وقت اور شعوری عمل میں تغیر پذیری۔۔۔۔ قیصر عباس فاطمی

وقت آہستہ، تیز یا کسی بھی رفتار سے آگے ہی بڑھ رہا ہے۔ اس کا نہ کوئی آغاز ہے اور نہ ہی انجام۔ یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے جسے نہ روکنا ممکن ہے اور نہ واپس پلٹانا۔ اور یہ وقت ہے کیا؟ وقت کا اپنا کوئی ٹھوس وجود نہیں۔ بالفاظ دیگر وقت کسی اور شے کی صفت ہے۔ اگر سادہ لفظوں میں کہا جائے تو کسی قابل ادراک وجود میں ایک نقطے سے دوسرے نقطے تک تبدیلی وقت ہے۔ اور ایسی کوئی بھی شے وجود نہیں رکھتی جس میں تبدیلی کا عمل ایک لمحے کے لیے بھی رک جائے۔ تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تبدیلی لامتناہی ہے۔ اس کا نہ کوئی نقطہ آغاز ہے نہ انجام! اور تبدیلی کے اس آفاقی عمل کو روکنا محال ہے۔
ہم اپنے اردگرد کی دنیا پر نظر دوڑائیں تو ہر شے میں تبدیلی ہوتی نظر آئے گی، اور کسی بھی شے پر دوسری نگاہ ڈالیں، اس میں کوئی نہ کوئی تبدیلی، کسی نہ کسی لحاظ سے ضرور وقوع پذیر ہوئی ہو گی ۔ تاہم یہ بات اتنی سادہ بھی نہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہم ایک مثال لیتے ہیں۔ گھر میں پڑے گلدان میں شاید ہمیں روز دیکھتے رہنے کے باوجود کوئی تبدیلی نظر نہ آئے۔ مگر یہی گلدان اگر  کچھ ہفتوں  کے وقفے سے دیکھا جائے تو اس میں ضرور کوئی واضح تبدیلی نظر آئے گی۔

تبدیلی کا عمل سست یا تیز ہو سکتا ہے۔ مگر اس کا نہ ہونا، یا رک جانا ممکن ہے۔ اور یہی فطرت کا حسن ہے۔ یعنی تغیر! بدلاؤ ہی زندگی ہے۔ ایک شے کی موت دراصل کسی دوسری شے کی زندگی ہے۔ اور ایک شے کا زندہ ہونا کسی کے مرجانے کے باعث ہے۔ یہاں پر زندگی اور موت سے مراد آغاز اور انجام نہیں، بلکہ ایک نقطے سے دوسرے نقطے تک کا سفر ہے!

انسان کا وجود بھی اسی طرح قائم ہے ۔ بالفرض ایک انسان لامتناہی وقت تک ایک ہی شکل و صورت اختیار کیے رہ سکتا تو “نسل” کا تصور کیا معنی رکھتا؟ شکل و صورت، نین نقش، عمر، قد کاٹھ۔۔۔ کتنی خصوصیات ہیں جو ایک نسل سے دوسری نسل تک بدل جاتی ہیں۔ اب اگر یہی تبدیلی نہ ہو تو؟ وجود کے ساتھ ساتھ “شعور” کے بارے میں اندازہ لگائیں! اگرشعور میں تبدیلی نہ ہوتی تو؟

سائنسی اور سماجی علوم کی روشنی میں دیکھا جائے تو آج کا انسان پانچ ہزار سال پہلے کے انسانوں سے واضح طور پر مختلف ہے۔ وجود کے لحاظ سے بھی اور شعوری طور پر بھی۔ مگرایک نقطہ بہت اہم ہے، ہردور کے انسان نے اپنی آنے والی نسل کو وجود کے اعتبار سے خود سے بہتر بنانے کی کوشش کی اور شعوری طور پر پیچھے رکھنے (یعنی اپنے پچھلوں جیسا سوچنے، ماننے اور اسی پر عمل کرنے) کی۔ یہ سیدھی سی بات بہت کم لوگ سمجھ پائے کہ  “تبدیلی” کو روکنا یا پلٹانا ناممکن ہے، محال ہے۔ البتہ ہر دور کا انسان اپنی اس حماقت میں ناکام رہا۔

شعوری ترقی کا سفر روکنا ممکن نہیں۔ تبھی تو آج انسانوں میں فکری لحاظ سے اتنا اختلاف ہے۔ سات ارب انسان یقیناً پہلے کسی بھی دور میں سات ارب کے آس پاس بھی نہ ہوئے ہوں گے۔ چند ہزار یا بمشکل چند لاکھ ہی ہوئے ہوں گے۔ چاہے تخلیق کا نظریہ مانیے یا ارتقاء کا۔ جب وجودِ انسانی میں اتنا اضافہ ہوا ہے تو شعورِ انسانی کیسے کسی ایک ہی فکر، نظریے یا فلسفے تک محدود رہ پاتا؟ اور اگر شعوری ترقی کے اس عمل کو روکنے والے کامیاب ہو جاتے تو آج دنیا کہاں ہوتی؟ وہیں جہاں آج سے پانچ دس ہزار سال پہلے کا انسان تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یوں تو یہ عمل رکنے والا نہیں ہے، سقراط کو زہر دیا جا سکتا ہے، فکرِسقراط کو نہیں۔ تاہم، یہ بات سمجھنے لائق ضرور ہے کہ شعوری ترقی کے اس راستے کو کٹھن بنانے کی جگہ اس کو ہموار کیا جائے۔ فکر و تدبر کا رواج ماحول بنایا جائے۔ آج کی نسل کو آنے والے کل کے حوالے سے سوچنا سکھایا جائے، گزرا ہوا کل گزرے ہوئے انسانوں کے ساتھ گزر چکا۔  ہرانسان اپنے مستقبل میں سانس لے رہا ہے۔ ماضی میں جمود ہے، اور جمود موت ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply