• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عالمی اسلامی فوج کی تشکیل اور دہشتگردی کی بڑھتی لہر!

عالمی اسلامی فوج کی تشکیل اور دہشتگردی کی بڑھتی لہر!

عالمی اسلامی فوج کی تشکیل اور دہشتگردی کی بڑھتی لہر!
رحمت خان وردگ:

برطانیہ میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد وہاں پر مقیم مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے اور مقامی سکیورٹی فورسز کی جانب سے مسلمانوں سے پوچھ گچھ اور تفتیش میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اگر خدانخواستہ اسی طرح دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا چلا گیا تو مستقبل میں مسلمانوں کے لئے مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔برطانیہ میں دہشت گردی وہی ملک کرارہا ہے جس کا مقصد برطانیہ کو مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی نام نہاد جنگ میں اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا ہے اور برطانیہ میں دہشت گردی کر اکر اس کا الزام مسلمانوں پر عائد کیا جانا اسی منصوبہ بندی کا حصہ ہے جس سے مسلمانوں کے لئے یورپ‘برطانیہ اور امریکہ سمیت مغربی ممالک میں زمین تنگ کرنا ہے اور برطانیہ میں حالیہ حملوں کے بعد امریکہ ان مقاصد میں کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے،اسی طرح فرانس سمیت یورپی ممالک میں بھی حملوں کا خطرہ ہے اور ان تمام واقعات کا مقصد مسلمانوں کے خلاف عالمی اتحاد کو مزید مضبوط بنانا ہے۔

عالمی سطح پر دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔تازہ واقعات میں برطانیہ،افغانستان اور ایران سمیت چند ممالک میں دہشت گرد حملے ہوئے ہیں۔برطانیہ میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ افغانستان میں حملوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے جس میں حملہ آور پارلیمنٹ اور اہم سرکاری عمارات کو نشانہ بنانے میں کامیاب نظر آتے ہیں اور دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہونیوالوں کے جنازے کو بھی حملوں کا نشانہ بنایا گیا جس سے سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں اور افغانستان کی موجودہ حکومت اس سلسلے میں مکمل طور پر بے بس نظر آتی ہے،اسی طرح ایران میں پارلیمنٹ ہاؤس اور امام خمینی کے مزار پر حملے کئے گئے جس میں درجن سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں اور ایران نے ان حملوں کا الزام براہ راست سعودی عرب پر عائد کیا ہے جبکہ حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی ہے۔

سعودی عرب میں گزشتہ چند برس سے دہشت گردی کے واقعات جب بھی ہوئے ہیں‘سعودی حکام نے ان حملوں کا الزام ہمیشہ ایران پر عائد کیا ہے اور کچھ عرصہ قبل سعودی عرب کی جانب سے 43 ملکی عالمی اسلامی فوج کے قیام کا اعلان کیا گیا جس کا ہیڈ کوارٹر سعودی عرب کے دارالخلافہ ریاض میں ہوگا۔عالمی اسلامی فوج کی تشکیل کا اعلان سامنے آتے ہی میں نے اس سلسلے میں تفصیل سے تحریر قارئین کے گوش گزار ی تھی اور یہ بات واضح کی تھی کہ اگر عالمی اسلامی فوج کی تشکیل کا واحد مقصد مسلمانوں پر دہشت گردی کے لیبل کو ہٹانا ہے اور فرقہ واریت وتعصب سے بالا تر ہوکر پوری امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر درست طریقے سے دین اسلام کی تعلیمات اور اسلامی معاشرے کے پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے تو پھر یہ بالکل درست اور قابل تحسین فیصلہ ہے جس سے یقینی طور پر دہشت گردی سے مسلمانوں کے تعلق کی سازشوں کو بہترین طریقے سے ناکام بنایا جاسکتا ہے۔

اور جنرل راحیل شریف اس سلسلے میں اپنا بہترین کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن اگر عالم اسلام کو ایک نئی جنگ میں جھونکنا ہے تو پھر یہ عمل نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ پاکستان کو اس قسم کے کسی اتحاد کا نہ تو حصہ بننا چاہیے اور نہ ہی جنرل راحیل شریف کو اس کی سربراہی قبول کرنی چاہیے،چند روز قبل امریکی صدر ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے واقع پر منعقد سربراہی کانفرنس میں امریکی صدر ٹرمپ اور سعودی سربراہ مملکت کے خطاب میں مستقبل میں ان دونوں ممالک کے خطرناک عزائم کھل کر دنیا کے سامنے آگئے اور دونوں ممالک نے ایران کو خوفناک نتائج کی دھمکیاں دیں۔ سعودی عرب نے تو ایران کو دنیا میں فساد کی جڑ قرار دے دیا۔اس خطرناک صورتحال کے بعد پاکستان کو قطر کی طرح فوری طور پر اسلامی فوجی اتحاد سے نہ صرف علیحدگی اختیار کرنی چاہیے بلکہ جنرل راحیل شریف کو بھی فوری طور پر اس عہدے سے دستبردار ہو جانا چاہیے کیونکہ اسلامی فوجی اتحاد کا مقصد ایران کے خلاف پوری اسلامی دنیا کو برسرپیکار کرکے مسلمانوں کو ایک نئی جنگ میں جھونکنا ہے۔

پاکستان کو واضح طور پر موقف اختیار کرنا چاہیے کہ پاکستان کی مسلح افواج صرف اور صرف مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں اور اس کے علاوہ کسی ملک کی جنگ میں پاکستان کو کوئی کردار بھی نہیں ہوگا اور پاکستان ہمیشہ اسلامی ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کے قیام کا حامی رہا ہے۔ ایران کی پارلیمنٹ اور امام خمینی کے مزار پر حملوں کے بعد سعودی ایران کشیدگی ایک بار پھر اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے اور امریکہ کے لئے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے بہترین سازگار حالات پیدا کردئیے گئے ہیں۔مصر‘شام‘لیبیا کے حالات اور ایران پر دہشت گرد حملوں کے بعد امریکی ‘سعودی گٹھ جوڑ سے ایک بار پھر روس کو عالمی کردار مل چکا ہے اور روس کی جانب سے قطر اور ترکی کو ہمنوا بنا کر ایک نئے اتحاد کے قیام کی جانب پیشرفت کی جارہی ہے جو امریکہ اور سعودیہ کے خلاف اسلامی ممالک کو استعمال کرنے کی کوشش ہے۔

تیزی سے بدلتے حالات اور اتحادوں کے قیام کا واحد مقصد طرفین کی جانب سے مسلمانوں کو ہر صورت تباہ و برباد کرنا ہی ہے اور امریکہ‘بھارت اور اسرائیل ہو یا روس کی جانب سے قائم کردہ اتحاد‘ دونوں صورتوں میں طاقت کا شکار صرف مسلمان ہی ہوں گے اور اب بھی دنیا بھر میں مسلمانوں کی مسلسل تباہی جاری ہے جس کے ذمہ دار یہود و نصاریٰ کے ساتھ ساتھ مسلم حکمران خود بھی ہیں۔موجودہ تیزی سے بدلتی صورتحال میں مستقبل قریب میں پاکستان کا عالمی کردار بہت اہمیت کا حامل ہوگا کیونکہ پاکستان واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہے۔پاکستان کو اس تیزی سے بدلتی عالمی صورتحال میں سعودی ایران تنازعے میں ثالث کا کردار ادا کرنا چاہیے اور دونوں ممالک پر یہ باور کرانا چاہیے کہ ان کے باہمی تصادم سے درحقیقت امت مسلمہ کو شدید نقصان پہنچے گا اور ہر مسلم دشمن قوتیں پروان چڑھیں گی۔

اس کے ساتھ ساتھ افغانستان میں ہونیوالی دہشت گردی میں ملوث عناصر کو افغان حکومت پر درست طریقے سے بے نقاب کیا جانا بہت ضروری ہے تاکہ پاکستان پر الزامات عائد کرنے کا نہ صرف سلسلہ بند ہوسکے بلکہ افغانستان میں امن کے دشمنوں کے خلاف افغانستان سے مل کر کارروائیاں کرنا ضروری ہے اسی طرح پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث افغان فیکٹر کے خلاف بھی کابل کو کارروائی کرنی ہوگی،بہر حال ان حالات میں ہمیں بہت سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے ہوں گے او ر ماضی میں روس افغان جنگ کی طرح کی کسی حماقت کے اب ہم متحمل نہیں ہوسکتے۔افغانستان میں مسلسل حملوں سے امریکہ و بھارت کے ہاتھوں کٹھ پتلی افغان حکومت بیکار ہوچکی ہے اور اس کی رٹ اب دارالخلافہ کابل میں برقرار رہتی نظر آرہی ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی میں بھارت ملوث ہے اور اس کا ثبوت گزشتہ ماہ امریکی بم حملے میں داعش کے ٹھکانے میں درجنوں بھارتیوں کی ہلاکت ہے۔داعش کے ٹھکانے میں بھارتی شہری کیا کررہے تھے؟ظاہر ہے داعش ہی افغانستان میں حملوں کی ذمہ داریاں قبول کر رہی ہے اور بھارتی خفیہ ایجنسی ہی داعش کے پس پردہ افغانستان میں فعال ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بھارت کی جانب سے اس طرح کی کارروائیوں کا مقصد ایک طرف افغانستان میں اپنے پنجے مزید گاڑنا ہے اور افغان حکومت کو دہشت گردی کے خلاف مکمل امداد فراہم کر کے وہاں پاکستان کے خلاف مزید سرگرم ماحول پیدا کرنا ہے اور دوسری طرف افغانستان سے بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرکے پاکستان میں جاری سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں جاری رکھنا ہے۔افغانستان میں گزشتہ ایک دہائی سے موجود امریکی فوج نے اب تک کیا کیا؟کئی برسوں افغانستان میں مقیم رہنے والی امریکی ویورپی نیٹو افواج کا بل کو ہی محفوظ نہیں بنا سکیں؟یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اور امریکہ ونیٹو کے لئے درحقیقت حزیمت کا باعث ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply