مقدس ادارے۔۔۔قیصر عباس فاطمی

دنیا کے تمام ممالک میں کوئی ایک ادارہ ایسا ضرور ہوتا ہے جسے “تقدیس” کی حد تک نمایاں حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کی وجہ / وجوہات یہ ہو سکتی ہیں

1-ادارے کی تاریخی حیثیت

2-ادارے کی پیشہ وارانہ مہارتیں

3-ادارے کے اختیارات کا دائرہ کار

4-ادارے کی غیر جانبداری

5-ادارہ کا ملکی ترقی میں غیر معمولی کردار

(اس کے علاوہ بھی شاید کچھ وجوہات ہوں، احباب رہنمائی کر سکتے ہیں)

مثال کے طور پرریاست ہائے متحدہ امریکہ میں امریکی صدر اور امریکی سپریم کورٹ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ صدر اپنے اختیارات اور سپریم کورٹ  غیر جانبدار تشریحات اور اطلاق کی بنا پر تقریباً پوری دنیا میں ہی منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ کئی سیاسی مفکرین کے نزدیک امریکی سپریم کورٹ سب سے مضبوط ادارہ ہے۔ انتہائی بااختیار اور مضبوط ادارہ آپ کو امریکہ کی ڈھائی سو سالہ تاریخ میں کہیں پر بھی دوسرے اداروں کے دائرہ کار میں مداخلت کرتا نظر نہیں آئے گا۔ اسی طرح برطانوی پارلیمنٹ ایک مضبوط ترین ادارہ ہے۔ جس کے بارے میں تمثیلاً  یہ کہا جاتا  ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ مرد کو عورت اور عورت کو مرد بنانے کے علاوہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔ اور یہ نمایاں مقام برطانوی پارلیمنٹ کو عوام کی صحیح ترجمانی کرنے پر حاصل ہوا۔ اسی طرح چائینہ، رشیا، فرانس وغیرہ کو بھی دیکھ لیجیئے۔ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں فوج کو “برتر” اور “تقدیس” کی حد تک نمایاں حیثیت نہیں۔ یہاں تک کہ  جاپان میں پولیس بہت ہی منظم اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا حامل ادارہ ہے۔

امریکی، روس، چائینہ، فرانس، برطانیہ یہاں تک کہ اسرائیل کی افواج دنیا کی بہترین، منظم، اعلیٰ تربیت یافتہ اور غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل ہیں۔ مگر اپنے ملکی دفاع کے علاوہ حرام ہے جو کوئی فتنہ ان کے ذہن میں آتا ہو، اور کبھی اپنی قوم سے کہا ہو – ہم جاگتے ہیں  تو آپ سوتے ہیں، ہم جان دیتے ہیں  تو اپ کی جان سلامت ہے، ہم سرحدوں پر نہ ہوں تو دشمن آپ کو کھا جائے، ہم نہیں ہوں گے تو دشمن کی فوج ہو گی! کیونکہ یہ مضحکہ خیزباتیں وہاں نہیں چلتی۔ گاڑی کا ڈرائیور کیوں  بولے کہ میں نہ  چلاؤں تو گاڑی کھائی میں جا گرے گی؟ ڈاکٹر بول سکتا ہے کہ میں نے آپریشن کے لیے بدن کاٹ تو دیا ہے اب نہ  جوڑوں تو مر جاؤ  گے؟ استاد کہہ سکتا ہے کہ میں ہوں تو استاد مگر نہ  پڑھاؤں  تو ان پڑھ رہ جاؤ گے؟ یا پوسٹ مین  یہ کہہ دے کہ میں نہیں ہوں گا تو خط کون پہنچائے گا؟ بھئی جو کام سونپا گیا ہے اور اسے آپ نے اپنی مرضی سے تمام مراعات کے ساتھ قبول کیا ہے وہ تو کرنا ہی ہوگا۔ چاہیے اس میں جان ہی کیوں نا چلی جائے۔ ہزاروں پولیس، ڈاکٹر، انجینئر ، صحافی ٹیچر اور ہر طرح کے پیشے سے وابستہ لوگ اپنی ڈیوٹی کے دوران جان دے دیتے ہیں۔ ان کی فرض شناسی پر قوم فخر کرتی ہے۔ اور یہ ان کے ادارے کے لیے بھی قابل فخر ہوتا ہے ۔

اب ذرا تیسرے درجے کے ممالک دیکھیے۔ گھانا، چاڈ، سوڈان سے گننا شروع کریں اور مصر، لیبیا اور شام سے ہوتے ہوئے افغانستان تک آ جائیں۔ ہر جگہ آپ کو یا تو کمزور جمہوری نظام ملے گا یا “نام نہاد” مضبوط فوج جو فوجی یا سول آمروں کے مفادات کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہو گی۔ لوگ فوج کو بے پناہ پوجتے نظر آئیں گے ، اور ڈرے ہوئے سہمے ہوئے کہ فوج نہیں ہو گی تو کیا بنے گا۔ بھئی فوج کیوں نہ  ہو؟ آپ کا ملک ہے اور دفاع کے لیے فوج ہی رکھنی ہے نا؟ مگر کسی نے (اگرچہ پاکستان کے لیے) سچ کہا تھا کہ ہر ملک کی ایک فوج ہوتی ہے مگر (پاکستان) ان فوجوں کے پاس ملک ہیں۔

پرانی سلطنتوں میں بادشاہ فتوحات سے لیکر نظم و نسق قائم کرنے تک اپنی فوجوں کا ہی سہارا لیتے تھے، کیونکہ عوام کو سیاسی حقوق حاصل ہی نہیں تھے۔ اور بادشاہ خود بھی فوجی ہی ہوتے تھے- اس لیے عوام کے دل میں رعب و دبدبہ اور تقدیس والی بات ہوتی تھی۔ عوام کو تنقید کا حق ہر گز حاصل نہیں تھا اور ایسی تنقید کی سزا جان سے ہاتھ دھو بیٹھنا ہوتا تھا۔ مگر اب ہم ایک نئے زمانے میں رہ رہے ہیں۔ یہاں ہر شہری کی ذمہ داریاں ہیں، اور ہر شہری کے حقوق! پھر کوئی بھی ادارہ  خواہ کیسا ہی کیوں نا ہو، وہ عوام یا عوام کے نمائندوں کے سامنے جوابدہ ہے۔

پاکستان میں ماضی میں  فوج کا کردار انتہائی شرمناک رہا ہے۔ ہر فوجی جوان جس نے اپنے حلف میں سیاست میں مداخلت نا کرنے کا اقرار کیا ، اسے سول حکومتوں پر شب خون مارنے سے پہلے ڈوب کر  مر جانا چاہیے تھا کہ یہی اپنے فرض سے غداری شروع ہو گئی۔ (اگرچہ بہت سے قابل اور فرض شناس فوجیوں نے استعفے بھی دیئے)۔ دوسری اہم بات سول حکومتوں کو کھڈے لائن لگا کر خارجہ امور میں مداخلت کرنا۔ جس کا صلہ طالبان جیسے سانپوں کی صورت میں ملنا،  اور لاکھ سے زیادہ پاکستانی جانوں کا ضیاع ہے، کی  ذمہ دار بھی پاکستانی فوج ہے۔ تیسری اور اہم بات، دیکھا جائے تو پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے اعتبار سے پاکستانی فوج نے کوئی خاص کارنامہ بھی نہیں دکھایا، پاکستان دو لخت ہو گیا، جنگوں میں پاکستان کو کوئی قابل  ذکر فتح نہیں ملی، کشمیر آزاد نہیں  ہوسکا۔ ملک میں امن وا مان قائم ہوتے ہوتے اتنا وقت گزر چکا کہ اب بم دھماکے اور خون اور لاشیں معمول لگتی ہیں۔ البتہ ڈی ایچ اے، فوجی سیمنٹ، فوجی دلیہ، عسکری بینک، عسکری انشورنس، چینی اور کھاد کے کارخانوں سمیت کمزور شہریوں کو غائب کرنے اور عائشہ صدیقہ کی “ملٹری ان کارپوریشن” جیسی  کتابوں پر پابندیاں لگوانے کا کام بہت خوبی سے سرانجام دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان کے ہر ادارے کے ہر فرض شناس اور دیانت دار فرد کو سلام!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply