ہماری ایک فیسبک فرینڈ مریم مجید صاحبہ نے آج اپنی ایک پوسٹ میں اس سیاہ تتلی کی تصاویر لگائی ہیں جو انہوں نے آزاد کشمیر کے ایک مقام باغ میں ایک بہت خوبصورت آبشار کے پاس دیکھی اور اپنے کیمرے میں قید کرلیا۔ جو احباب مریم مجید سے واقف ہیں وہ ان کے قلم اور تخیل کی پرواز اور اس کو الفاظ میں سمونے کے فن سے واقف ہیں۔ وہ اس تتلی کے بارے میں کیا کہتی ہیں اس کے لئے میں ان ہی کی پوسٹ سے ایک اقتباس پیش کررہا ہوں۔
“چٹانی دیوار پر آبی پودے، مختلف بیلیں اور زرد اور جامنی پھولوں کے
گچھے اُگے ہوئے تھے اور پانی جو بلندی سے گرنے کے باعث باریک غبار کی صورت اختیار کر لیتا تھا وہ ان کی پتیوں پر سفید تتلیوں کی صورت اترتا تھا۔ میں باقی لوگوں سے بے خبر گردن اٹھائے آبشار کو تکنے کی کوشش کرتی تھی مگر قرب محبوب بصارت دھندلا دیتا تھا ۔ آنکھوں میں گھستا پانی بہت دیر دیکھنے کی اجازت نہ دیتا تھا اور تبھی میں نے اس سفید غبار میں ایک سلو موشن میں اترتی سیاہ شے دیکھی۔ پہلے مجھے لگا یہ شاید کسی درخت کا پتہ ہے جو اس نیم دیوانگی میں مجھے سیاہ دکھ رہا ہے مگر اس کی حرکت اور اترنے کے انداز میں ایک اختیاری جھلک تھی ۔ یعنی وہ کوئی زندہ شے تھی۔ اور بے حد سیاہ! مگر کیا؟؟
وہ کوئی آبی پرندہ بھی نہیں تھا کہ اس کی جسامت بہت مختصر اور پرندے سے الگ تھی۔ سفید پانی کے پس منظر میں اس کا انوکھا سیاہ رنگ بہت نمایاں تھا ۔ میں تجسس سے مجبور ہو کر آخری ممکن حد تک قریب ہوئی اور وہ سیاہ شے کسی شہنشاہی تمکنت سے ایک جامنی پھول پر اتری۔ اور تب میں نے جانا کہ وہ ایک تتلی ہے۔ بڑے حجم کی مکمل سیاہ تتلی جس کے پروں میں کسی اور رنگ کا دھبہ تک نہ تھا۔ جیسے کوا مکمل سیاہ ہوتا ہے ۔ ویسے ہی وہ جادوئی سیاہ تتلی تھی جو کم از کم میں نے تو پہلی مرتبہ دیکھی تھی۔ اور اس مکمل تنہائی کی نم آلود سلطنت میں وہ پہلی مکمل خشک شے تھی کہ اس کے چمکتے سیاہ پر بے حد سبک تھے۔ جانے کس قسم کی واٹر پروف کوٹنگ اس کے پروں پر تھی کہ اس نم غبار میں بھی وہ کسی بیلے رینا کی مانند اڑان کرتی تھی۔ میں اسے دیکھتی رہی۔ وہ جامنی پھول پر کچھ پل بیٹھی رہی۔ پنکھ پھیلاتی اور سمیٹتی رہی اور پھر اڑ گئی۔”
(مریم مجید)
مجھے یہ تتلی دیکھتے ہی بابا یحی کی کتاب کاجل کوٹھا یاد آگئی۔۔
اس تتلی یا بالکل ایسی ہی کالی سیاہ تتلی کا ذکر بابا یحی نے اپنی کتاب کاجل کوٹھا یا پیا رنگ کالا میں کیا ہے۔ وہ ایک فریم اور شیشے میں قید حنوط شدہ سیاہ تتلی غالبا” لندن کی فٹ پاتھ پر کوئی فلپینو یا چینی خاتون بیچ رہی تھی۔ اس تتلی کو دیکھ کر بابا یحی کی بھی کم و بیش مریم جیسی ہی کیفیت تھی ۔ لیکن وہ چاہتے ہوئے بھی اس حنوط شدہ تتلی کو خرید نہ پائے کیونکہ شاید اس وقت ان کے پاس پورے پیسے نہ تھے کہ وہ صبح کی چہل قدمی کے ارادے سے نکلے تھے۔ مارے بھاگے جب گھر سے پیسے لے کر دوبارہ اس کباڑی خاتون کے پاس پہنچے تو تتلی فروخت ہوچکی تھی۔
اس تتلی میں ایک عجیب سحر عجیب پراسراریت سی ہے۔ اس کا حجم اور وزن بتاتا ہے کہ یہ دوران پرواز عام تتلیوں کی طرح سرعت سے نہیں بلکہ سلو موشن میں اڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہوگی جس کے چارم سے انسان مسحور ہو جاتا ہوگا۔۔۔۔
قدیم یونان میں تتلی کو روح کی علامت سمجھا جاتا تھا کیونکہ یہ ایک کیٹر پلر یا سنڈی سے شکل تبدیل کر کے پرواز کرجاتی ہے بالکل جیسے کہ جسم سے روح نکل کر پرواز کر جاتی ہے۔ تتلی کی شکل کلہاڑی کے دو پھل جیسی ہوتی ہے جو مخالف سمت میں ایک دوسرے سے جڑے ہوں۔ یہی علامت قدیم یونانی دیوی منون کا بھی تھا۔ آجکل دنیا میں تتلی کو تبدیلی یعنیTransformation
کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
یہ سیاہ رنگ کی بڑی تتلی صوفیانہ یا تمام پراسرار علوم میں انتہائی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے اور اس کا تعلق روح و موت سے جوڑا جاتا ہے۔ بدھ بھکشو اور روحانی معالج اس کا نظر آنا ایک بدشگونی سمجھتے ہیں۔ یہ سیاہ تتلی اپنی پرواز کے انداز اور مسحور کن انتہائی سیاہ چمکدار رنگ کی وجہ سے دیکھنے والے پر ایک خواب کی سی کیفیت طاری کردیتی ہے جس سے دیکھنے والا ہپناٹائز ہوجاتا ہے اور وہ جاگتی حالت میں بھی اس نظارے کو ایک خواب جیسا سمجھتا ہے۔ یہ ایک پیغام رساں فرشتے جیسی ہوتی ہے۔
مختلف مذاہب اور کلچر میں سیاہ تتلی کو منفی اور مثبت دونوں طرح کی علامات کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یعنی اس کا نظر آنا نحس بھی ہوسکتا ہے اور نیک شگون بھی۔ عام طور پر اس کو موت یا خاتمے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہ خاتمہ کسی تعلق، ملازمت، کسی پلان یا آئیڈیا کا بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں اس بدشگونی یا نیک شگونی پر قطعی یقین نہیں بلکہ توبہ استغفار اور صدقے میں ہر آفت سے حفاظت ہے۔ کچھ کلچرز میں اس کو ازسر نو پیدائش، ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقلی یا تجدید کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے یعنی سیاہ تتلی نظر آنے کا مقصد ہے کہ آپ زندگی کے کسی نئے دور میں داخل ہونے والے ہیں جو پہلے دور سے بہتر اور روشن ہوگا۔
دنیا کے کئی ملکوں مثلاً وسطی امریکہ فلپائنز اور چین میں سیاہ تتلی کو موت کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ خاص طور پر اگر سیاہ تتلی یا پروانے گھر کے اندر نظر آئیں تو یہ اس بات کی علامت سمجھی جاتی ہے بلکہ وارننگ کہ گھر میں خدانخواستہ کسی کی موت ہونے والی ہے۔
آئر لینڈ میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سیاہ تتلیاں ان مرے ہوئے افراد کی ارواح ہیں جو کسی وجہ سے اڑنے کے قابل نہیں ہیں۔ وہ ان تتلیوں کا روپ دھار کر دنیا میں ایسے مقامات پر اڑتی پھرتی ہیں جہاں جانا ان کو اپنی زندگی میں پسند تھا۔
ایک جاپانی لڑکا لکھتا ہے کہ جب اس کی دادی کا ایک سو چار برس کی عمر میں انتقال ہوا تو دادی کی آخری مذہبی رسومات کے دوران ایک بڑی سیاہ تتلی مستقل جنازے کے آس پاس منڈلاتی رہی۔
اب یہ سیاہ تتلی خواہ خواب، نئی زندگی، موت، طاقت، جنسی تسکین، تبدیلی، منحوست، یا تجدید کی علامت سمجھی جاتی ہو لیکن بطور مسلمان ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ یہ اس قادر مطلق کی تخلیق کردہ کروڑھا مخلوق میں سے ایک ہے۔ اس کی خوبصورتی دیکھ کر انسان سبحان اللہ کہہ اٹھتا ہے۔
جاپانیز مونسٹر کے نام سے موسوم یہ تتلیاں ملائیشیا کے بٹر فلائی گارڈن کی بھی زینت ہیں۔ یونانی دیویوں کے جیسے ساحرانہ حسن سے مزین یہ تتلیاں پاکستان میں نایاب ہیں۔ انکے پنکھ عام تتلی کے مقابلے میں بھاری ہوتے ہیں جسکی وجہ انکے پروں کے نیچے بہت چھوٹے پر لاتعداد ہوتے ہیں جسکی وجہ سے اسے پنکھ بار بار پھیلانے کی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ گلائڈ کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
بدھ مت سے جنم لینے والے ہندو مت میں اسے کالکا کی رنگت سے مشابہت کی بنا پر منحوس تصور کیا جاتا تھا لیکن بابل میں اسکا پالینا خوش بختی کی علامت تھا۔
یہاں برسبیل تذکرہ ذکر کردوں کہ غزوہ بدر میں مجاہدین 311 بن رہے تھے۔ مکہ کے جیوتشیوں کو اپنا حساب حق میں لگ رہا تھا اور انہوں نے مدینہ پر چڑھائی کا عندیہ دے دیا۔ کفار کا لشکر ابھی بدر کے راستے میں تھا کہ دو بھائی معوذ اور معاذ باوجود کم عمری کے اسلامی لشکر کا حصہ بن گئے۔ یوں یہ لشکر 313 کی تعداد تک جا پہنچا۔ جیوتشیوں نے بعد میں حساب لگایا تو شکست نظر آئی۔ انہوں نے کفار کے لشکر کو روکنا چاہا لیکن اب دیر ہوچکی تھی۔ اور نتیجہ مسلمانوں کی شاندار فتح کی صورت سامنے آیا۔ اس کے بعد ہی کفر میں 13 کا ہندسہ نحس قرار پایا ضرب المثل بن گئی کہ تین میں نہ تیرہ میں۔ یوں دیکھا جائے تو جو شیطانی قوتوں کے لیے نحس تھا وہی مسلمانوں کے لیے بخت آور ثابت ہوا۔
اس روایت کے بیان کرنے کا مقصد اتنا ہے کہ مسلمان کی حیثیت سے نحوست کوئی شے نہیں کہ اللہ ہی سب پر قادر ہے۔ لہذا ایک حسین تخلیق کو دیکھ کر سبحان اللہ کہا جائے اور نحوست کے تصورات کو اہل کفر کے حوالے کردیا جائے تو باعث خیر ہوگا۔۔۔
لیکن اتنا ضرور اندازہ ہے کہ پراسرار مخفی علوم، روحانیات، کالے جادو اور عملیات میں اس سیاہ تتلی کو بڑی اہمیت حاصل ہے ورنہ بابا یحی اس حنوط شدہ سیاہ تتلی کے لئے اتنے بے چین نہ ہوتے۔
اور اس کے فروخت ہوجانے پر کف افسوس نہ ملتے۔ لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ سب ان کے سیاہ رنگ سے والہانہ عشق کا نتیجہ ہو جو ایسی نایاب سیاہ تتلی ہاتھ سے نکل جانے پر پچھتاوا بن گئی ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں