوبل پرائز وصول کر رہا ہوں، اور پہلی صف میں بیٹھے میرےبوڑھے بیمار کلرک باپ کی آنکھوں سے خوشی کے آنسواس کے رخساروں پر بہہ رہے ہیں کہ ادبی رسالوں میں شائع ہونے والی اس کی اردو فارسی شاعری نے اسے تو نہ عزت و شہرت دی نہ دولت لیکن اس کے ڈائجسٹوں میں کہانیاں لکھنے والے بیٹے کو سب دے دیا کہ اچانک دھڑدھڑآنے جانے والے دروازے کی ہولناک صدا پرہڑبڑاکے اٹھا۔۔یا رحیم و کریم۔۔اس وقت کون دروازے توڑنے آگیا اور کیوں ۔۔اپنی تو اوقات ڈاکوؤں کو بھی پتا ہے کہ قسطوں والی موٹر سائیکل پر پہلی تاریخ کو اینڈتا آتا ہے تب بھی جیب میں ڈھائی سوروپلی پوری نہیں ہوتی۔۔دروازہ پھر یوں فریاد کناں ہواکہ میں نے چلا کے کہا”آرہا ہوں آرہا ہوں بھائی” اور دوڑا کہ اس مضروب دروازے کوبے وقت سجدہ ریز ہونے سے بچالوں۔۔۔

دروازے پر چھ فٹ طول اور اس سے زیادہ محیط والے پیٹ کے ساتھ اپنی انتہائی بلندی پرشاید ایک فٹ کی مونچھیں واجبی سی ناک کے دونوں طرف پھیلائے کوئی اجنبی صلیب کی طرح ایستادہ تھا اور اس کے تیور بھی مجھے مصلوب کرنے والے ہی لگتے تھے۔میرے حلق سے نکلنے والی خوف سے گھٹی سلام کی آواز کے جواب میں اس کے “وعلیکم السلام” پر مجھے بے اختیار ہنسی آتے آتے رہ گئی۔۔کیونکہ اس کے تن و توش اور جسامت کے ساتھ یہ آواز ایسی تھی جیسے بھینس ڈکرائے تو وہ صدا نکلے جومرغی سے انڈا برآمد ہوتے وقت نکلتی ہے ۔۔تاہم میں نے خود کو روک لیا
“غلام فاروق۔۔ انسپکٹر ایف آئی اے”۔۔ اس نے ایک فائل پر نظرڈال کے کہا” ملزم۔۔۔اقبال احمد خان عرف احمد اقبال کون ہے”؟
ڈھیلی پتلون کو گیلی ہونے سے بچاتے ہوئےمیں نے کانپتی لکنت زدہ آواز میں کہا” جی۔۔جی۔۔جی۔۔ م۔۔می۔۔میں ۔۔ آپ اندر آئیں ،اور دل ہی دل میں خدا کی مصلحت کا اعتراف کیا کہ اس نے”حضرات ایک ضروری اعلان سنیئے والے لاؤڈ اسپیکر جیسی آوازکے کسی تھانیدار کو تفتیش کے لیے نہیں بھیجا ورنہ درون خانہ میرے دل کے مریض والد میرے جرائم کی تفتیش کا آنکھوں دیکھا حال وہیں لیٹے لیٹے سن لیتے جب تھانیدار نے پنکھے کے نیچے صوفے پر بیٹھ کے کیپ اتاری اور اندر سے اس کا ہاف بوائلڈ انڈے جیسا سربر آمد ہوا تو اس نے کہا”پلیزٹھنڈا پانی پلائیے پہلے” آخری لفظ کا مطلب واضح تھا کہ بعد میں تفتیش تو ہوگی ۔۔۔
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے

اس نے کچھ زیر مونچھ مسکرانے کی کوشش کی ہوگی کہ دانتوں کی چمک سیاہ بادلوں میں بجلی کی طرح جھلک دکھا کےغائب ہو گئی ۔دل کو کچھ تقویت حاصل ہوئی تو اندر جا کر بھرائی آواز میں شریک حیات سے کہا کہ” شاید تفتیش کے لیے مجھے تھانے جانا پڑے جیسے کہ سب بے گناہ جاتے ہیں”
اوراب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں۔۔
لیکن حوصلہ رکھو،چیخ مارنے اور بیہوش ہونے کے سین کی تو بالکل گنجائش نہیں۔حضرت عزرائیل کے نمائندے کو اپنے ہاتھوں کی شباب آور چائے اور کباب وغیرہ کھلاؤ پلاؤ تو شاید ٹل جائے( پھر تمہیں لے جائے تو اللہ کو جو منطور۔۔شعر وہی اپلائی ہوگا )
قصہ مختصر۔۔دماغ ٹھندا ہوتے ہی انسپکٹر بھی انسان بن گیا اورباقاعدہ مسکرانے لگا” یہ یوسف الزماں صدیقی کون ہے؟”اس نے فائل کھول کے پوچھا۔۔اس کا لہجہ بھی کچھ دوستانہ سا لگا
حیران یا پریشان ہونے کی گنجائش نہ تھی کہ یہ تبدیلی کیوں؟ بیوی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں۔۔یہاں اس حرام شے کا لغوی مطلب پینے کی چیز لیا جائے۔ عرض کی۔۔۔ ہمارے سابق وزیر خزانہ شعیب صدیقی کے پی اے تھے۔۔اب میرے باس ہیں۔
وہ خوشخبری کے اندازمیں بولا”انہوں نے اپ کے خلاف دھوکا دہی ،جعلسازی اور فراڈ کا کیس لکھوایا ہے ،زیر دفعہ چار سو بیس”
میری آواز دم نزع کی طرح نکلی” اچھا؟۔۔ کتنے لاکھ کا؟
ان کے اکاونٹ سے رقم نکلوائی ہے یا ان کی روڈ رولر سی منکوحہ سے عقد مکرر۔۔۔ مگر 420؟
وہ سر ہلا کے ہنسا جو بڑا مفرح قلب تجربہ تھا۔۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آپ کا اصل نام ہے” اقبال احمدخان”۔۔لیکن آپ چار سال سے دفتر کے باہر احمد اقبال بنے ہوئے ہیں اور اس نام سے لاکھوں کما چکے ہیں۔۔
میں دم بخود بیٹھا رہا۔۔۔ کیسے؟ میں تو کہانیاں لکھتا ہوں اس نام سے۔۔ یہ فراڈ کیسے ہوا۔۔اور جناب ۔۔خدا کو حاضر ناظر جان کے کہتا ہوں۔۔آپ کہیں تو اندر جاکے حلف اٹھانےکے لیے قرآن بھی لے آؤں ۔۔ وہ عدالتوں والا جزدان میں لپٹی ڈکشنری نہیں۔۔ اصلی جو ابا روز پڑھتے ہیں ۔۔ایک حاجی کا تحفہ۔۔کہ مجھے کہانی کا معاوضہ اب تیس روپے صفحہ ملتا ہے۔۔ آپ رئیس امروہوی سے پوچھ لیں ۔۔آپ جون ایلیا سے معلوم کرلیں۔ہررسالہ تین ہزار تین سوتینتیس کا نہیں ۔۔ 256 صفحات کا ہوتا ہے۔۔دکھاؤں؟
وہ ہنسنے لگا۔۔اصلی انسانوں والی ہنسی جو خوشدلی کی مظہر تھی۔۔۔دیکھا تو ہے بہت مگر پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا کبھی۔۔یہ جون ایلیا کیا ہے؟
اب میں پرسکون ہو چکا تھا اورمطمئن تھا کہ تھانیدار کو قائل کرلوں تو شاید پھانسی سے بچ جاؤں۔ میں نے جون ایلیا کا اصل نام بتا کے کہا” اب یہ شاعر۔۔امروہہ کے خالص سید۔۔۔۔۔ کیا یہ بھی فراڈ کرتے ہیں۔۔ جیسے یہ ان کا تخلص ہے۔۔ایسے ہی یہ میرا نام ہے”۔۔
تھانیدار نے سر جھکا کر اور کھجا کے شرمندگی سے کہا” معاف کرنا جی ہم ان پڑھ لوگ ، دن رات چوروں،بدمعاشوں اورقاتلوں سے واسطہ رہتا ہے مگرآپ جیسے لکھنے پڑھنے والوں کی عزت بہت کرتے ہیں۔۔آپ سمجھا دو”
اب میرا حوصلہ بحال ہوگیا تھا، میں نے کہا”ابن انشا “کو تو جانتے ہوں گے۔۔ایسا مزاحیہ کالم لکھتے ہیں اخبار میں کہ ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ جائیں ”
وہ یوں ہنسا کہ اس کا عظیم پیٹ کسی بیلی ڈانس کرنے والی مصری رقاصہ کے پیٹ کی طرح تھرتھرانے لگا، ہاں جی۔۔وہ میرا منشی سناتا ہے،
ان کا اصل نام ہے شیر محمد ۔۔۔کیا وہ بھی فراڈ ہے۔۔جیسے یہ اس کا قلمی نام ہے ایسے ہی میرا بھی قلمی نام ہے ۔۔
“یہ قلمی آم تو ہوتے ہیں جیسے اپنا سندھڑی”۔۔۔وہ سوچ میں پڑ گیا”بندے کب سے ہونے لگے”
میں نے ہنس کے کہا” اچھا یہ بتاؤ۔ ۔۔میراجی کون ہے۔۔ہندو یا مسلمان۔۔ مرد یا عورت ۔۔؟ اور اسے پلیٹ کا چوتھا اور آخری کباب حلق سے اتارتے دیکھتا رہا،
یاراس کی کسی فلم کا نام بتاؤ۔۔۔وہ کچھ بے تکلف ہوا۔۔۔
میں نے ایک گہری ٹھنڈی سانس لی مگر اس سوال نے میرےلیے جواب کو آسان بنادیا،یہ ایک شاعر تھا ثنااللہ خان نام کا ۔۔۔ مگرتم دلیپ کمار کو تو جانتے ہو نا۔۔ اس کا اصل نام کیا ہے اور اپنے سنتوش کمار۔۔۔
لو جی یہ کون نہیں جانتا کہ ایک ہے یوسف خان اور دوسرا موسیٰ رضا۔۔ وہ بڑے جوش سے بولا،
بس تو ایسے ہی تخلص ہوتا ہے اور قلمی نام۔۔۔جس سے شاعریا ادیب کی شناخت بنتی ہے،
انسپکٹر نے فائل بند کرکے ہاتھ ملایا”بری خوشی ہوئی جی آپ سے مل کے۔۔اب یہ بتا دو کہ کیا معاملہ ذاتی دشمنی کا ہے۔۔ ورنہ تو محکمے کو فخر کرنا چاہیے۔۔
میں نے سکون کا سانس لیا اورمیرے کانوں میں ایک بیوہ کے بین کے ساتھ تین یتیم بچوں کی کورس میں گانے کی اواز آنی بند ہو گئی۔۔۔
یتیموں کی فریاد سن لیجئے ۔۔میں نے اسے ساری کہانی سنادی۔۔وہ جاتے وقت میرے والد سے بھی بڑی عقیدت کے ساتھ مصافحہ کرکے گیا۔۔ اپنی رپورٹ میں اس نے باس کا بینڈ بجا دیا کہ یہ افسر اپنی ذاتی رنجش میں ہمارا وقت برباد کرتے ہیں۔۔۔ مختصراً بتانے میں حرج نہیں کی یہ رنجش کیا تھی۔۔
موصوف نے مجھ سے ایک اسٹیج ڈرامہ لکھوایا جو اچھا خاصا کامیاب گیا لیکن مجھے کچھ نہ ملا۔کامیابی سے زیادہ افسری کے نشے میں وہ دوسرا ڈرامہ لکھوانے آئے تو میں نے پہلے کا معاوضہ مانگا۔۔ وہ کسی اور کے پاس چلےگئے ۔ بد قسمتی سے وہ ایسا ناکام ہوا کہ اخراجات تک پلے سے گئے اور”غصہ بر عضو ضعیف”۔۔ زد میں خواہ مخواہ یہ ماتحت آگیا ۔۔

لیکن مجھے بھی کیا کسی حکیم نے نسخے میں لکھ کر دیا تھا کہ یہ”فراڈ ” ضرور کرو یا کسی پیرکامل نے کہا تھا کہ نام بدلنے سے تقدیربدل جائے گی؟۔۔۔شاعر بھی مجبورنہیں ہوتا کہ روایت ہے تو نام میں تخلص کا پھندنا ضرور ٹانکے۔میری مجبوری یکسر مختلف تھی۔۔ یہ بات ہے 1970 کی جب جیکب لائن کوارٹرز میں میرے ہمسائے مشہور افسانہ نگار ڈاکٹر مشرف احمد مرحوم نے کہا ؟ برادر کہانیاں لکھ سکتے ہو تو لکھتے کیوں نہیں؟
میں نے کہا ، ڈاکٹرصاحب 13 سال پہلے تک میں نے ریڈیوکےلیے بہت لکھا لیکن تب میں طالب علم تھا اور جو بھی تھوڑا بہت معاوضہ ملتا تھا وہ جیب خرچ کے طور پر بہت لگتا تھا لیکن اب میری ایک فیملی ہے اس سے دو وقت کی روکھی سوکھی بھی نہیں چل سکتی پارٹ ٹائم وہیں بندرروڈ پر ریڈیو اسٹیشن کے سامنے فیملی کو کٹورا رکھ کر بیٹھنا پڑے گا۔۔۔۔جب کہانیاں لکھنےکے پیسے نہیں ملتے تو پھر میں یہ بیگار کیوں کروں۔۔ادیبوں کا حال زار مجھے معلوم ہے،
ڈاکٹرمشرف نے کہا۔۔۔ برادر یہ ڈائجسٹ والے دیتے ہیں،تم”سب رنگ”کے لیے لکھو۔وہ مجھے شکیل عادل زادہ کے پاس لے گئے، روزنامہ “جنگ” سے آگے پریس چیمبرمیں وہ اس وقت بھی تھرڈ فلور کے اپنے کمرے میں دونوں پیرگھٹنوں سے سمیٹے سفید شلوار قمیص میں صوفے پر براجمان تھے،سگرٹ ان کے بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں اور”بابا” قوام والی گلوری ان کے منہ میں تھی ایک گھٹنے پرگتے میں لگا کاغذ تھا اور دائیں ہاتھ میں قلم ۔ ۔نصف صدی ہونے کو آئی ۔ شکیل عادل زادہ کو جس نے دیکھا اسی انداز میں دیکھا۔دوست اور بڑے بھائی کی طرح ایسے ملے جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔چائے منگوائی ا ور میری بات سن کر بولے۔۔۔میاں تم لکھو۔ہم بیگار نہیں لیتے، لکھنے والوں سے۔۔کچھ نہ کچھ ضرور دیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یوں 1971 میں میری پہلی کہانی “اقبال احمد خاں” کے نام سے”سب رنگ”میں شائع ہوئی۔۔نہ مہینہ یاد ہے نہ کہانی کا نام اور نہ معاوضے کی رقم، تین یا چار کہانیاں تواتر سے ہر ماہ آئیں ۔ یہ قصہ ہے جب کا کہ سب رنگ کا تازہ شمارہ مقررہ تاریخ پر ہر ماہ پاکستان بھر میں دستیاب ہوا کرتا تھا۔یہ سلسلہ یونہی چلتا تو نام بھی ہوتا لیکن خرابی نام نے کی۔۔میرے ایک ہم نام روزنامہ جنگ کے رپورٹر فلمی صحافت میں بہت نامور تھے،پڑھنے والوں نے ان سے پوچھنا شروع کیا کہ یہ کہانیاں لکھنے کا شوق کب سے ہوا اور مجھ سے فلمی دنیا کی کسی خبرکی تصدیق مانگی تو ہم دونو ں کو وضاحت کی مشکل ہوئی ۔۔ میں نے شکیل بھائی سے کہا تو وہ چٹکی بجا کے سگریٹ کی راکھ جھاڑ کر بولے” میاں تم کچھ اور نام رکھ لو”
میں بھونچکا رہ گیا۔۔۔ شکیل بھائی،یہ نام تو دادا نے رکھا تھا پاکستان بننے سے دس برس پہلے۔۔ سرکاری ریکارڈ اور تمام اسناد میں لکھا ہوا ہے۔وہ ہنسے،یار کوئی قلمی نام اختیار کرلو۔۔مثلاً؟۔۔۔ مثلاً احمد اقبال کیسا ہے۔۔؟
پاس بیٹھے نامور شاعر اور ان کے دست راست انور شعور نے پھڑک کے داد دی،بھئی سبحان اللہ،کیا شعریت ہے اس نام میں۔۔مبارک میاں احمد اقبال اپنا نیا جنم مبارک۔
ایمانداری کی بات ہے کہ میرے کانوں کو بھی اچھا لگا ۔۔ خان کے لاحقے سے جو نسواریت ٹپکتی محسوس ہوتی تھی وہ قلمی نام میں نہ تھی۔۔۔میں احمد اقبال ہوگیا اور اب تو کبھی کبھی خود کو بھی یاد دلانا پڑتا ہے کہ میں سرکار کےلیے احمد اقبال نہیں ہوں۔خصوصاً ٹرین یا جہاز میں سیٹ بک کراتے وقت جب شناختی کارڈ کے بغیر ثابت ہی نہیں ہوتا کہ میں 25 مارچ 1937 کو دنیا میں آنے والا اقبال احمد خان ہوں۔۔۔۔ پس ثابت یہ ہوا کہ اگر مجھے جعلی نام والا دھوکے باز وغیرہ بنایا تو شکیل عادل زادہ نے۔۔میں نے ایسا اپنی رضا سے نہیں کیا۔اب بھی وقت ہے کہ ایف آئی اے والے ان کو پکڑ لیں۔
بر سبیل تذکرہ۔۔جنگ کے صحافی اقبال احمد خاں کو جنرل ضیا الحق کی پریس کانفرنس کے دوران دل کا ایسا شدید دورہ پڑا کہ وہ جانبر نہ ہو سکے۔۔یہ اس وقت صحافت کی دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ان کی اہلیہ کشور اقبال بعد میں شاید “صبح نو”کے نام سے ایک میگزین نکالتی رہیں ۔۔اب کی کچھ خبر نہیں کہاں ہیں۔۔۔ ۔ قلمی نام کیس ختم ہونے کی کوئی تصدیق سرکاری ذرائع سے نہیں ہوئی تھی کہ ایک شام وہی انسپکٹر پھر نمودار ہوا۔میں کسی کام سے باہر نکلا اور عین اسی وقت انسپکٹر نے اپنی موٹرسائیکل مجھ سے ڈیڑھ انچ کے فاصلے پر روکی۔ ایک لمحہ کے لیے دنیا پھر نظرمیں اندھیر ہوگئی،یقین آیا کہ پہلی مرتبہ تفتیش کے لیے آیا تھا تو خواہ مخواہ کی طفل تسلی دے گیا تھا کہ اب کوئی فکر کی بات نہیں رہی لیکن یہ پولیس والے خود سےبھی سچ نہیں بولتے۔مقصد ہوگا کہ ملزم فرار نہ ہو آج وارنٹ کے ساتھ آیا ہوگا اور پیچھے آتے ہوں گے اٹھانے والے۔۔۔لیکن اس نے بڑے دوستانہ انداز میں ہاتھ ملایا اورپوچھا “سر۔۔کیسے ہیں آپ” تو کانوں پر یقین نہ آیا۔۔
میں نے پر منافقت اعتماد کا مظاہرہ کیا۔۔نام کاہی سہی لیکن ہوں تو یوسف زئی پٹھان۔۔مسکراکے کہا۔۔۔میں ڈرائنگ روم کھولتا ہوں۔۔
اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روک دیا۔۔میں جلدی میں ہوں سر۔۔یہ بتانے آیا تھا کہ ہمارے ایک ڈائریکٹر صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔۔کل اتوار ہے۔۔وہ کس وقت آجائیں ؟
مجھے پھر سماعت پر شبہ ہوا،یامیرے خدا۔۔۔ڈائریکٹر ایف آئی اے خود مجھ سے ملنے آرہا ہے؟ قرب قیامت کی نشانیوں میں یہ بھی ہوگی۔۔
وہ۔۔ وہ کسی وقت بھی آسکتے ہیں۔۔ میں نے جواب کےمنتظر انسپکٹر کو متانت سے جواب دیا
پھر وہ صبح دس بجے آئیں گے۔ اس نے فیصلہ کن انداز میں کہا اور موٹر سائیکل کو کک لگا یہ جا ،وہ جا ۔۔ اب اگلے دن تک کا وقت کیسے گذرا اس کی تفصیل میں جانے سے کیا۔۔ ٹھیک دس بجے اندر کا اضطراب مجھے باہر لے گیا تو ڈائریکٹر صاحب کا شوفر ان کی کار کا دروازہ کھول رہا تھا۔ لگ بھگ چالیس سال عمر کے ایک خوش پوش، خوش شکل اور خوش مزاج شخص نے مسکراتے ہوئے مجھ سے مصافحہ کیا۔ میں تمام مہلک اندیشوں کے باوجود اسے اندر لے گیا۔وقت آ جائے تو فرشتہ اجل کو بھی مہماں بنانا پڑتا ہے۔
قمرالاسلام ہے میرا نام۔۔ احمد اقبال صاحب ،میرا ایک غائبانہ سا تعلق ہے آپ کے ساتھ۔۔ اس نے اطمینان سے بیٹھنے کے بعد کہا۔آپ کے سارے ناول میں نے پڑھے ہیں۔
مجھے فطری طور ہر حیرت سے زیادہ خوشی ہوئی۔۔۔ آپ عالمی ڈائجسٹ پڑھتے ہیں؟
پہلے کبھی کبھار دیکھ لیتا تھا۔۔اب آپ کا ناول پڑھنے کے لیے ضرورخرید لیتا ہوں۔۔کیا میں سگریٹ پی سکتا ہوں؟
اب میں کیسے کہتا کہ آپ سگریٹ کیا شرع میں حرام مشروب مغرب بھی پیتے تو میری کیا مجال کہ روکتا۔
جی بلاتکلف۔۔۔ پڑھنے کے لیے آپ کو وقت مل جاتا ہے؟
آپ کے ناول ہوتے اتنی دلچسپ ہیں۔۔ہر بار ایک نیا موضوع۔۔۔اس نے سگرٹ جلاکے ایک کش لیا
آپ بار بار میرے ناول کہہ رہے ہیں۔۔
وہ ہنسا۔۔۔ ہوتے تو ناول انگریزی کے اور بہت ضخیم ہیں لیکن آپ تلخیص کرتے ہیں توبڑی خوبی سے تیس پینتیس صفحات میں سمیٹ دیتے ہیں اور پھر زبان اتنی اچھی۔۔ یہ آپ ہی کا کمال ہے۔
تھینک یو۔۔دراصل میں پورا ناول پڑھ کے ایک طرف رکھ دیتا ہوں۔۔کہانی میرے دماغ میں محفوظ رہ جاتی ہے،وہ میں اپنی زبان میں لکھ دیتا ہوں۔۔ہے تو ادبی بد دیانتی لیکن یہاں کے مزاج کو دیکھتے ہوئے کہیں بدلنا پڑ جاتا ہے۔۔مشکل نام ہوں تو آسان کر دیتا ہوں۔۔کہانیاں نہیں پڑھتے آپ؟
پڑھتا ہوں اگر وقت ہو۔۔ اس نے کہا،ابھی میں ایک کام سے آیا تھا،،اگر کچھ وقت ہو آپ کے پاس۔۔
حسب دستوراس سرکاری مہمان کے لیے بھی چائے کا پر تکلف اہتمام تھا،
میں ابھی ناشتا کر کے چلا تھا۔۔صرف چائے پلیز۔۔ وہ بولا، در اصل میں ایک فلم بنا رہا ہوں۔۔
فلم؟ میں یوں چونکا جیسے اس نے امریکہ کے صدارتی انتخابات لڑنے کی بات کی ہے۔ وہ۔۔میرا مطلب تھا
اس نے لگی لپٹی رکھے بغیر اعتراف کیا۔۔۔ سیدھی صاف بات ہے۔۔یہ میرا شوق تھا،اب کچھ پیسہ ہاتھ میں ہے۔۔ظاہر ہے اسے حلال کی کمائی کہنے کا فائدہ نہیں۔۔۔ اندازہ ہے کہ فلم بنے گی 4 لاکھ میں لیکن اندازے ہمیشہ دھرے رہ جاتے ہیں۔۔5 لاکھ ہونے چاہییں ۔۔ خیال ہے کہ آدھے میں لگاؤں اور آدھے لوں قرض پر۔۔فلم فنانس اکیڈیمی سے ایک لاکھ پچاس ہزار کی بات ہوگئی ہے۔۔اتنے ہی میرے ہوں گے۔
یہ تو ہوئے تین لاکھ۔۔ آپ کا اندازہ پانچ کا ہے۔۔
اس نے سر ہلایا، اس فلم میں ہیرو ہوں گےمحمد علی ۔۔ان کے مقابل ممتاز۔۔۔اور موسیقی ہوگی نثار بزمی کی۔۔یہ سب طے ہے۔۔ شاید آپ کو پتا ہو کہ ان دنوں کراچی کے فلم اسٹوڈیو ویران پڑے ہیں ۔محمد علی نے کچھ عرصہ پہلے حوصلہ افزائی کے لیے کہا تھا کہ یہاں کو ئی فلم بنائے تو میں بلا معاوضہ کام کرنے کو تیار ہوں،میں نے اس سے بات کی ہے۔معاہدہ کی رو سے وہ معاوضہ نہیں لے گا لیکن میں نے اسے اپنی مرضی کی ارجنٹ ڈیٹس لینےکے لیے تقریباً دو گنا معاوضہ دیا۔۔اس کا بھی فائدہ تھا انکم ٹیکس میں لیکن وہ شریف آدمی۔۔اس نے یہ بات سمجھ لی کہ میرا کیا فائدہ ہے اور مان گیا۔
یہ بات ممتاز کو پتا چلی تو اس نے خود مطالبہ کیا کہ پھر تو میں بھی بلا معاوضہ ہی رہوں گی۔۔اس کا بیان آجائے گا دو ایک روز میں کہ کراچی کی فلم انڈسٹری کی وہ کتنی بڑی خیر خواہ ہے۔۔۔۔ وہ ہنسنے لگا
میں نے کہا۔۔ اور دوسرے لوگ؟ ڈائریکٹر،موسیقار،فوٹو گرافر۔۔
سچی بات ہے۔۔نثار بزمی سے تو یہ بات کرنے کی ہمت بھی نہیں تھی مجھ میں۔۔وہ تھپڑ نہ مارتے تب بھی بے عزت کردیتے۔۔وہ حاجی پنج وقتہ نمازی اور انتہائی نیک سیرت آدمی۔۔ شاید آپ کو یہ بات معلوم نہ ہو۔۔مجھےکمال صاحب نے بتائی ۔۔کہ انہوں نے والد کو بھی حج کرایا۔۔اندازہ کر لیں وہ کتنے ضعیف ہوں گے لیکن نثار بزمی نے کسی پورٹر کو یہ ذمے داری نہیں دی۔۔خود انہیں کمر پر اٹھا کے طواف بھی کیا اور سارے ارکان حج اداکیے۔۔۔جی میں نے بھی علی سفیان آفاقی سے سنا تھا۔۔
لیکن اب یہ فرمائیے کہ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟میں نے کہا
وہی جو آپ کا کام ہے ۔آپ فلم کی کہانی لکھیں گے,
میں نے کچھ دیراس جواب پر غور کیا جو میرے ذہن میں تھا اور تمام ممکنہ نتائج پر بھی۔۔اقرار کی صورت تھی نہ انکار کی صورت ۔۔سوالی میرے چہرے سے میری ذہنی گو مگو کی کیفیت کو سمجھ گیا۔۔ اگر کوئی پرابلم ہے تو کھل کے بات کیجئے ۔
میں نے خود کو احساس دلایا کہ نام سے خان کو خارج کردینے کے باوجود میں اصلاً و نسلاً پٹھان ہوں اور اسلاف کی ہر داستان شجاعت کو یاد کیا اقبال کا قول دل ہی دل میں دہرایا کہ۔۔۔آئیں جواں مرداں حق گوئی و بے باکی۔۔اور صاف بات کی۔۔۔دیکھیے محترم ۔۔فلم کی دنیا سے میرا خوابوں کا رشتہ کوئی نہیں۔۔فلمیں دیکھنے کا سلسلہ میں نے ہوش سےسنبھالنے سے پہلے شروع کر دیا تھا لیکن ہیرو بننے کے لیے گھر سے بھاگ کےبمبئی جانے کا خیال مجھے کبھی نہیں آیا۔۔انڈسٹری میں ایک دلیپ کمار تھا پہلے سے۔۔جو کچھ سنا وہ بھی خاصا حوصلہ شکن تھا کہ اس نگری کے مایا جال میں دھوکا ہی دھوکا ہے۔۔یہاں بڑے بڑے ہیروز کے پیسے ڈبے میں بند ہو جانے والی فلموں کے ساتھ ڈوب گئے ۔یا فلمساز کھاگئے ۔۔دروغ بر گردن راوی۔۔ہمارے دوست حمایت علی شاعر کو غفار دانا والا نے فلم”لوری” کے پیسے نہیں دئیے ۔۔ میرے جیسا نووارد۔۔۔۔
اس نے میری بات کاٹ دی”ایک سادہ کاغذاور پین لادیں مجھے۔۔”
میں بادل ناخواستہ اٹھا۔۔خیال یہی تھا کہ وہ مجھے ایک تحریری وعدے کی ضمانت دے گا مگر وعدہ شکنی کی صورت میں وہ تحریر لے کر میں کہاں داد وفریادکروں گا۔ایف آئی اے والے میرے ارادے سے بھی پہلے مجھے عدالت میں پیش کر کے ایک اشتہاری مجرم ڈاکو قاتل کچھ بھی ثابت کر دیں گے،جب وہ لکھ رہا تھا تو میں اسے دیکھ رہا تھا۔جیسے مجرم سزا کا حکم لکھنے والے منصف کو دیکھتا ہے ۔جب اس نے لکھنا ختم کرکے کاغذ مجھے دیا تو میں نے اس پر صرف ایک سطر دیکھی۔۔۔”حامل رقعہ ھٰذا کو بیس ہزار روپے دے دئیے جائیں”
یہ کیا ہے جناب؟۔۔۔۔ میں نے بہت دیر اس تحریر کو دیکھنے کے بعد پوچھا۔۔
پیلی بھیت آئل ڈپو دیکھا ہے آپ نے لالو کھیت میں؟ وہ پھر سگرٹ جلاتے ہوئے بولا
میں نے سر ہلایا۔۔بالکل دیکھا ہے۔۔مین روڈ پر تین منزلہ عمارت ہے۔
یہ ان کے پاس لے جائیں ۔۔بتادیں آپ کو کس نے بھیجا ہے۔۔وہ اسی وقت 20 ہزار آپ کو ادا کر دیں گے۔۔آپ کو کہانی لکھنے کا معاوضہ ایڈوانس مل رہا ہے۔۔اب تو آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
میں دم بخود بیٹھا رہا۔۔یہ حکم حاکم تھا۔۔کس میں ہمت تھی کہ اس سے انحراف کرے۔۔یہ رقم کسی حساب میں نہیں جائے گی جو بالواسطہ طور پر خالص رشوت تھی۔۔اب پھر حلقہ دام کی گرفت میں میری ذات تھی۔۔گھر والی آج تک کہتی ہے کہ نہ میں زمانہ ساز ہوں نہ میرا ذہن کاروباری ہے ورنہ میں گھر آئی دولت کو نہ ٹھکراتا۔میں نے ہمت کرکے صاف بات کرنے کا فیصلہ کیا۔۔
میں یہ بیس ہزار ضرور وصول کرلیتا۔۔میرے ذہن میں کوئی شک و شبہ نہیں۔۔لیکن مجھے دو ماہ کی مہلت چاہیے ۔۔در اصل عالمی ڈائجسٹ کا ناول نمبر آرہا ہے دسمبر میں۔۔پہلے یہ کام ختم کرنا میری ذمے داری ہے۔۔کیا آپ مجھے اتنی مہلت دیں گے؟ میں جانتا ہوں کہ اب آپ کو انکار کرنا خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔۔۔
وہ مسکرایا۔۔ نہیں ۔۔زبردستی کوئی نہیں۔۔آپ کا احساس ذمے داری مجھے اچھا لگا۔۔میں کسی اور کو دیکھتا ہوں۔
وہ چلا گیا اور جاتے ہوئے بیس ہزار کا بیرر چیک بھی پرزہ پرزہ کر گیا۔۔ یہ شاید زیادہ بڑی کامیابی کا دروازہ تھا جو قدرت نے ملزم احمد اقبال کے لیے کھولا تھا اور جو میں نے خود بند کر دیا لیکن مجھے کوئی پشیمانی نہیں۔۔کہانی کار احمد اقبال کو قدرت نے اتنا نوازا کہ آج آپ اس کی کہانی پڑھ رہے ہیں
(جاری ہے)

Facebook Comments

احمد اقبال
تقریبا"50 سال سےمیں کہانیاں لکھتا ہوں موضوعاتی،قسطوار،مزاحیہ ۔شاعری کرتا ہوں۔ موسیقی، فلموں اور کرکٹ کا شوق ہے، یار باش آدمی ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply