کشمیر کی لاحاصل سفارتی و علامتی جنگ

کشمیر کی لاحاصل سفارتی و علامتی جنگ
ڈاکٹر سلیم خان ۔

امیت شاہ نے ابھی حال میں ممبئی کے اندر اپنے حلیف شیوسینا کو دھمکانے کے انداز میں کہا تھا کہ فردنویس کی حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے گی اور اگروسط مدتی انتخاب ہوئے تو ہم اکثریت حاصل کرلیں گے۔ اس دھمکی کانہایت دلچسپ جواب ادھو ٹھاکرے نے سامنا میں دیا ۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی مہاراشٹر میں اپنے ہندوتواوادی حلیف کے ساتھ جو لب و لہجہ استعمال کرتی ہے اسی انداز میں محبوبہ مفتی سے بات کیوں نہیں کرتی ؟ جبکہ وہ آئے دن عسکریت پسندوں سے ہمدردی جتاتی ہیں ۔ اس کے بعد سامنا کے اداریہ میں سوال کیا گیا کہ مہاراشٹر میں بی جے پی کی حکومت رہے گی یا نہیں اس سے اہم یہ ہے کہ کشمیر رہے گا یا نہیں ؟ کہیں ہمارے فوجیوں کی عظیم قربانیاں ضائع تو نہیں ہوجائیں گی؟ کشمیر کے حوالے سے حکومت ہند کی ناپختہ حکمت عملی ادھو ٹھاکرے کے اندیشوں کو قابلِ توجہ ٹھہراتی ہے۔ مرکزی حکومت کے پاس فی الحال کوئی واضح لائحہ عمل نہیں ہے۔ سیاسی دانشور جن میں بی جے پی کے یشونت سنہا بھی شامل ہیں جب گفت و شنید کی بات کرتے ہیں فوج کے سربراہ بپن راوت انسانی ڈھال کو جائز قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب تک امن قائم نہیں ہوجاتا بات چیت نہیں ہوسکتی ۔

یہ مرغی اور انڈے والا معاملہ ہے کہ بات چیت نہ ہو تو امن قائم نہیں ہوگا اور امن قائم نہ ہو تو بات چیت نہیں ہوگی ۔ سوال یہ ہے کہ اگر امن قائم ہوجائے تو بات چیت کی ضرورت ہی کیاہے؟ 2014 میں جب یہ حکومت بنی تھی تو وادی میں امن امان تھا اور اب خود فوجی سربراہ اعتراف کررہے ہیں کہ وہاں ایک گندی جنگ لڑی جارہی ہے۔تو کیا بی جے پی کی صوبائی اور مرکزی حکومت اس خانہ جنگی کے لیے ذمہ دار نہیں ہے؟ اور وہ اس سے نمٹنے کے لیے وہ کیا کررہی ہے؟ اس سوال کے جواب میں بھگت کہیں گے کہ مودی جی نے امریکہ کے ذریعہ سید صلاح الدین کو عالمی دہشت قرار دے دیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ امریکہ کے اسی اعلامیہ میں جموں کشمیر کو ہندوستان کے زیر انتظام علاقہ بتایا گیا ہے جو بعینہٖ پاکستان کا موقف ہے۔ امریکی بیان پر بغلیں بجانے سے قبل یہ بھی سوچنا چاہیے کہ پارلیمانی قرار داد کے مطابق مقبوضہ کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے اور سید صلاح الدین مقبوضہ کشمیر میں مقیم ہے تو یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ وہ پاکستان کی سرزمین کو استعمال کررہا ہے؟

سید صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دینے اور کشمیر کو ہندوستان کے زیر انتظام بتانے والا بیان بنی اسرائیل کی ایک قدیم حکایت یاددلاتا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ سے کسی نے کہا میرے لیے دعا کیجیے۔ حضرت موسیٰؑ نے اس کو بتایا کہ تیری دعا تو قبول ہوگئی لیکن اس شرط کے ساتھ کہ جو تجھے ملے گا اس کا دوگنا تیرے ہم سایہ کو مل جائے گا ۔ یہ سن کر اپنے پڑوسی سے ناراض شخص پریشان ہوگیا اور بہت غوروفکر کے بعد حضرت موسیٰ ؑ کو بولا کہ اللہ سے دعا کریں میری ایک آنکھ پھوٹ جائے تاکہ پڑوسی کی دونوں آنکھیں پھوٹ جائیں ۔ بغض عناد کی آگ میں اس نے بشارت کے باوجود کچھ حاصل کرنے کے بجائے اپنی ایک آنکھ گنوادی ۔ کشمیر کے معاملے میں ہندو پاک کےمخاصمت پر ایک لطیفہ یاد آتا ہے۔ ایک عورت کو فرشتے نے مژدہ سنایا کہ تیری ہر مراد پوری ہو گی مگر تیرے شوہر کو دوگنا مل جائے گا ۔اس پر وہ عورت بولی مجھے دل کا ہلکا سا دورہ پڑے ۔ ایسا ہی ہوا اس کے شوہر کو بھی دل کا دورہ پڑا مگر وہ اس سےدوگنا ہلکا یعنی بہت معمولی تھا ۔

سچ تو یہ ہے کہ ٹرمپ اور مودی کے مشترکہ اعلامیہ میں شمالی کوریا کا تو نام بنام ذکر ہے لیکن پاکستان یا کشمیر کہیں نظر نہیں آتا ۔ تو کیا یہ کوئی بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے؟ سید صلاح الدین سے قبل حافظ سعید اور داؤد ابراہیم کوبھی عالمی دہشت گرد قرار دیا جاچکا ہے لیکن کیا اس سے زمینی حقائق میں کوئی تبدیلی و اقع ہوتی ہے؟ سید صلاح الدین کو امریکی وزارت داخلہ نے جس اعلامیہ میں بین الاقوامی دہشت گرد قرار دیا اس میں یہ وجوہات بیان کی گئی ہیں ’’ ستمبر 2016 میں صلاح الدین نے کشمیر مسئلہ کے پرامن حل کی راہ میں روڑا اٹکایا ،اور خودکش حملہ آوروں کو تربیت دے کر وادیٔ کشمیر کو ہندوستانی فوج کا قبرستان بنادینے کی دھمکی دی۔ حزب المجاہدین نے صلاح الدین کی قیادت کے دوران کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی جس میں اپریل2014 کو ہندوستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں ہونے والا حملہ بھی شامل ہے جس کے اندر 17 لوگ زخمی ہوئے تھے۔‘‘ کشمیر کی دگر گوں صورتحال میں 17 لوگوں کا زخمی ہونا تو فی الحال کوئی خبرہی نہیں ہے ہاں ہندوستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کی اصطلاح یقینا ً چونکانے والی ہے۔ اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والے سنگھ پریوار کی اس پر خاموشی بلکہ اس بیان کی تعریف و توصیف مزید حیرت انگیز ہے ۔

امریکہ کے اس بیان پر حکومت ہند کی خاموشی اس بات کی غماز ہے کہ ہندو احیاء پرست جے این یو میں تو شیرکی مانند دھاڑتے ہیں لیکن امریکہ کے آگے بھیگی بلی بن جاتے ہیں ۔ ایک طرف تو یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے لیے شیاماپرشاد مکرجی نے جان دے دی اور دوسری جانب ہندوستان کے زیر انتظام والے کشمیر کے بیان پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد نے اس معاملے میں حکومت کی نکتہ چینی کی لیکن انہوں نے خود اس ماہ کی ابتداء میں کشمیر پر جو کتابچہ شائع کیا تھا اس میں بھارت کے نقشے پر کشمیر کو ہندوستان کا زیر انتظام کشمیر لکھا ہوا تھا ۔ کانگریس کی حرکت پر مرکزی وزیر روی شنکر پرشاد نے افسوس جتاتے ہوئے پوچھا تھا کہ کیا کانگریس پاکستان کی بولی بول رہی ہے؟ کشمیر کو ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کہہ کر کانگریس نے نہ صرف علٰحیدگی پسندوں کو بلکہ سرحد پار ان کے آقاؤں کو بھی خوش کردیا ہے ۔ لیکن امریکہ نے بھی تو وہی کیا جو کانگریس نے کیا تھا ؟ کیا اس سے علیحدگی پسندوں اور پاکستان کو خوشی نہیں ہوئی؟ اور اس پر حکومت نے احتجاج کیوں نہیں کیا ؟ اترپردیش کے ایک وزیر شری کانت شرما نے کانگریس کی غلطی کو غداری کہا تھا اور سونیا گاندھی سے معافی کا مطالبہ کیا تھا ۔شرما نے راہل گاندھی پر الزام لگایا تھا کہ وہ جے این یو میں غداروں سے اظہار ہمدردی کرچکے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کے جواب میں کانگریس کے اجئے ماکن نے اپنی غلطی کو تسلیم کرکے معافی مانگ لی لیکن یہ بات یاد دلائی کہ 28 مارچ 2014 کو اسی طرح کا نقشہ بی جے پی کی ویب سائٹ پرشائع ہو چکا ہے اوراسی سال چین کے ساتھ معاہدے پر دستخط کے وقت وزیراعظم کی موجودگی جو نقشہ شائع ہوا تھا اس میں اروناچل پردیش کو چین کا حصہ دکھایا گیا تھا ۔ بی جے پی اور کانگریس میں فرق یہ ہے کہ ایک فریق اپنی غلطی تسلیم کرلیتا ہے اور دوسرا اس کی نامعقول توجیہہ پیش کرکے اڑ جاتا ہے ۔ کشمیر کا مسئلہ دراصل نقشوں کی نقشے بازی سے کہیں زیادہ سنگین ہے لیکن حکومت اس کی سنگینی کا ادراک کرنے کے بجائے علامتی فتوحات سے اپنے آپ کو اور ملک کے عوام کو بہلا پھسلارہی ہے۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply